دل جھوم اٹھا اور چلنے لگی رحمت کی ہوا سُبحان اللہ مائل بہ کرم وہ آہی گئے جب یاد کیا سُبحان اللہ نادار کی بخشش کا ساماں ہر غم کی دا دُکھ کا درماں اس چشم ِ کرم کی اک جُنبش اے صلی عل سُبحان اللہ اپنوں کےلئے بھی رحمتِ کل غیروں کے لئے ہا دئ سُبل ہے نور مجسم کی پیاری ہر ایک ادا سُبحان اللہ جب کثرت ِ غم سے گھبرا کر ہم سوئے مدینہ تکتے ہیں فریاد سے پہلے سنتے ہیں سرکار صدا سُبحان اللہ ہم ایسے نکموں پر ان کی ہےکتنی عنایت روز افزوں ہر حال میں ہیں ہم محوِ خطا وہ محوِ عطا سُبحان اللہ یہ اوج وشرف افلاک ہدف حیران ہیں سب اسلاف وخلف قوسین کا وہ قرب ِ کامل یہ اوج دنی سُبحان اللہ سرکار کے در پر اے خاؔلد تکرار دعا کا ذکر ہی کیا اللہ غنی اس در پہ دعا ہے قصدِ دُعا سُبحان اللہ۔۔۔
مزیدجبینِ شوق ان کے آستانے پر جھکی ہوگی وہ دن آئے گا تکمیل ِ مذاق ِ بندگی ہوگی سدا حدِ نظر میں ہی رہے یہ گنبد خضریٰ مرے آقا مرے سرکار بندہ پروری ہوگی اجل آ کر سُنا ئے آپ کے دیدار کا مژدہ خوشی سے جان دیں گے سامنے جب زندگی ہوگی میں سمجھوں گا مری فریاد بھی سرکار تک پہنچی مری سرکار کے روضے پہ جس دن حاضری ہوگی دلوں کو نورِ عشق مصطفی سے جگمگائے لیجئے یہ کام آئے گا مرقد میں اسی سے روشنی ہوگی سکونِ دل میسر ہو نہیں سکتا زمانے کو نہ جب تک دامنِ سرکار سے وابستگی ہوگی ہماری بے سرد سامانیوں کی لاج رکھ لینا کہیں رُسوا نہ ہوجائیں بڑی شر مندگی ہوگی تمہیں محسوس ہوگی لذتِ سجدہ دم سجدہ جو عشق ساقئ کوثر کی دل میں چاشنی ہوگی یہ ان کے در پہ سر رکھ کر کہوں گا ایک دن خاؔلد یہ ہے آداب حسن بندگی یوں بندگی ہوگی۔۔۔
مزیدیہ آرزو نہیں کہ مجھے سیم ورز ملے سب کچھ ہی وار دوں جو ترا سنگِ در ملے مانگو دعا کہ قربِ شہ بحرو بر ملے نعمت یہی ہے صاحب ِ نعمت اگر ملے آساں نہیں ہے جلوۂِ سرکار دیکھنا اس کے لئے ہے شرط کہ تاب ِ نظر ملے ہم کو بھی دردِ عشق محمد کی بھیک دے یارب ہمیں بھی صدقہ ءِ خیر البشر ملے شامل کرو دعائیں وسیلہ درود کا گر چاہتے ہو تم کہ دعا کو تمسر ملے جس انجمن میں ان کا سگِ بے ہنر گیا اٹھ کر بڑے تپاک سے اہل ہنر ملے یہ میری آرزو ہے رہے آرزو کی لاج سوز وگدازِ عشق ملے چشم تر ملے جو غم شبِ فراق سے خاؔلد ہوئے طلوع ان کے جلو میں ہم کو تو شمس و قمر ملے۔۔۔
مزیدہر تڑپ دل کی وجہ سکوں ہے ہر خلش زندگی کا سہارا تم نے دیکھی نہیں ہے تو دیکھ آنسووں سے خوشی آشکار کس قرینے سے دیوار و در کو جلوۂِ مصطفی نے سنوارا قرئیہ جان و دل بھی نہیں ہے واقعی اب مدینے سے پیارا جو کرم بھی کرے اور دعا دے بھیک دے اور طلب سے سوا دے جز محمد کوئی بھی نہیں ہے بے سہاروں کا ایسا سہارا فخرِ ہستی انہیں کا گدا ہے ان کے قربان اتنا دیا ہے، کر دیا بے نیازِ دو عالم جس بھکاری نے دامن پسارا آپ ہی میری جھولی بھریں گے آپ ہی دستگیری کریں گے آپ کے در سے منسوب ہو کر کیسے پھرتا رہوں مارا مارا کون سی شَے نہیں اب میسر تیری رحمت سے ساقئ ِ کوثر آج ہو جائے اتمام ِ رحمت حاضری کا اگر ہو اشارا مجھ کو خاؔلد اماں مل گئی ہے سائیہ دامن مصطفی میں موج خود بن گئی ہے سفینہ دور مجھ سے نہیں اب کنارا۔۔۔
