مثنوی انوار العرفان ساقی مجھے جامِ مَے عطا کر لِلّٰہ پِلا نظر مِلا کر لب تشنہ ہوں، تشنگی بجھا دے لا جام، تجھے خدا جزا دے دل کو نہیں میرے تاب ساقی لا جلد، پِلا شراب ساقی جِیلان سے کِشید کی ہوئی لا میخانۂ غوثِ پاک کی لا بغداد کی ہو بہار جس میں ہو نگہتِ چار یار جس میں ہو فاطمی انبساط جس میں اور پنجتنی نشاط جس میں بُو چشتی ہو، رنگ نقشبندی ہو کیف و سرور سہروردی نوری[1]؎ مئے معرفت پلا دے جو قلب و دماغ کو جِلا دے ہر جُرعہ میں کیف و سرمدی ہو وہ لا کہ جو آج تک نہ پی ہو پاکیزہ سرور بھی ہو جس میں اللہ کا نور بھی ہو جس میں دارین کی لذتیں ہوں جس میں کونین کی فرحتیں ہوں جس میں فردوس کی نکہتیں ہوں جس میں جنت کی لطافتیں ہوں جس میں اے حامدِ[2]؎ نور بار ساقی یہ رِند تیرے نثار ساقی ہے عیدِ نویدِ موسمِ گل کر آج شکستِ ساغرِ مُل آنکھوں سے پِلا کے مست کر دے مدہوش شرابِ ہست کر دے آج ایسی پِلا، کبھی نہ پی ہو ۔۔۔
مزید
ستاعِر کیا طاقتِ رفعتِ نظر ہے رفعت کا دماغ عرش پر ہے لختِ دلِ آمنہ کے صدقے علمِ شہِ دوسرا کے صدقے کیوں سامنے غیب ہوں نہ دم میں دانائے غیوب ہیں شِکم میں سن لو یہ بشارتِ الہٰی کہتی ہے نگاہ آمنہ کی جو رب نے کرم کئے، کئے ہیں محبوب کو غیب بھی وئے ہیں لکھتے ہیں یہ حضرتِ[1]؎ محقق علّامۂ محدّث و مدقق فرماتی ہیں اُمِّ پاک حضرتوﷺ تنہا تھی میں بس شبِ ولادت اور صرفِ طواف مُطّلِب تھے یوں دل میں لگا خیال آنے یہ وقت ہے اور میں ہوں اکیلی ہوتی کوئی رازداں سہیلی ہُوں عالمِ دردِ زِہ میں تنہا ہوتا کوئی فرد خانداں کا میں محو اِسی خیال میں تھی آواز سُنی مہیب ایسی جس سے کہ لرز گیا مِرا دِل پتّے کی طرح مِرا اُڑا دل لرزاں تھی ابھی کہ میں نے دیکھا اِک مرغ سفید بال و پَر کا اس نے مِرے قلب پر مَلے پَر دل سے ہوا دُور خوف یکسر مدارج النبوۃ، جلد دوم، ص ۲۰، تفریح الاذکیاء مصنفہ ابو ا۔۔۔
مزید
اِک اور بھی قول معتبر ہے وَلیوں کی نظر بھی کیا نظر ہے لکھتے ہیں حضور شیخ[1]؎ الاعظم مولائے انام، قطبِ عالَم تھا مخزنِ علم جن کا سینہ وہ عاشقِ یوسفِ مدینہ مفتی و امیرِ شرع و ملّت یعنی کہ امامِ اہلِ سنّت وہ مِرے حضور، میرے مرشد وہ نائبِ غوث، وہ مجدِّد وہ رکنِ رکینِ دینِ سرمد الحاج رضؔا، رضائے احمد فرماتے ہیں یہ بصدقۂ عشق ارشاد ہے یوں بجذبۂ عِشق وہ مرغ سفید بال و پَر کا شربت جو بہشت سے تھا لایا جبریلِ امیں بہ شکلِ طائر تھے خانۂ آمنہ میں حاضر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ ۱۲ [1]۔۔۔
مزید
