بن حزم بن یزید بن لوذان بن عمرو بن عبد بن عوف بن غنم بن مالک بن نجار انصاری خزرجی، نجاری: ابو طوالہ کے دادا اور عمرو بن حزم کے بھائی تھے۔ یہ محمد بن سعد کاتب الواقدی کا قول ہے۔ بیعت رضوان اور بعد کے غزوات میں شریک رہے اور یہ ان دس آدمیوں میں سے ہیں۔ جنہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ کے ساتھ بصرے روانہ کیا تھا۔ ابو موسیٰ اور ابو نعیم نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
ابو خزامہ سعدی کے والد تھے: ایک روایت میں ان کا نام یعمر مذکور ہے۔ یعقوب بن سفیان نے اپنی تاریخ میں ابو خزاعہ بن معمر السعدی سعد ہذیم قضاعی لکھا ہے۔ نیز بیان کیا ہے، کہ ابو صالح نے لیث سے انہوں نے یونس سے انہوں نے ابنِ شہاب سے انہوں نے ابو خزاعہ سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ انہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، یا رسول اللہ! ہم بعض اوقات کسی تکلیف کے ازالے کے لیے منتر جنتر سے، کبھی بیماری کے لیے دوا سے اور مرض سے بچاؤ کے لیے پرہیز سے کام لیتے ہیں۔ کیا ان معاملات میں بھی قدرتِ خدا وندی کو دخل ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ اشیاء بھی تقدیر خدا میں شامل ہیں۔ ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن ابی سرح بن ربیعہ بن ہلال بن اہیب بن ضبہ بن حارث بن فہر قرشی فہری: غزوۂ بدر میں شریک تھے بقول واقدی ۳۰ ہجری میں وفات پائی۔ ان کی کنیت ابو سعید تھی۔ یہی قول ابو معشر کا ہے انہوں نے نام معمر بن ابو سرح بیان کیا ہے، لیکن موسیٰ بن عقبہ، ابنِ اسحاق اور ابنِ کلبی نے عمرو بن ابی سرح لکھا ہے۔ نیز ابن کلبی نے ان کا نسب ہلال بن مالک بن ضبہ لکھا ہے، یعنی اہبب کی جگہ ضبہ لکھ دیا ہے۔ ہم عمر کے ترجمے میں یہ امر بیان کر آئے ہیں۔ ابو عمر اور ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن عبد اللہ بن نضلہ بن عبد العزی بن حرثان بن عوف بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب القرشی عدوی: ابن المدینی نے یوں لکھا ہے: معمر بن عبد اللہ بن نافع بن نضلہ: یہ وہی شخص ہیں جو معمر بن ابی معمر کہلاتے ہیں۔ قدیم الاسلام ہیں، حبشہ کی، ہجرت ثانیہ میں شامل تھے۔ ان کی ہجرت مدینہ رکی رہی اور یہ حبشہ سے ان لوگوں کے ساتھ واپس ہوئے جو دو کشتیوں میں سوار ہوکر دار مدینہ ہوئے تھے۔ انہوں نے لمبی عمر پائی، مدنی کہلاتے تھے۔ حجۃ الوداع میں انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال صاف کیے تھے۔ ان سے سعید بن مسیب اور بشر بن سعید نے روایت کی ہے۔ اسماعیل و ابراہیم بن محمد نے باسناد ہماتا ابو عیسی محمد بن عیسی سے انہوں نے اسحاق بن منصور سے انہوں نے یزید بن ہارون سے انہوں نے ابن اسحاق سے۔ انہوں نے محمد بن ابراہیم سے انہوں نے سعید بن مسیب سے انہوں نے معمر بن عبد اللہ بن نضلہ سے روایت کی، کہ حضور اکرم صلی ا۔۔۔
مزید
بن عدی بن حد بن عجلان بن ضبیعہ بن حارثہ بن ضبیعہ بن حرام بن جعل بن عمرو بن جشم بن روم بن ذبیان بن ہمیم بن ذہل بن ہنی بن بلوی: یہ بنو عمرو بن عوف کے حلیف اور عاصم بن عدی کے بھائی تھے۔ تمام غزوات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود رہے۔ ابو جعفر نے باسنادۂٖ بہ سلسلۂ شرکائے بدراز بنو عمرو بن عوف اور معن بن عدی بن جد بن عجلان بن ضبیعہ جوان کے حلیف تھے اور اسی اسناد سے انہوں نے ابن اسحاق سے یہ سلسلۂ شرکائے بدر از بنو عبید بن زید بن مالک اور ان کے حلیفوں سے بن عدی بن عجلان بن ضبیعہ سے جو روایت کی ہے۔ یہ صاحب لاولد تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور یزید بن خطاب میں رشتۂ مواخات قائم کیا، یہ دونوں صاحب جنگِ یمامہ میں شہید ہوگئے تھے۔ مالک بن انس نے ابن شہاب سے انہوں نے سالم سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے، تو لوگ روتے تھے او۔۔۔
مزید
