درِ جاناں پہ فدائی کو اجل آئی ہو زندگی آکے جنازے پہ تماشائی ہو تیری صورت جو تصوّر میں اُتر آئی ہو پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو نیک ساعت سے اجل عیشِ ابد لائی ہو درِ جاناں پہ کوئی محوِ جبیں سائی ہو سنگِ در پر ترے یوں ناصیہ فرسائی ہو خود کو بھولا ہوا جاناں ترا شیدائی ہو خود بخود خلد وہاں کھنچ کے چلی آئی ہو دشتِ طیبہ میں جہاں بادیہ پیمائی ہو موسمِ مے ہو وہ گیسو کی گھٹا چھائی ہو چشم ساقی سے پئیں جلسۂ صہبائی ہو چاندنی رات میں پھر مے کا وہ اک دور چلے بزمِ افلاک کو بھی حسرت مے آئی ہو ان کے دیوانے کھلی بات کہاں کرتے ہیں بات سمجھے وہی جو صاحب دانائی ہو مہرِ خاور پہ جمائے نہیں جمتی نظریں وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو دشت طیبہ میں چلوں چل کے گروں گرکے چلوں ناتوانی مری صد رشکِ توانائی ہو گل ہو۔۔۔
مزیدوہ چھائی گھٹا بادہ بارِ مدینہ پیئے جھوم کر جاں نثارِ مدینہ وہ چمکا وہ چمکا منارِ مدینہ قریب آرہا ہے دیارِ مدینہ نہا لیں گنہ گار ابرِ کرم میں اُٹھا دیکھئے وہ غبارِ مدینہ خدا یاد فرمائے سوگندِ طیبہ زہے عظمت و افتخارِ مدینہ اگر دیکھے رضواں چمن زارِ طیبہ کہے دیکھ کر یوں وہ خارِ مدینہ مدینے کے کانٹے بھی صد رشکِ گل ہیں عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ نہیں جچتی جنت بھی نظروں میں ان کی جنہیں بھا گیا خار زارِ مدینہ مری جان سے بھی وہ نزدیک تر ہیں وہ مولائے ہر بے قرارِ مدینہ کروں فکر کیا میں غمِ زندگی کی میں ہوں بندۂ غم گسارِ مدینہ چلا دورِ ساغر مئے ناب چھلکی رہے تشنہ کیوں بادہ خوارِ مدینہ چلا کون خوشبو لٹاتا کہ اب تک ہے مہکی ہوئی رہ گذارِ مدینہ سحر دن ہے اور شامِ طیبہ سحر ہے انوکھے ہیں لیل و ن۔۔۔
مزیدصبا یہ کیسی چلی آج دشت بطحا سے امنگ شوق کی اٹھتی ہے قلب مردہ سے نہ بات مجھ سے گلِ خلد کی کر اے زاہد کہ میرا دل ہے نگار خارِ طیبہ سے یہ بات مجھ سے مرے دل کی کہہ گیا زاہد بہارِ خلد بریں ہے بہارِ طیبہ سے یہ کس کے دم سے ملی جہاں کو تابانی مہ و نجوم ہیں روشن منارِ طیبہ سے فدائیوں کو یہ ضد کیا کہ پردہ اٹھ جائے ہزار جلوے نمایاں حجابِ آقا سے جو ہیں مریضِ محبت یہاں چلے آئیں صدا یہ آتی ہے سن لو مزارِ مولیٰ سے کنارا ہو گیا پیدا اسی جگہ فوراً کبھی جو ہم نے پکارا میانِ دریا سے نہ فیض اس محبت میں تو نے کچھ پایا کنارا کیوں نہیں کرتا تو اہل دنیا سے پس ممات نہ بدنام ہو ترا اخترؔ الٰہی اس کو بچالینا طعنِ اعداء سے۔۔۔
مزیدتختِ زریں نہ تاجِ شاہی ہے کیا فقیرانہ بادشاہی ہے فقر پر شان یہ کہ زیرِ نگیں ماہ سے لے کے تا بماہی ہے روئے انور کے سامنے سورج جیسے اک شمعِ صبح گاہی ہے سایۂ ذات کیوں نظر آئے نور ہی نور ہے ضیا ہی ہے رِیت آقا کی چھوڑ دی ہم نے اپنی مہمان اب تباہی ہے اک نگاہِ کرم سے مٹ جائے دل پہ اخترؔ کے جو سیاہی ہے ٭…٭…٭۔۔۔
مزیدصدرِ بزمِ کثرت ، یا رسول اللہﷺ رازدارِ وحدت ، یا رسول اللہﷺ ہر جہاں کی رحمت ، یا رسول اللہﷺ بہترین خلقت ، یا رسول اللہﷺ نعرۂ رسالت یا رسول اللہﷺ محوِ خوابِ غفلت ، یا رسول اللہﷺ ہوگئی یہ امت ، یا رسول اللہﷺ سو یا بختِ ملت ، یا رسول اللہﷺ کیجئے عنایت ، یا رسول اللہﷺ نعرۂ رسالت یا رسول اللہﷺ صاحب ہدایت ، یا رسول اللہﷺ چھایا ابرِ ظلمت ، یا رسول اللہﷺ ناتواں ہے امت ، یا رسول اللہﷺ کیجئے حمایت ، یا رسول اللہﷺ نعرۂ رسالت یا رسول اللہﷺ درپئے شرارت ، یا رسول اللہﷺ کفر کی جماعت ، یا رسول اللہﷺ ناتواں ہے امت ، یا رسول اللہﷺ کیجئے حمایت ، یا رسول اللہﷺ نعرۂ رسالت یا رسول اللہﷺ مالکِ شفاعت ، یا رسول اللہﷺ بیکسوں کی طاقت ، یا رسول اللہﷺ میزبانِ امت ، یا رسول اللہﷺ ایک جامِ شربت ، یا رسول اللہﷺ نعرۂ رسالت یا رسول اللہﷺ آپ کی اطاعت ، ۔۔۔
