احمد
یار خاں نعیمی،حکیم الامّت،
مفسرِ قرآن ، مفتی
اسمِ
گرامی: مفتی احمد یارخان۔
لقب: حکیم
الامت۔
تخلص: سؔالک۔
نسب:
نسب
کے اعتبار سے آپ یوسف زئی پٹھان ہیں۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
حضرت مولانا مفتی احمد یار خان بن
مولانا محمد یار خان بد ایونی بن مولانا منوّر خان رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہم۔
ولادت:
۴؍
جمادی الاولیٰ۱۳۲۴ھ مطابق جون ۱۹۰۶، ء بروز جمعرات بوقتِ فجر’’قصبہ اوجھیانی‘‘ ضلع
بدایوں (انڈیا)کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم:
آپ
نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد سے حاصل کی، پھر مدرسۂ شمس العلوم(بدایوں) میں
داخل ہو کر تین سال تک (۱۹۱۶ء تا۱۹۱۹ء) مولانا قدیر بخش بد ایونی اور دیگر اساتذہ
سے اکتسابِ فیض کیا۔ اسی عرصے میں بریلی شریف جاکر مجددِ اسلام حضرت مولانا شاہ
احمد رضا خاں کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ پھر مدرسۂ اسلامیہ ، میڈھو (ضلع علی گڑھ)میں
داخل ہوئے اور کچھ عرصہ پڑھا ، چوں کہ اس مدرسے کا تعلق دار العلوم دیو بند سے تھا
اس لیے وہاں سے تعلیم ترک کر کے مراد آباد چلے گئے ۔جامعہ نعیمیہ مراد آبادمیں
داخل ہوئے ، حضر ت صدرالافاضل مولانا سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی قُدِّسَ
سِرُّہٗ کی مردم شناس نگاہوں نے جوہرِ قابل کو پہچان لیا
اور خود پڑھا نا شروع کیا ۔ پھر بے پناہ مصروفیا ت کی بنا پر حضرت علامہ مشتاق
احمد کانپوری کو مراد آباد بلا کر مفتی صاحب کی تعلیم ان کے سپر دکر دی۔ 1344ھ/1925 ء میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کرلی
، اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔
بیعت و خلافت:
حضرت
سیّد شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت
ہوئے۔
سیرت وخصائص:
مفسرِ
قرآن،مفکرِاسلام، شارحِ مشکوٰۃ،صاحبِ تصنیفاتِ کثیرہ،محسنِ
اہلِ
سنّت،حکیم الامّت،عارفِ بدایوں،سالکِ راہِ حق، حضرت علامہ مولانامفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔ آپ ان شہسوارانِ اسلام میں سے ہیں جن پر قومِ مسلم
کو ہمیشہ فخر رہا ہے۔آپ کا تعلق ان نفوسِ قدسیہ سے ہے جنہوں نے مشکل وقت میں ملّت
کی نگہبانی کافریضہ سرانجام دیا۔آپ عقلِ
عرفانی،علمِ ایمانی اورمعرفتِ روحانی کے امام تھے۔آپ نے ساری زندگی اپنے قلم
وزبان، فکرو تدبر سے دینِ اسلام کی ایسی خدمت فرمائی کہ رہتی دنیا تک عام وخاص ان
شآء اللہ آپ کے فیض سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
شرفِ
ملّت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: حضرت مفتی صاحب رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی نہایت
خوش اخلاق اور خندہ رو شخصیت تھے، سلام میں ہمیشہ پہل کرتے ، معمولات اور وقت کے
اتنے پابند تھے کہ جب آپ جمعہ کے روز مبنر پر بیٹھتے تو لوگ اپنی گھڑیوں کا ٹائم
ٹھیک کر لیتے تھے، پانچ دفعہ حج و زیارت سے مشرف ہوئے، ہر وقت دُرود شریف پڑھتے
رہتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب نے تقریباً 46سال کا عرصہ خدمتِ دین میں صرف کیا۔ سیکڑوں
علما کو فیض یاب فرمانےکےساتھ ساتھ تصانیف کا معتدبہ حصّہ یاد گار چھوڑ ا جس سے
مسلک اہلِ
سنّت
و جماعت کو نہایت تقویت ملی۔اسی طرح تحریکِ پاکستان میں آپ کا بہت بڑا کردار
ہے۔تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں صدر الافاضل مولانا سیّد محمد نعیم الدین
مرادآبادی نے قرار دادِ پاکستان کی تائید کے لیے جو کوششیں کیں، مفتی صاحب ان میں
شریک رہے۔ مفتی صاحب محض مسلم لیگ کوووٹ ڈالنے کے لیے گجرات (پنجاب)سے سفر کرکے
اوجھیانی (بدایوں)پہنچے تھے، چناں چہ بصورت ِجلوس آپ کو گھر لایا گیا،اور اس
علاقے میں آپ کی کوششوں سے مسلم لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی۔ (تذکرہ
اکابرِاہلِ
سنّت،صفحہ
55)
وصال:
آپ
کا وصال،۳؍ رمضان المبارک ۱۳۹۱ھ مطابق ۲۴؍ اکتوبر۱۹۷۱ء بروز اتوار۷۷؍ال کی عمر میں
ہوا۔ آپ کی آخری آرام گاہ گجرات (پنجاب،پاکستان) میں زیارت گاہِ خاص وعام ہے۔