مزیدملا ہے عشق محمد سے یہ وقار مجھے کہ اب گدا نظر آتے ہیں شہر یار مجھے یہاں خیال ہےمیرا نہ دل نہ دل کا قرار بلا ہی لیجئے آقائے نامدار مجھے جہاں کہیں مری گر داب میں گھری کشتی حضور ہی کےکرم نے کیا ہے پار مجھے شعار جس کا کریمی ہے دونوں عالم میں خوشا نصیب ملا ایسا غمگسار مجھے گماں گزرتا ہےجیسے ہوں خود مدینے میں جو یاد آتا ہے سرکار کا دیار مجھے میں اک نظر پہ تصدق کروں دو عالم کو قسم خدا کی خدا دے جو اختیار مجھے چھپا لیا تری رحمت نے اپنے دامن میں جو دیکھا اپنی خطاؤں پہ شرم سار مجھے جہاں پناہ جہاں ہے پناہ خاؔلد کو دکھائی دیتا ہے بس آپ کا دیار مجھے۔۔۔
مزیدہر غم سے رہائی پاتے ہیں آغوش ِکرم میں پلتے ہیں اے رہبر ِ کامل صلی علیٰ جو تیرے سہارے چلتے ہیں طیبہ ہے دلیل راہِ یقین طیبہ ہے شعور ِ دیں کا امیں عرفانِ خدا ملتا ہے یہیں سب رستے یہیں سے نکلتے ہیں دل گریہ کناں فریاد بلب جب یاد کیا کرتا ہے انہیں رحمت کے دریچے کھلتے ہیں سب یاس کے سائے ڈھلتے ہیں کیا دیکھ رہا ہے زاد ِ سفر اٹھ باندھ کمر رکھ اُن پہ نظر محروم تمناؤں کے دیئے طیبہ ہی پہنچ کر جلتے ہیں جب یاد نبی آجاتی ہے خوشبو کی طرح مہکاتی ہے ورنہ تو غموں کے اندھیارے جب آتے ہیں کب ٹلتے ہیں کُھلتی ہیں انہیں خوش بختوں پر ایمان کی منزل کی راہیں سرکارِ مدینہ کے در سے جو آنکھیں اپنی ملتے ہیں ملتے ہیں وہیں اِترائے ہوئے ہر چوکھٹ کے ٹھکرائے ہوئے جو لوگ کسی مصرف کے نہیں سرکار کے در پر پلتے ہیں ہر غم کی سپر ہے نامِ نبی ایمان بھی خاؔلد کا ہے۔۔۔
مزیدجس طرف ان کی نظر ہو جائے گی رحمت حق بھی ادھر ہو جائے گی جب کرم سرکار کا ہو جائے گا عشق کی منزل بھی سَر ہو جائے گی بس انہیں ہر دم پکارے جائیے ایک دن ان کی نظر ہو جائے گی چھیڑ کر ذکرِ مدینہ دیکھئے بیکلی خود چارہ گر ہو جائے گی راستہ روکیں نہ میرا مشکلیں میرے آقا کو خبر ہو جائے گی واسط ان کا دعا میں شرط ہے کار گر اور با اثر ہو جائے گی سبز گنبد کا تصور کیجئے شام ِ غم رشک ِ سحر ہو جائے گی سر جھکے گا تو نہ اٹھے گا کبھی نا توانی خاکِ کی رحمت دیکھنا رحمتِ عالم کی رحمت دیکھنا ہر جگہ سینہ سپر ہو جائے گی بھیجئے سرکار پر دائم درود ہو عبادت معتبر ہو جائے گی ان کی چاہت میں کمی آئی اگر بندگی نا معتبر ہو جائے گی بن کے دیکھ ان کا گدا یہ کائنات پھر ترے زیرِ اثر ہو جائے گی لبِ اگر سل جائیں۔۔۔
مزیداتنے اوصاف ہیں محمدﷺ کے کر نہ پائیں اگر شمار کریں ان کی توصیف غیرممکن ہے بس یہی کہہ کے اختصار کریں دیکھ لی رب کے یار کی صورت نکل آئی قرار کی صورت ناامیدی کامنہ نہیں تکتی ان کے امیدوار کی صورت قابل دید اس کی صورت ہے جس نے دیکھی ہے یار کی صورت پڑ گئی جان غم کے ماروں میں دیکھ کر غم گسار کی صورت تھام لو دامن ِ محمد کو بس یہی ہے قرار کی صورت آئینے کو بنا گئی گلزار اس سراپا بہار کی صورت جب تک آئے نہ تھے رسول کریم غیب تھی آشکار کی صورت سر خرو کر گیا غمِ محبوب دُھل گئی اشک بار کی صورت دمِ آخر ہو رو برو خاؔلد مدنی تاجدار کی صورت۔۔۔
مزیدہر اک جلوہ ہے پنہاں ہمارے سینے میں مدینہ دل میں ہے سرکار ہیں مدینے میں ہی اس سفینے سے خائف بھنور بھی طوفان بھی تمہیں پکار نے والے ہیں جس سفینے میں یہ دل ہے عرش الہٰی ہے ان کی منزل ہے ہے کائنات کاحاصل اسی نگینے میں نثار عشق محمد جراحتوں کے چمن کھلا ہے گلشن جِنت ہمارے سینے میں ترے فقیر کی جھولی رہے گی کیوں خالی ہے دو جہاں کا خزانہ ترے خزینے میں کمالِ حُسن تصور بھی ہے کرم ان کا کہ دور رہ کے بھی رہتے ہیں ہم مدینے میں مری حیات کے بکھرے ہوئے ہیں سب اجزا حضو ر آئیں تو آجائیں گے قرینے میں بہار ساز ہیں خوشبو نواز گل پرور وہ نکہتیں جو ہیں سرکار کے پسینے میں کرم ہو ان کا تو جائیں مدینے ہم خاؔلد بہار لوٹیں کرم کی سدا مدینے میں۔۔۔
مزیداب میری نگاہوں میں تو جچتا نہیں کوئی جیسے مرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی تم سا تو حسیں آنکھ نے دیکھا نہیں کوئی یہ شان ِ لطافت ہے کہ سایہ نہیں کوئی اے ظرفِ نظر دیکھ مگر دیکھ ادب سے سرکار کا جلوہ ہے تما شا نہیں کوئی یہ تجربہ ایمان ہے اے رحمت ِ عالم فریاد تمہارے سوا سُنتا نہیں کوئی یہ طُور سے کہتی ہے ابھی تک شبِ معراج دیدار کی طاقت ہو تو پردا نہیں کوئی وہ آنکھ جو روتی ہے غمِ عشق نبی میں اس آنکھ سے رو پوش تو جلوہ نہیں کوئی سو چو تو کبھی نسبت ِ رحمت کے نتائج تسلیم کہ ہم لوگوں میں اچھا نہیں کوئی شمشیر وسیلہ ہے سپر رحمت ِ حق ہے سرکار کی امت میں نہتا نہیں کوئی بیکار ہے ہر وار ترا گردشِ دوراں وہ ہمدم وغمخوار ہیں تنہا نہیں کوئی اعزاز یہ حاصل ہے تو حاصل ہے زمیں کو افلاک پہ تو گنبدِ خضریٰ نہیں کوئی ہوتا۔۔۔
مزیدوہ ہیں ممدوحِ خدا نام ہے جِن کا محمود جِن پہ اللہ تعالیٰ کا مسلسل درود دِل کی آنکھو سے حجابات اُٹھاؤ تو سہی پھر جہاں دیکھو گے پاؤ گے تم ان کو موجود ترا جلوہ پیش ِ نظر رہے تجھے دیکھ کر میں جیا کروں جہاں کوئی تیرے سِوا نہ ہو میں اسی فضا میں رہا کروں رُخِ مصطفیٰ وہ کتاب ہے جو محبتوں کا نصاب ہے وہی میرے پیش نظر رہے یہی رات دن میں پڑھا کروں مری جس قدر ہیں ضرورتیں کہیں اس سے بڑھ کے نوازشیں مجھے دے رہے ہیں وہ بے طلب میں دعا کروں بھی تو کیا کروں تری یاد میری بہار ہے تیری یاد غم کا حِصار ہے ترا شکر رحمت ِ دو جہاں میں کروں تو کیسے ادا کروں جو کبھی نصیب ہو حاضری تو ملے نصیب کو یاوری ترے سنگ ِ درپہ جھکا کے سر میں نمازِ عشق ادا کروں مجھے اپنا جلوہ دکھائے جا میرے دل میں آکے سمائے جا میں شراب ِ معرفتِ خدا ترا نام لے کے پیا کروں مجھے اپنی ۔۔۔
مزیدخاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا آپ آئیں تو مرے گھر میں اجالا ہوگا حشر میں ان کا ہر اک چاہنے والا ہوگا مرے سرکار کا عالم ہی نرالا ہوگا حشر میں ہوگا وہ سرکار کے جھنڈے کے تلے میرے سرکار کا جو چاہنے ولا ہوگا عشقِ سرکار کی اک شمع جلا لو دل میں بعد مرنے کے لحد میں بھی اجالا ہوگا آنہیں سکتا نظر جلوۂِ سرکار کبھی بے یقینی کا اگر آنکھ میں اجالا ہوگا کل وہ سرکار کے دامن میں نظر آئے گا جس کے عیبوں کو زمانے نے اُچھالا ہوگا جب بھی مانگو تو وسیلے سے انہیں کے مانگو اس وسیلے سے کرم اور دو بالا ہوگا سر جھکائے گا وہ سرکا ر کے قدموں میں ضرور جس کا مقصود بھی اللہ تعالیٰ ہوگا حشر میں اس کو بھی سینے سے لگائیں گے حضور جس گنہہ گار کو ہر ایک نے ٹالا ہوگا ہوگا سیراب سرِ کوثر و تسنیم وہی جس کے ہاتھو ں میں مدینے کا پیالا ہو۔۔۔
مزید