تمہارے اعمال نے تمہیں ہی بہت ستایا تو کیا کروگے دلی تصلب تمہیں ابھی بھی نہ ہاتھ آیا تو کیا کروگے ابھی تو زندگی ہے جی لو ، شرابِ نفرت کو خوب پی لو جو موت نے آکے پچھلے گھر کا حساب مانگا تو کیا کروگے نبی کا رب سے کِیَا تقابُل ، پھنسا یوں شرکِ جلی میں جاہل حمایت اسکی کرِی ہے تم نے، لحد میں پوچھا تو کیا کروگے میری کُتُب میں تو سب تھا ظاہر، ہٹا کیوں اس سے بتا تو زاجر رضا نے بھی حشر میں جھڑک کر ، اسی کو پوچھا تو کیا کروگے صحابہ کو کہہ رہا ہے خاطی، پھر اُس کو تم نے پناہ کیوں دی نبی کے اصحاب و آل نے بھی ، جو ساتھ چھوڑا تو کیا کروگے قبولِ حق میں انا گر آئے ، لو ہم ہی ہارے تمہی تو جیتے خدا نہ کردہ حسد کے اندر ، یہ دین کھویا تو کیا کروگے تم اپنی منزل کی راہ لے لو ، نہ اتنا ڈھونڈو کہ خود ہی بہکو صبح کا بھولا وہ شام کو بھی اگر نہ لوٹا تو کیا کروگے ------------------------------- ہماری غرب۔۔۔
مزیددیارِ ہند میں اپنا رہا ہے کارواں برسوں کیا ہے اولیاء نے یہ اُجاگر باغباں برسوں کبھی یاں آئے تھے غازی مٹانے کفر کی ظلمت کٹے ہیں راہِ حق میں بھی یہاں پر نوجواں برسوں شمال و مشرق و مغرب جنوبِ ہند سے لیکر رہے ہیں اے مسلمانوں ہمارے حکمراں برسوں وہ سنجر سے چلا تھا باغِ حق کی آبیاری کو معینِ دین و ملت سے رہے گا شادماں برسوں امام احمد رضا وہ آفتابِ عشق و اُلفت ہے عداوت جل گئی ، ہوگی محبت ضوفشاں برسوں وہ بیشِ سُنّیت کا شیرِ دل شیر ببر ہی تھا وہابیت رہے گی نام ہی سے حرزجاں برسوں ارے فاراں مُشاہد سا محافظ اب کہاں پاؤ چلو پائیں وہاں چل کر فیوض آستاں برسوں ۔۔۔
مزیداُن کےدرکے سگ سے نسبت ہو گئی حاصل مجھے کیا دبا پائے بھلا پھر قوّتِ باطل مجھے یہ تمنا ہے کہ کہہ دیں آپ عاشق ہے میرا غرض کیا دنیا کہے کہتی رہے جاہل مجھے میرے آقا نے پتا خود ہی بتایا حشر کا پیاس کی شدت میں ملنا جانبِ ساحل مجھے دشمنِ احمد پہ شدت کے فوائد کیا کہوں رحمتِ عالم کی رحمت ہو گئی شامل مجھے بے بس ان کو کہہ دیا اصحاب کو خاطی لکھا کیا نہیں تھا رد ضروری یہ بتا غافل مجھے حیف صد افسوس اس مسئلہ کو ذاتی کہہ دیا فرضِ اُمت کیا یہی تھا؟ ہاں بتا اے دل مجھے حفظِ ناموسِ رسالت کا جو مسئلہ ہو کہیں اے خدا کر دے کرم سے ہر جگہ حائل مجھے اپنے نانا حضرت طیب کے تیور میں کہو اے جنونِ عشق لے چل اور اک منزل مجھے پھر تو فاراں ہے شفاعت کے لئے کافی یہی حُبٌّ لِلہ بُغْضٌ لِلہ پر رَکِھے عامل مجھے ۔۔۔
مزیدتیری اوقات ہی کیا ہے کرے جو بات رفعت کی سنی ہے میں نے قرآں سے حکایت ان کی مدحت کی ابھی جی بھر کے دیکھا ہی کہاں دیوارِ روضہ کو صدائے جاں بلب کس نے سنائی پھر سے رحلت کی امن کی جستجو تھی تو حرم کو چھوڑ کیوں آئے شکایت کیا کریں خود سے خریدارِ ہلاکت کی بگڑتے گرتے پڑتے دل میں وہ جوشِ بلا دیکھا ذرا سی چار باتیں کیا سنائیں ہم نے الفت کی میرے ذوقِ جنوں پر ہنسنے والو کیا خبر تم کو کہ مٹنے سے سیکھائی ہے رضانے بات شہرت کی چلے تحت الثریٰ آؤ ترفُّع کے طلبگارو ! یہ سعدی نے گلستاں میں نکالی راہ رفعت کی الٰہی صدقۂ موسیٰ وہ سامانِ نظر دینا ملائک بات چھیڑیں جب عدالت میں زیارت کی نہیں کچھ شور و غوغہ اور لٹانا جاں صحابہ کا کہ پروانوں نے سیکھی ہے یہاں سے شان حکمت کی مدد کی بھیک مانگے پھر رہے ہیں وہ بھی محشر میں کہ جن کو استعانت پر عداوت تھی قیامت کی یہ بھولا صبح کا بھٹکا مگر نہ شام کو لوٹا و۔۔۔
مزید