رئیس القلم حضرت علامہ محمد ارشد القادری رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ (25)
یا نبی یاد تِری دل سے مرے کیوں جائے بختِ بیدار مِرا جاگ کے کیوں سو جائے لاکھ عشاقِ مدینہ ہیں الم سے گھائل تم جو آ جاؤ تو پیارے کوئی کیوں گھبرائے جب نظر ہی میں نہیں لاتے دو عالم کا جمال ان کے دیوانوں کو فردوس بھی کیوں بہلائے صبح کا وقت ہے آقا مِری جھولی بھر دو کٹ گئی رات یوں ہی دستِ طلب پھیلائے ٹوٹ جائے غم و کلفت کی چٹانوں کا غرور سبز گنبد سے اگر دل کی صدا ٹکرائے آگئے والیِ بطحا کی اماں میں اؔرشد کہہ دو آنا ہے تو اب پیکِ اجل آجائے (اظہار عقیدت)۔۔۔
مزیدبہرِ دیدارِ مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکار آجائیے چاندنی رات ہے اورپچھلا پہر دونوں عالم کے سرکار آجائیے سدرۃ المنتہیٰ عرش و باغِ ارم ہر جگہ پڑ چکے ہیں نشانِ قدم اب تو اک بار اپنے غلاموں کے گھر دونوں عالم کے سرکارآجائیے شامِ امید کا اب سویرا ہوا سوئے طیبہ نگاہوں کا ڈیرا ہوا بچھ گئے راہ میں فرشِ قلب و نظر دونو ں عالم کے سرکار آجائیے سامنے جلوہ گر پیکرِ نور ہو منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو کرکے تبدیل اک دن لباسِ بشر دونوں عالم کے سرکار آجائیے دل کا ٹوٹا ہوا آبگینہ لیے جذبۂ اشتیاقِ مدینہ لیے کتنے گھائل کھڑے ہیں سرِ رہ گذر دونوں عالم کے سرکار آجائیے میرے گلشن کو اک بار مہکائیے اپنے جلووں کی بارش میں نہلائیے دیدۂ شوق کو کیجیے بہرہ ور دونوں عالم کے سرکار آجائیے تا ابد اپنی قسمت پہ نازاں رہیں خاک ہوجائیں پھر بھی فروزاں رہیں دل کی بزمِ تمنا میں اک بار اگر دونوں عالم کے سرکار آ۔۔۔
مزیدمدینے میں دل کا نشاں چھوڑ آئے فضاؤں میں آہ و فغاں چھوڑ آئے جدھر سے بھی گزرے جہاں سے بھی گزرے محبت کی اک داستاں چھوڑ آئے ۔۔۔
مزیدزمیں تا چرخِ بریں فرشتے ہر اک نفس کو پکار آئے گناہگارو! مناؤ خوشیاں شفیعِ روزِ شمار آئے وہ نورِ اوّل سراپا رحمت عطا کے پیکر خدا کی نعمت وہ مونس و غم گسار بن کر دکھی دلوں کے قرار آئے چمن نے کی آبرو نچھاور گلوں نے سجدے کیے قدم پر نقاب الٹے گہر لٹاتے وہ جب سوئے لالہ زار آئے بشر کی تشہیر کرنے والو! نہ اٹھ سکا تم سے بارِ احساں کہ خاکیوں کی اس انجمن میں وہ عرش کے تاج دار آئے جہانِ خاکی کے تیرہ بختو تباہ کارو خطا شعارو کچھ اس طرح جاؤ آبدیدہ کہ ان کی رحمت کو پیار آئے کہیں نہ کھل جائے چشم ِ نرگس کہیں نہ برپا ہو حشر کا دن زمیں پہ تارِ نظر سے چلنا حبیب کا جب دیار آئے میں اس کی ہر اک ادا پہ ارؔشد کروں عقیدت سے دل نچھاور شہہِ مدینہ کے در پہ جاکر جو اپنی ہستی سنوار آئے عرب سے بغداد کی زمیں تک نجف سے اجمیر کی گلی تک ہزار ناموں سے ان کو ارؔشد کہاں کہاں ہم پکار آئے۔۔۔
مزیدجمالِ نور کی محفل سے پروانہ نہ جائے گا مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا بڑی مشکل سے آیا ہے پلٹ کر اپنے مرکز پر مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا یہ مانا خلد بھی ہے دل بہلنے کی جگہ لیکن مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا نشیمن باندھنا ہے شاخِ طوبیٰ پر مقدر کا مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا جو آنا ہے تو خود آئے اجل عمرِ ابد لے کر مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا ٹھکانا مل گیا ہے فاتحِ محشر کے دامن میں مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا فرازِ عرش سے اب کون اترے فرشِ گیتی پر مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا دو عالم کی امیدوں سے کہو مایوس ہو جائیں مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا نہ ہو گر داغِ عشقِ مصطفیٰ کی چاندنی دل میں غلامِ با وفا محشر میں پہنچا نہ جائے گا حبیبِ کبریا کی عظمتوں سے منحرف ہو کر یہ دعوائے مسلمان۔۔۔
مزیدہے جبیںِ شوق کا بھی دنیا میں اک ٹھکانہ رہے حشر تک سلامت تِرا سنگِ آستانہ دو جہاں کی نعمتوں کو جسے چاہے بخش دے تو تِری ملک ہے خدائی تِرے بس میں ہے زمانہ تو ہی چارہ ساز میرا تو ہی غم گسار میرا کسے جا کے میں سناؤں غم و درد کا فسانہ کبھی وہ سحر بھی آتی کہ چراغ بجھتے بجھتے تِرے سنگِ در پہ بنتا مِرے غم کا آشیانہ مری آہِ نارسا پر رہی طعنہ زن یہ دنیا مِرے دردِ دل کا عالم نہ سمجھ سکا زمانہ ترے غم سے زندگی ہے تری یاد بندگی ہے کہ ہے دینِ عاشقی میں یہ نمازِ پنج گانہ غمِ عاشقی میں ارؔشد یہی زندگی کا حاصل کبھی آہِ صبح گاہی کبھی گریۂ شبانہ۔۔۔
مزیدروز آئے مدینے سے بادِ صبا ہجر میں دل ہمارا بہلتا رہے ہر گھڑی تم مجھے یاد آتے رہو عالمِ شوق میں دل مچلتا رہے وقت آجائے ارؔشد کا جب آخری رنگ لائے مِری نسبتِ قادری گوشۂ دامنِ پاک ہو ہاتھ میں سامنے تم رہو دم نکلتا رہے۔۔۔
مزیدماہِ مبین و خوش ادا صلِ علیٰ محمد پردۂ کن کے مہ لقا صلِ علیٰ محمد شاخِ نہالِ آرزو پھولے پھلے گی چار سو دل سے نکلتی ہے صدا صلِ علیٰ محمد اس کی بلائیں رد ہوئیں اس کے گناہ دھل گئے جس نے بَہ صدقِ دل پڑھا صلِ علیٰ محمد اتنا جنوں کا جوش ہو تن کا نہ اپنے ہوش ہو کہتا پھروں میں بر ملا صلِ علیٰ محمد جتنے مرض ہیں لا دوا ان کے لیے تو پڑھ سداصلِ علیٰ نبینا صلِ علیٰ محمد۔۔۔
مزیدہو چشم ِ عنایت شہِ جیلاں مِرے لیے ہو چارہ ساز رحمتِ یزداں مِرے لیے آواز دی ہے جب سے انہیں کہہ کے دستگیر شامِ الم ہے صبح ِ بہاراں مِرے لیے میں ہوں دیارِ غوث میں پھر آج شب گزار رک جائے کہہ د و گردشِ دوراں مِرے لئے مرہم ہو یا کہ نشترِ غم سب ہے خوش گوار جب تم ہی خود ہو درد کا درماں مِرے لیے داغِ دل ِ غریب ہے ہم رنگ ِ لالہ زار ہے شامِ آرزو کا چراغاں مِرے لیے شامِ نشاط و صبحِ طرب بہر دیگراں صد مرحبا کہ ہے غمِ جاناں مِرے لیے اے کاش پوچھیں حشر میں جیلاں کے تاجْدار ارؔشد کہاں ہے اشک بداماں مِرے لیے۔۔۔
مزیدچراغِ طیبہ کی روشنی میں جو ایک شب بھی گزار آئے وہ دل کو روشن بنا کے اٹھے وہ اپنی قسمت سنوار آئے کچھ ایسی پی ہے شرابِ الفت وہیں کھڑے ہیں خبر نہیں ہے نہ در ہُوا بند مَے کدے کا نہ ہوش میں بادہ خوار آئے۔۔۔
مزیدعلامت عشق کی آخر کو ظاہر ہو کے رہتی ہے جبیں سے رنگ سے پژ مردگی سے چشم گریاں سے کرم کی، رحم کی، امداد کی ہے آس ارؔشد کو خدا سے، مصطفی ٰ سے، غوث سے احمد رضا خاں سے ۔۔۔
مزیدہمیشہ جوش پر بحرِ کرم ہے میرے خواجہ کا زمانہ بندۂ جود و نعم ہے میرے خواجہ کا نچھاور ہے متاعِ دوجہاں اس دل کی قیمت پر کہ نامِ پاک جس دل پر رقم ہے میرے خواجہ کا منور ہند کا ظلمت کدہ خواجہ کے دم سے ہے دیارِ ہند ممنونِ کرم ہے میرے خواجہ کا نوازش ہے کہ دریا بہہ رہا ہے فیض ورحمت کا زمانے پر سدا لطفِ اتم ہے میرے خواجہ کا نگوں ہوکر رہا ہر ایک کا پرچم زمانے میں بلندی پر نصب اب تک ہے پرچم میرے خواجہ کا ہزاروں پرچمِ شوکت اڑے اور مٹ گئے آخر بلندی پر نصب اب تک ہے پرچم میرے خواجہ کا درِ اقدس کا ہر ذرّہ غبارِ طورِ سینا ہے دل ِ روشن گزر گاہِ حرم ہے میرے خواجہ کا ہزاروں قافلے عرفان کی منزل پہ جا پہنچے چراغِ رہ گذر نقشِ قدم ہے میرے خواجہ کا سلاطینِ جہاں بھی سنگِ در کی خاک ملتے ہیں تعالیٰ اللہ وہ جاہ وحشم ہے میرے خواجہ کا کہاں سے آرہی ہے حشر میں آواز ارؔشد کیگنہگار و چلو باغِ ارم ہے میرے ۔۔۔
مزید