کرتے ہیں عبدِ حق روایت فرماتی ہیں امِ پاک حضرت و ﷺ اک نور کا میں نے جام دیکھا شربت سے بَھرا ہوا تھا سارا میں نے کیا نوشِ جاں وہ شربت آنے لگی جسم و جاں میں قوت آنکھوں میں ہجومِ نور دیکھا گھر میں مِرے ہوگیا اُجالا اُٹھا جو تجلّیوں کا پردہ کچھ اور نظر کے سامنے تھا عوراتِ حسین و پاک صورت سیمیں تن و تابناک صورت اِستادہ ہیں سب قریب میرے ہر ایک ادب سے سر جھکائے حیراں تھی میں، حیرتوں میں گم تھی اِک آگے بڑھی ادب سے بولی میں آسیہ ہوں، حضور بی بی مریم ہوں میں، دوسری یہ بولی میں، اور آسیہ، یہ حوریں ہم سب ہیں حضورﷺ کی کنیزیں آئے ہیں یہاں بحکمِ رب ہم اے والدۂ رسولِ اکرمﷺ ۔۔۔
مزید
شاعِر قدرت کے یہ قدرتی اشارے ہیں کیسے حسین، کتنے پیارے ہے مریم[1]؎ و آسیہ کا آنا اِک زمِ حسین و عاشقانہ یہ دونوں کہ بخت کی رسا ہیں منسوبۂ شاہِ دوسراﷺ ہیں دونوں کا نکاح روزِ محشر سرکار سے ہوگا پیشِ دوار تھا تحتِ مشیّتِ الہٰی ہوں آج شریکِ جشن یہ بھی دیدارِ شہِ حجاز کرلیں نظّارۂ سروِناز کرلیں محبوبِ حسیں کو دیکھ لیں یہ اس ماہِ مبیں کو دیکھ لیں یہ قدرت کا تھا یہ حسیں اشارہ اِک حُسنِ وفا کا اِستعارا یہ دیکھ لیں انتخاب میرا محبوب ہے لاجواب میرا دنیا میں جو تم رہیں عفیفہ اے حاملِ عصمتِ شریفہ انعام ہے اس کا یہ چمکتا ’’بے مثل حسیں، حبیبِ یکتا‘‘ ہو میرے حبیب کی حبیبہ تابندہ ہے کس قدر نصیبہ عفّت میں جو نام ہے تمہارا محبوب بھی کم نہیں ہمارا ہیں راز میں راز کے خزانے مولیٰ تِرے بھید تو ہی جانے [1] خاتم المحققین شاہ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ ۱۲ ۲؎ حضرت شیخ عبد ا۔۔۔
مزید
شبِ ولادت پیغامِ حسیں نسیم لائی لو صبحِ شبِ ظہور آئی منظر ہے سرور و کیف افزا روشن ہیں چراغِ طُور ہر جا ہر لمحہ پہ شانِ لیلۃ القدر یہ رات ہے جانِ لیلۃ القدر یہ رات، یہ حسن و ادائی حسن در اصل ہے شاہزادئ حُسن یہ رات ہے جُود کی، نِعَم کی یہ رات ہے بارشِ کرم کی یہ رات ہے روشنی مجسّم یہ رات ہے ماہتابِ عالم یہ رات ہے کیفِ جانِ عالم یہ رات ہے حُسنِ شانِ عالم یہ رات ہے جشنِ عید کی رات یہ رات ہے صبحِ دید کی رات واللہ عجب ہے آج کی شب اکرام پہ رب ہے آج کی رات ہے نور سرشت آج کی شب ہے حُسنِ بہشت آج کی شب باعزّ و شرف ہے آج کی شب ہے گل بہ کنار آج کی شب سر تا پا حسیں ہے آج کی شب خورشید مبیں ہے آج کی شب ہے جانِ جمال آج کی شب ہے بدرِکمال آج کی شب ہے مشعلِ طور آج کی شب ہے نور ہی نور آج کی شب ہے آج کی شب، شبِ ہلالی ہے آج کی شب، شبِ جمالی ہے آج کی شب، شبِ گلستاں ہے آج کی شب، شبِ چراغاں ہے آج کی شب، شبِ مطّہر ہ۔۔۔
مزید
صبحِ ظہور ہے آج کی صبح نور والی ہے آج کی صبح، صبحِ عالی ہے آج کی صبح، صبحِ رحمت ہے آج کی صبح، صبحِ جنّت ہے آج کی صبح، صبحِ روشن ہے آج کی صبح، صبحِ گلشن ہے آج کی صبح، صبحِ تاباں ہے آج کی صبح، نور افشاں وہ صبح کہ جس پہ طُور قرباں وہ صبح کہ جس پہ نور قرباں وہ صبح، ہے ماہ جس پہ صدقے وہ صبح، نگاہ جس پہ صدقے پیغامِ بہار یہ سحر ہے جنت بہ کنار یہ سحر ہے سرمایۂ حُسن یہ سحر ہے یا سایۂ حُسن یہ سحر ہے ۔۔۔
مزید
بے مثل ہے رات بھی سحر بھی حیران ہے حسن کی نظر بھی دلہن کی طرح سجی ہوئی ہیں دونوں ہی بنی ٹھنی ہوئی ہیں ہیں پیکرِ لاجواب دونوں ہر چھب میں ہیں کامیاب دونوں دونوں کے یہ دل میں آرزو ہے دونوں کو بس ایک جستجو ہے ہوں مجھ میں حبیب جلوہ افگن تقدیر ہو آفتابِ روشن ۔۔۔
مزید
ظہورِ قدسی نوشہ کی کب آتی ہے سواری ہے سب کی زبانِ دل پہ جاری وا، سب کی ہیں بیقرار آنکھیں دولہا پہ ہوں کب نثار آنکھیں تارے ہیں جھکے زمیں کی جانب دیدار کا ماہتاب طالب اشجار بھی سرو قد کھڑے ہیں خاموش، ادب سے سر جھکے ہیں نرگس کی کھلی ہوئی ہیں آنکھیں شبنم سے دُھلی ہوئی ہیں آنکھیں ہیں چشم براہ غنچہ و گل قمری ہے خموش، چپ ہے بُلبل دولہا کی سواری کب ہے آتی بیتاب کھڑا ہے ہر براتی انگڑائیاں رات لے رہی ہے کچھ شب ہے تو کچھ سحرا بھی ہے دنیا پہ ہے اِک سکوت طاری مائل ہوا لطفِ خاص باری ہے اَوج پر کوکبِ دو شنبہ آئی سحرِ شبِ دو شنبہ وہ مرغ، وہ جبرئیل انور پَر آمنہ کے شکم سے مَل کر کرنے لگے با ادب گزارش ہو ابرِ کرم، کرم کی بارش کونین کی بزم سج چکی ہے جلوے کو نظر ترس رہی ہے یاسید المرسلینﷺ، اظہر یارحمتِ عالمینﷺ، اظہر پردے سے حضورﷺ باہر آئیں بیتاب ہیں منتظر نگاہیں باجاہ و حشم، باشان و شوکت ظاہر ہوئے سرورِ رس۔۔۔
مزید
سراپائے مبارک اللہ رے وہ حسین پیکر جس پہ ہو نثار ماہِ انور کیا نورِ نگاہِ آمنہ کا بے مثل ہے دلنشیں سراپا رعنائیاں خلد کی سمٹ کر انساں کی ہیں شکل میں زمیں پر یہ منظر گلستانِ قدرت ہے پیشِ نظر بشد کی صورت ہے شکلِ بشر، سوا بشر سے انسان، مگر جُدا بشر سے واللہ ہے کیا حسیں سراپا ہے ظلِّ خدا حسیں سراپا صورت گرِ دوجہاں کا مظہر ہے ذاتِ عیاں نہاں کا مظہر ۔۔۔
مزید
چشمِ کرم ترجمان آنکھیں ہیں کہ نور کے کٹورے صہبائے طہور کے کٹورے ہیں جام مئے سرور کے دو روشن ہیں چراغ نور کے دو دل بولا یہ دفعتہً مچل کے دو پھول ہیں خندن زن کنول کے محرابِ حرم کے درمیاں دو ضو بار حسیں کنول ہیں دیکھو کس درجہ لطیف ہے سیاہی پر نور حسیں پتلیوں کی کہتا ہے یہ صاف رنگِ اسود پلکیں ہیں غلافِ سنگِ اسود ۔۔۔
مزید
رخسارِ تابناک رخسار ہیں مخملیں گلابی آئینوں میں ضَو ہے آفتابی یا فرش پہ چاند آگئے دو یا پُھول کِھلے گلاب کے دو یہ جھلکیاں نور لے رہا ہے یا آب میں چاند تیرتا ہے ۔۔۔
مزید