شاعِر قدرت کے یہ قدرتی اشارے ہیں کیسے حسین، کتنے پیارے ہے مریم[1]؎ و آسیہ کا آنا اِک زمِ حسین و عاشقانہ یہ دونوں کہ بخت کی رسا ہیں منسوبۂ شاہِ دوسراﷺ ہیں دونوں کا نکاح روزِ محشر سرکار سے ہوگا پیشِ دوار تھا تحتِ مشیّتِ الہٰی ہوں آج شریکِ جشن یہ بھی دیدارِ شہِ حجاز کرلیں نظّارۂ سروِناز کرلیں محبوبِ حسیں کو دیکھ لیں یہ اس ماہِ مبیں کو دیکھ لیں یہ قدرت کا تھا یہ حسیں اشارہ اِک حُسنِ وفا کا اِستعارا یہ دیکھ لیں انتخاب میرا محبوب ہے لاجواب میرا دنیا میں جو تم رہیں عفیفہ اے حاملِ عصمتِ شریفہ انعام ہے اس کا یہ چمکتا ’’بے مثل حسیں، حبیبِ یکتا‘‘ ہو میرے حبیب کی حبیبہ تابندہ ہے کس قدر نصیبہ عفّت میں جو نام ہے تمہارا محبوب بھی کم نہیں ہمارا ہیں راز میں راز کے خزانے مولیٰ تِرے بھید تو ہی جانے [1] خاتم المحققین شاہ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ ۱۲ ۲؎ حضرت شیخ عبد ا۔۔۔
مزید
شبِ ولادت پیغامِ حسیں نسیم لائی لو صبحِ شبِ ظہور آئی منظر ہے سرور و کیف افزا روشن ہیں چراغِ طُور ہر جا ہر لمحہ پہ شانِ لیلۃ القدر یہ رات ہے جانِ لیلۃ القدر یہ رات، یہ حسن و ادائی حسن در اصل ہے شاہزادئ حُسن یہ رات ہے جُود کی، نِعَم کی یہ رات ہے بارشِ کرم کی یہ رات ہے روشنی مجسّم یہ رات ہے ماہتابِ عالم یہ رات ہے کیفِ جانِ عالم یہ رات ہے حُسنِ شانِ عالم یہ رات ہے جشنِ عید کی رات یہ رات ہے صبحِ دید کی رات واللہ عجب ہے آج کی شب اکرام پہ رب ہے آج کی رات ہے نور سرشت آج کی شب ہے حُسنِ بہشت آج کی شب باعزّ و شرف ہے آج کی شب ہے گل بہ کنار آج کی شب سر تا پا حسیں ہے آج کی شب خورشید مبیں ہے آج کی شب ہے جانِ جمال آج کی شب ہے بدرِکمال آج کی شب ہے مشعلِ طور آج کی شب ہے نور ہی نور آج کی شب ہے آج کی شب، شبِ ہلالی ہے آج کی شب، شبِ جمالی ہے آج کی شب، شبِ گلستاں ہے آج کی شب، شبِ چراغاں ہے آج کی شب، شبِ مطّہر ہ۔۔۔
مزید
صبحِ ظہور ہے آج کی صبح نور والی ہے آج کی صبح، صبحِ عالی ہے آج کی صبح، صبحِ رحمت ہے آج کی صبح، صبحِ جنّت ہے آج کی صبح، صبحِ روشن ہے آج کی صبح، صبحِ گلشن ہے آج کی صبح، صبحِ تاباں ہے آج کی صبح، نور افشاں وہ صبح کہ جس پہ طُور قرباں وہ صبح کہ جس پہ نور قرباں وہ صبح، ہے ماہ جس پہ صدقے وہ صبح، نگاہ جس پہ صدقے پیغامِ بہار یہ سحر ہے جنت بہ کنار یہ سحر ہے سرمایۂ حُسن یہ سحر ہے یا سایۂ حُسن یہ سحر ہے ۔۔۔
مزید
بے مثل ہے رات بھی سحر بھی حیران ہے حسن کی نظر بھی دلہن کی طرح سجی ہوئی ہیں دونوں ہی بنی ٹھنی ہوئی ہیں ہیں پیکرِ لاجواب دونوں ہر چھب میں ہیں کامیاب دونوں دونوں کے یہ دل میں آرزو ہے دونوں کو بس ایک جستجو ہے ہوں مجھ میں حبیب جلوہ افگن تقدیر ہو آفتابِ روشن ۔۔۔
مزید
ظہورِ قدسی نوشہ کی کب آتی ہے سواری ہے سب کی زبانِ دل پہ جاری وا، سب کی ہیں بیقرار آنکھیں دولہا پہ ہوں کب نثار آنکھیں تارے ہیں جھکے زمیں کی جانب دیدار کا ماہتاب طالب اشجار بھی سرو قد کھڑے ہیں خاموش، ادب سے سر جھکے ہیں نرگس کی کھلی ہوئی ہیں آنکھیں شبنم سے دُھلی ہوئی ہیں آنکھیں ہیں چشم براہ غنچہ و گل قمری ہے خموش، چپ ہے بُلبل دولہا کی سواری کب ہے آتی بیتاب کھڑا ہے ہر براتی انگڑائیاں رات لے رہی ہے کچھ شب ہے تو کچھ سحرا بھی ہے دنیا پہ ہے اِک سکوت طاری مائل ہوا لطفِ خاص باری ہے اَوج پر کوکبِ دو شنبہ آئی سحرِ شبِ دو شنبہ وہ مرغ، وہ جبرئیل انور پَر آمنہ کے شکم سے مَل کر کرنے لگے با ادب گزارش ہو ابرِ کرم، کرم کی بارش کونین کی بزم سج چکی ہے جلوے کو نظر ترس رہی ہے یاسید المرسلینﷺ، اظہر یارحمتِ عالمینﷺ، اظہر پردے سے حضورﷺ باہر آئیں بیتاب ہیں منتظر نگاہیں باجاہ و حشم، باشان و شوکت ظاہر ہوئے سرورِ رس۔۔۔
مزید
سراپائے مبارک اللہ رے وہ حسین پیکر جس پہ ہو نثار ماہِ انور کیا نورِ نگاہِ آمنہ کا بے مثل ہے دلنشیں سراپا رعنائیاں خلد کی سمٹ کر انساں کی ہیں شکل میں زمیں پر یہ منظر گلستانِ قدرت ہے پیشِ نظر بشد کی صورت ہے شکلِ بشر، سوا بشر سے انسان، مگر جُدا بشر سے واللہ ہے کیا حسیں سراپا ہے ظلِّ خدا حسیں سراپا صورت گرِ دوجہاں کا مظہر ہے ذاتِ عیاں نہاں کا مظہر ۔۔۔
مزید
جبینِ نُور ہے تختۂ گل، جبین عالی پر نُور، صحیفۂ جمالی ہے مصحفِ قدرتِ الہٰی آئینۂ حکمت الہٰی۔۔۔
مزید
ابروئے پاک ابرو ہیں کہ نور کی کماں ہیں محراب سجود گاہِ جاں ہیں عیدین کے دو ہلال انور وَالنَّجْمِ اِذَا ہَویٰ کے مظہر ۔۔۔
مزید
چشمِ کرم ترجمان آنکھیں ہیں کہ نور کے کٹورے صہبائے طہور کے کٹورے ہیں جام مئے سرور کے دو روشن ہیں چراغ نور کے دو دل بولا یہ دفعتہً مچل کے دو پھول ہیں خندن زن کنول کے محرابِ حرم کے درمیاں دو ضو بار حسیں کنول ہیں دیکھو کس درجہ لطیف ہے سیاہی پر نور حسیں پتلیوں کی کہتا ہے یہ صاف رنگِ اسود پلکیں ہیں غلافِ سنگِ اسود ۔۔۔
مزید
رخسارِ تابناک رخسار ہیں مخملیں گلابی آئینوں میں ضَو ہے آفتابی یا فرش پہ چاند آگئے دو یا پُھول کِھلے گلاب کے دو یہ جھلکیاں نور لے رہا ہے یا آب میں چاند تیرتا ہے ۔۔۔
مزید
سماعت نواز کس طرح ہو وصفِ گوش اختؔر شاعر کے اُڑے ہیں ہوش اختؔر ہیں دو یہ صدف یم کرم کے دو پھول ہیں گلشنِ ارم کے اللہ رے رفعتِ سماعت ہیں کانِ جواھرِ کرامت ۔۔۔
مزید
بِینی پُروقار بینی ہے کہ ہے ’’الِف‘‘ خدا کا یا آخری حرف مصطفیٰﷺ کا ہے کتنا لطیف استعارہ[1]؎ کہئے اسے گر الِف اشارہ کونین کا یعنی ہے خدا ایک اور اس کا حبیبِ باصفاﷺ ایک محبوبِ خدا ہوا نہ ہوگا دنیا میں بشر کوئی بھی ایسا اوّل ہیں یہی، یہی ہیں آخر باطن ہیں یہی، یہی میں ظاہر آئے گا کوئی نہ ایسا آیا اُس ایک نے ایک ہی بنایا [1]استعارہ بمعنے اشارہ یعنی خدا، مصطفیٰﷺ، اول، آخر، ظاہر اور باطن، ان سب میں ’’الف‘‘ ہے اور بینی مبارک کو ان سے تشبیہ دی جارہی ہے ، لہذا مطلب ظاہر ہے ۱۲ اختر الحامدی۔۔۔
مزید