بن یزید بن اخنس بن حبیب بن جرہ بن رغب بن مالک بن خفاف بن امرؤ القیس بن بہشہ بن سلیم السلمی: معن ان کے والد اور دادا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ ان کی کنیت ابو یزید تھی۔ یزید بن حبیب کا قول ہے کہ معن اپنے والد اور دادا کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک تھے ابو عمر کہتے تھے کہ ان کی یا ان کے والد اور ان کے دادا کی شرکت کی روایت درست نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں صحیح روایت ابو الجویریہ کی ہے جو ابو الفضل بن ابو الحسن طبری فقیہ نے ابویعلی موصلی سے انہوں نے عبد الاعلی بن حماد اور عبد الرحمان بن سلام سے انہوں نے ابو عوانہ سے انہوں نے ابو الجویریہ سے انہوں نے معن بن زید سے روایت کی، کہ انہوں نے اور ان کے والد اور دادا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ مَیں نے حضور کی خدمت میں اپنی خستہ حالی کی شکایت کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری امداد فرمائی۔ پھر مَیں نے نکاح کی خو۔۔۔
مزید
/p> بن یزید الخفاجی: خفاجہ سے مراد ابنِ عمرو بن عقیل بن کعب بن عامر بن صعصعہ ہے۔ عقبہ بن نافع انصاری سے مروی ہے کہ وہ ایک جنگی مہم میں عمر صائفہ کے ساتھ تھے اور معن بن یزید الخفاجی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جب ہم دشمن کے علاقے میں پہنچے تو ہم نے وہاں پڑاؤ کیا۔ اس پر معن بن یزید کھڑے ہوئے اور لوگوں سے کہنے لگے: اے لوگو! ہم بکریاں، کھانے کی چیزیں اور اسی طرح کی اور اشیاء تقسیم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جو چیز آپ کو پسند ہے، وہ اٹھا لیجیے۔ ہماری طرف سے اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ابو نعیم اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن معرض یمامی: ابو عبد اللہ ان کی کنیت تھی۔ شاصویہ بن عبید نے معرض بن عبد اللہ بن معیقیب بن معرض یمامی ابو عبد اللہ سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے دادا سے سنا وہ کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں موجود تھا۔ اتفاقاً ایک مکان میں داخل ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود تھے۔ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ایسا دکھائی دیا جیسے چاند۔ یہ ابن مندہ کا قول ہے۔ ابو نعیم کہتے ہیں کہ معیقیب بن معرض الیمامی جسے بعض متاخرین یعنی ابن مندہ نے شاصویہ بن عبید کی حدیث میں ذکر کیا ہے۔ سرا سروہم ہے۔ کیونکہ وہ شخص معرض بن معیقیب ہے، نہ کہ معیقیب بن معرض۔ ابو نعیم نے معرض بن معیقیب کے ترجمے میں ان کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے حقیقتِ حال کے جاننے کےلیے اس مقام کا مطالعہ کیا جائے۔ عبد الوہاب بن ہبتہ اللہ نے ابو غالب بن بناء سے انہوں نے ابو محمد جوہری سے انہوں نے ابو بکر بن مالک سے انہوں نے محمد بن یون۔۔۔
مزید
بن ابی فاطمہ دوسی: یہ سعید بن عاص بن امیّہ کے حلیف تھے۔ بقول موسی بن عقبہ یہ سعید بن عاص کے آزاد کردہ غلام تھے۔ قدیم الاسلام تھے اور مکے سے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے۔ بعد میں مدینہ چلے گئے۔ عبید اللہ نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابن اسحاق سے بہ سلسلۂ مہاجرین حبشہ از بنو امیّہ ان کے خلفا اور معیقیب بن ابی فاطمہ سے روایت کی ہے، کہ یہ صاحب سعید بن عاص کی آل سے تھے اور ان کی اولاد تھی۔ معیقیب حبشہ سے ان لوگوں کے ساتھ آئے تھے جو دو کشتیوں میں سوار ہوکر مدینے پہنچے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں خیبر میں تھے۔ ابن مندہ کے مطابق وہ بدر میں شریک تھے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہران کے پاس ہوتی تھی۔ حضرت عمر نے انہیں بیعت المال کا خازن مقرر کیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد یہ جذام میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اور پھر اطبا کے علاج سے تندرست ہوگئے تھے۔ یہ وہی صاحب ہیں۔ جن کے ہاتھ سے حضرت عثمان ک۔۔۔
مزید
بن عبد نہم اور ایک روایت میں ابو نہم بن عفیف بن سحیم بن ربیعہ بن عدی اور بردایتے عبد ثعلبہ مزنی آیا ہے ہم ان کا نسب ان کے بیٹے عبد اللہ کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں اور مغفل ذو البجادین مزنی کے بھائی ہیں۔ اور مغفل فتح مکہ کے سال ۸ ہجری میں براہِ مکّہ شہر میں داخل ہونے سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔ یہ طبریٰ کا بیان ہے ابو عمر نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید