/ Thursday, 13 March,2025


حضرت خالد محمود خالد رحمتہ اللہ تعا لٰی علیہ   (208)





مجھے تم اپنی توجہ سے سرفراز کرو

مجھے تم اپنی توجہ سے سرفراز کرو گنہ گار ہوں سرکار پاک باز کرو   انہیں سے مانگو انہیں سے کہو تم ان کے ہو کسی کا در بھی ہو افشا نہ دل کا راز کرو   نیاز مند تمہارا ہوں یا رسول اللہﷺ نیاز مند کو ہر شے سے بے نیاز کرو   درِ نبی سے گداؤں کو بھیک ملتی ہے انہیں کے سامنے دستِ طلب دراز کرو   اس سے گلشن ہستی میں پھول کھلتے ہیں پڑھو درود دلوں کو بہار ساز کرو   حضور کو درِ دولت سدار ہے آباد وہ بھیک دو کہ گدا کو گدا نواز کرو   قسم خدا مساوات مصطفیٰ ہے یہی غریب امیر میں کوئی نہ امتیاز کرو   یہی ہے عشق کے سجدے کہ سامنے وہ ہوں یہی نماز ہے ایسے ادا نماز کرو   دل ونظر کی طہارت یہی تو ہے خاؔلد کچھ اور سلسلہ نعت کو دراز کرو۔۔۔

مزید

ذوق ِ دیدار اسے کیوں نہ ہمارے ڈھونڈے

ذوق ِ دیدار اسے کیوں نہ ہمارے ڈھونڈے جس کے جلووں کا ہراک آنکھ سہارا ڈھونڈے   وہ گلستاں تو مدینہ ہے محبت کی قسم جس کو رعنائیاں جنت کا نظارا ڈھونڈے   میرے محبوبِ نظر کی جو زیارت کرے حُسن ِ یوسف کو زلیخا نہ دوبارا ڈھونڈے   کیا عجب بندہ نوازی ہے کہ خود منگتے کو ہوکے بیتاب کرم خود ہی تمہارا ڈھونڈنے   چھوڑدو ان کے بھروسے پہ سفینہ اپنا گر یہ چاہو کہ تمہیں خود ہی کنارا ڈھونڈے   ہے مسلماں جو مصیبت میں انہیں یاد کرے ہے وہ کافر جو کوئی اور سہارا ڈھونڈے   چاند کو توڑ کے پھر جوڑ دیا ہے جس نے دل شکستہ بھی نہ کیوں ایسا اشارا ڈھونڈے   اس کو محتاج جو کہتا ہے بڑا اندھا ہے جو فقیر آپ کے قدموں کا اتارا ڈھونڈے   حشر میں ہوگی ضرور اس کی شفاعت خاؔلد جو سہارے کےلئے حق کا دلارا ڈھونڈے۔۔۔

مزید

جنم جنم کے جو پیاسے تھے جام پینے چلے

جنم جنم کے جو پیاسے تھے جام پینے چلے خوشا نصیب گنہ گار بھی مدینے چلے   پناہِ رحمت ِ عالم کا آسرا لے کر جنہیں گلے سے لگایا نہیں کسی نے چلے   ہر اک عروج کا حاصل ہے گنبدِ خضریٰ خدا کے قریب کے سارے یہیں سے زینے چلے   شعورِ زیست شعور ِ وفا شعور ِا ادب حیات ِ پاک ِ محمد سے سب قرینے چلے   کیا ہے ان کا کناروں نے بڑھ کے استقبال ترے کرم کے بھروسے پہ جو سفینے چلے   کرم کریم کا ذمہ ہے ہوگیا ثابت گداکو ڈھونڈنے سرکار کے خزینے چلے   تمہارے مصحف رُخ کی تلاوتوں کی قسم تمہاری زلف کی نسبت سے ہی شبینے چلے   جہاں ہو عشقِ نبی ظلمتیں نہیں رکتیں، حجاب آنکھوں سے اٹھے دلوں سے کینے چلے   بڑا کرم ہے محبت میں چشم نم خاؔلد جواہرات کی قیمت میں یہ نگینے چلے۔۔۔

مزید

عمل سے نکہتِ عشقِ رسول پیش کرو

عمل سے نکہتِ عشقِ رسول پیش کرو کلامِ پاک کا شانِ نزول پیش کرو   اس اہتمام سے نعت ِ رسول پیش کرو ادب سے پہلے درودوں کے پھول پیش کرو   کسی طرح بھی دعا مدعا سے دور نہیں درِ کریم پہ قلب ملول پیش کرو   مریض ہجر کے زخموں کا یہ علاج نہیں ہٹاؤ پھول مدینے کی ڈھول پیش کرو   جو چاہتے ہو محبت کا ضابطہ ہو کوئی محبتوں کا کوئی تو اصول پیش کرو   غلامِ صاحب معراج ہیں بحمداللہ ہمارے سامنے راہوں کا طول پیش کرو   قبولیت کی مہک تو کبھی نہیں چھپتی کلام میں کوئی رنگِ قبول پیش کرو   یہی ہے عشق کی تبلیغ معتبر خاؔلد فقط حضور کے پیارے اصول پیش کرو۔۔۔

مزید

یامحمد رُخ ِ حالات بدلنے کے لئے

یامحمد رُخ ِ حالات بدلنے کے لئے آ پڑا ہوں ترے قدموں میں سنبھلنے کے لئے   درد کی لہر اٹھے درد بنا دے مجھ کو اشک کافی نہیں آنکھوں میں مچلنے کے لئے   میں تو کیا چیز ہوں ولیوں نے دعائیں مانگیں سایۂِ دامنِ سرکار میں پلنے کے لئے   اپنے جلوؤں کے مجھے بھیک دے ماہِ طیبہ غم ِ ہستی کے اندھیروں سے نکلنے کےلئے   یہ کریمی ہے کہ رحمت نے چنا ہے مجھ کو آتشِ الفتِ سرکار میں جلنے کے لئے   آپ کی یاد کو ایمان بنا رکھا ہے بے خطر ہر رہِ دشوار میں چلنے کے لئے   اب شفا ہوگی کہ لے آئے ہیں احباب مرے خاکِ طیبہ تنِ بیمار پہ مَلنے کے لئے   کام آجاتی ہے سرکار کی نسبت کی سپر ورنہ طوفان تو آئے تمہیں ٹلنے کے لئے   نسبتِ صاحبِ معراج ملی ہے خاؔلد اپنے اقبال کا سورج نہیں ڈھلنے کے لئے۔۔۔

مزید

عشق ہے فِسق چشم ِ نم کے بغیر

عشق ہے فِسق چشم ِ نم کے بغیر دل ہے ویران تیرے غم کے بغیر   طے نہ ہوگی یہ منزل ِ عرفاں دو قدم بھی ترے قدم کے بغیر   مغفرت کی سند نہیں ملتی احترام ِ شرائم کے بغیر   کوششیں رائیگاں حیات فضول کچھ نہ ہوگا ترے کرم کے بغیر   صرف اک سنگ وخشت کا انبار یہ حرم صاحب حرم کے بغیر   ان کا دامن جو تیرے ہاتھ میں ہو راستے طے ہو پیچ وخم کے بغیر   جینے دیتی نہ کم سواد خوشی مرگئے ہوتے تیرے غم کے بغیر   میرا دارین میں بھرم رکھنا معتبر کون ہے کرم کے بغیر   میرا ایمان ہے یہی خاؔلد بات بنتی نہیں کرم کے بغیر۔۔۔

مزید

جو ان کے نقشِ قدم پر ہیں سرجھکائے ہوئے

جو ان کے نقشِ قدم پر ہیں سرجھکائے ہوئے وہی تو منزل مقصود کو ہیں پائے ہوئے   در نبی پہ جلاتے ہیں آرزو کے چراغ بساطِ زیست پہ دنیا سے مات کھائے ہوئے   ہے ذرے ذرے میں اب تک حضور کو جلوہ حقیقتیں میں ابھی تک نقاب اٹھائے ہوئے   پڑھو درود پڑھو ذوق وشوق کہتا ہے کہ آج بزم میں سرکار بھی ہیں آئے ہوئے   سنا کہ مژدہ عطاؤں کا سر خرو کردو گناہ گارہوں بیٹھا ہوں منہ چھپائے ہوئے   وہ خوش نصیب غمِ دو جہاں سے فارغ ہیں جو ان کے لطف وکرم سے ہیں لو لگائے ہوئے   متاع دردِ محمد ہی مانگ لو رب سے نظر اٹھاؤ ہیں بادل کرم کے چھائے ہوئے   ہمارے پاس کوئی اور چیز بھی تو نہیں ہم اپنے اشک ہی پلکوں پہ ہیں سجائے ہوئے   ہے ان کی یاد سے آباد میرا دل خاؔلد ہیں میرے دیدہ ودل دونوں جگمگائے ہوئے۔۔۔

مزید

دل مدینے میں رہے جان مدینے میں رہے

دل مدینے میں رہے جان مدینے میں رہے میرا سارا سرو سامان مدینے میں رہے   بس وہی جانتا ہے شانِ کرم کا مفہوم، بن کے جوآپ کا مہمان مدینے میں رہے   میں اسے کعبہ مقصود نہ سمجھوں کیو ں کر میرا ایمان جب ایمان مدینے میں رہے   آپ کی یاد میں جو وقت گزارا ہم نے یوں لگا جیسے کہ ہر آن مدینے میں رہے   شوقِ دیدار سوا ہوگیا دیدار کے بعد دل کو اب بھی ہے یہ ارمان مدینے میں رہے   میرے آقا کی کریمی کا اثر تو دیکھو بن کے نادار بھی سلطان مدینے میں رہے   ان کے جلوؤ ں سے نگاہوں کا ہے وہ ربطِ دوام واقعی ہم بہر عنوان مدینے میں رہے   کعبہ کعبہ ہے وہاں قیمت سجدہ ہے بہت عشق کہتا ہے مگر دھیان مدینے میں رہے   یہی غربت ہے کہ مہجور رہے دور رہے یہی دولت ہے کہ انسان مدینے میں رہے   رنج دوری کا بھی سہ سکتے ہیں لیکن آقا حاضری کا بھی اک امکان مدینے میں رہ۔۔۔

مزید

بزم ازل میں حُسن بہار چمن میں ہے

بزم ازل میں حُسن بہار چمن میں ہے جلوہ گری حضور کی ہر انجمن میں ہے   کرتا رہوں طواف مدینے کا رات دن جب تک یہ جان ِ زار مقید بدن میں ہے   سیرت ہے وہ رسول علیہ السلام کی اب تک سدا بہار جو اپنی پھبن میں ہے   مہکائے جارہی ہے گلستان ِ دہر کو کیا رنگ نکہتوں کا ترے پیر ہن میں ہے   اشکوں میں انبساط ہے ٹھنڈک جلن میں ہے دشمن مٹھاس آپ کے شیریں دہن میں ہے   دل ہے کہ ان کی یاد میں کھویا ہے اس طرح محسوس ہورہا ہےکہ جیسے چمن میں ہے   فیضان ہے یہ عشق ِ رسول ِ کریم کا یہ سوز یہ گداز جو میرے سخن میں ہے   خاؔلد اس ہجر میں بھی ہے اک لذتِ وصال میں ہوں کہیں بھی دل تو نبی کے وطن میں ہے۔۔۔

مزید

اللہ اللہ یہ گنہگار پہ شفقت تیری

اللہ اللہ یہ گنہگار پہ شفقت تیری بخشوا نے کو ہے بے چین شفاعت تیری   ٹوٹ جاتا ہے جہاں سارے سہاروں کا غرور رنگ لاتی ہے وہاں صرف عنایت تیری   اپنی خوش بختی پہ ہے ناز کا ہم کو بھی جواز ہر قدم پر ہمیں حاصل ہے حمایت تیری   تیری یادوں سے مہکتا ہے خزاں دیدہ چمن میرا سرمائیہ ہستی ہوئی نکہت تیری   کتنا آمادۂِ رحمت ہے کرم صلّی ِ علیٰ لب ہلانے نہیں دیتی ہے سخاوت تیری   حُسن ہستی ہے تجلی ءِ خدا بھی تو ہے فی الحقیقت تو زیارت ہے زیارت تیری   کم نظر ہی ہمیں محتاج سمجھ سکتے ہیں ہم فقیروں کا اثاثہ ہے محبت تیری   بس یہی دیدۂِ بے خواب دعا کرتا ہے نظر آئے کسی صورت سے بھی صورت تیری   تیری رحمت نے ہی خاؔلد کو یہ بخشا اعزاز فکر و آواز کا سرمایہ ہے مدحت تیری۔۔۔

مزید

بہار ِ ذِکر احمد سے جو بیگانہ نہیں ہوتا

بہار ِ ذِکر احمد سے جو بیگانہ نہیں ہوتا وہ دل فردوس بن جاتا ہے دیرانہ نہیں ہوتا   یہی ایمان ہے ایمانِ کامل کی ضمانت بھی محمد کا جو دیوانہ ہے دیوانہ نہیں ہوتا   مری بے مائگی پہ ہنسنے والو یہ بھی سوچا ہے وہ خود ان کے ہیں جن کے پاس نذرانہ نہیں ہوتا   نبی کے میکدے میں اور ہیں آداب ِمے نوشی یہاں آنکھوں سے پی جاتی ہے پیمانہ نہیں ہوتا   نظر دیراں سکوں برباد دل ناشاد ہی رہتا اگر میں سرورِ عالم کا دیوانہ نہیں ہوتا   شہادت گاہ تک تو عشق کو جانا ہی پڑتا ہے نہ ہو جو شمع پر قربان پروانہ نہیں ہوتا   لئے پھرتا ہے میخانے کا میخانہ نگاہوں میں جو ان کا مست ہے مرہونِ میخانہ نہیں ہوتا   تمہارا نام ہی خاؔلد کے افانے کا عنوان ہے حقیقت آشنا درنہ یہ افانہ نہیں ہوتا۔۔۔

مزید

بے نیاز ِ دو جہاں ہوں آپ کا ہونے کے بعد

بے نیاز ِ دو جہاں ہوں آپ کا ہونے کے بعد ٹھو کروں میں آگئی شاہی گدا ہونے کےبعد   اس کا شاہد آج بھی دنیا میں ہے اوجِ بلال بن گیا آقا غلام ِ مصطفیٰ ہونے کے بعد   شکریہ اے عشق یہ بھی راز افشا کر دیا زندگی ملتی ہے بس ان پر فدا ہونے کے بعد   میں سراپا آرزو تھا میں سراپا ہوں نظر آشنا ہونے سے پہلے آشنا ہونے کے بعد   پوچھئے حضرت علی سے اختیار ِ مصطفیٰ کیسے ہوتا ہے ادا سجدہ قضا ہونے کے بعد   واقعی ہے روضۂِ محبوب ِ حق دارالسَّلام جو بھی آیا ہے وہاں سے بے خطا ہونے کے بعد   رحمۃً لِلْعٰلمین کے آنسوؤں سے پوچھئے زائروں پر کیا گزرتی ہے جدا ہونے کے بعد   رُخ مدینے کی طرف ہے دل مدینے کی طرف زندگی کی لطف آیا آسرا ہونے کے بعد   پہلے اے خاؔلد مدینے جاؤں گا بہر طواف اپنے زندان ِ جسد میں رہا ہونے کے بعد۔۔۔

مزید