مزیدہمارے باغِ ارماں میں بہارِ بے خزاں آئے کبھی جو اس طرف خندہ وہ جانِ گلستاں آئے وہ جانِ یوسف آجائے اگر میرے تصور میں خدا رکھے وہیں کھنچ کر بہارِ دوجہاں آئے کوئی دیکھے مری آنکھوں سے یہ اعزاز آقا کا سلامی کو درِ حضرت پہ شاہِ قدسیاں آئے جمالِ روئے جاناں دیکھ لوں کچھ ایسا ساماں ہو کبھی تو بزمِ دل میں یاخدا آرامِ جاں آئے الٰہی اپنی ستاری کا تجھ کو واسطہ سن لے سرِمحشر نہ بندے کا گنہ کوئی عیاں آئے کرم سے اس کمینے کی بھی مولیٰ لاج رکھ لینا ترا اخترؔ ترے سایہ میں شاہِ دوجہاں آئے ٭…٭…٭۔۔۔
مزیددور اے دل رہیں مدینے سے موت بہتر ہے ایسے جینے سے ان سے میرا سلام کہہ دینا جاکے تو اے صبا قرینے سے ہر گلِ گلستاں معطر ہے جانِ گلزار کے پسینے سے یوں چمکتے ہیں ذرّے طیبہ کے جیسے بکھرے ہوئے نگینے سے ذکرِ سرکارﷺ کرتے ہیں مومن کوئی مر جائے جل کے کینے سے بارگاہِ خدا میں کیا پہونچے گر گیا جو نبی کے زینے سے پیجئے چشمِ ناز سے ان کی میکشوں کا بھلا ہے پینے سے اس تجلی کے سامنے اخترؔ گل کو آنے لگے پسینے سے۔۔۔
مزیدنہیں جاتی کسی صورت پریشانی نہیں جاتی الٰہی میرے دل کی خانہ ویرانی نہیں جاتی نہ جانے کس قدر صدمے اٹھائے راہ الفت میں نہیں جاتی مگر دل کی وہ نادانی نہیں جاتی پئے بن ہی یہاں مستی کا یہ عالم معاذاللہ قریبِ مرگ بھی وہ چال مستانی نہیں جاتی ہزاروں درد سہتا ہوں اسی امید میں اخترؔ کہ ہرگز رائیگاں فریاد روحانی نہیں جاتی ٭…٭…٭۔۔۔
مزیدمنقبت شریف سیدنا امام عالی مقام حضرت حسین --------------------------- شجاعت ناز کرتی ہے جلالت ناز کرتی ہے وہ سلطانِ زماں ہیں ان پہ شوکت ناز کرتی ہے صداقت ناز کرتی ہے امانت ناز کرتی ہے حمیت ناز کرتی ہے مروت ناز کرتی ہے شہ خوباں پہ ہر خوبی و خصلت ناز کرتی ہے کریم ایسے ہیں وہ ان پر کرامت ناز کرتی ہے جہانِ حسن میں بھی کچھ نرالی شان ہے ان کی نبی کے گل پہ گلزاروں کی زینت ناز کرتی ہے شہنشاہِ شہیداں ہو ، انوکھی شان والے ہو حسین ابنِ علی تم پر شہادت ناز کرتی ہے بٹھا کر شانۂ اقدس پہ کردی شان دوبالا نبی کے لاڈلوں پر ہر فضیلت ناز کرتی ہے جبینِ ناز ان کی جلوہ گاہِ حسن ہے کس کی رخِ زیبا پہ حضرت کی ملاحت ناز کرتی ہے نگاہِ ناز سے نقشہ بدل دیتے ہیں عالم کا ادائے سرورِ خوباں پہ ندرت ناز کرتی ہے فدائی ہوں تو کس کا ہوں کوئی ۔۔۔
مزیدمیری خلوت میں مزے انجمن آرائی کے صدقے جائوں میں انیسِ شب تنہائی کے اُن کے صدقے میں ملا مول انوکھا مجھ کو ہوگئے دونوں جہاں آپ کے شیدائی کے سر ہے سجدے میں خیالِ رُخِ جاناں دل میں ہم کو آتے ہیں مزے ناصیہ فرسائی کے سجدہ بے الفتِ سرکار عبث ہے نجدی مہر لعنت ہیں یہ سب داغ جبیں سائی کے دشتِ طیبہ میں گمادے مجھے اے جوشِ جنوں خوب لینے دے مزے بادیہ پیمائی کے وہ رگِ جان دو عالم ہیں بڑے بھائی نہیں ہیں یہ سب پھندے بُرے تیرے بڑے بھائی کے میں تو ہوں بلبل بستانِ مدینہ اخترؔ حوصلے مجھ کو نہیں قافیہ آرائی کے۔۔۔
مزیدغیر اپنے ہوگئے ، جو ہمارے بدل گئے نظریں بدل گئیں تو نظارے بدل گئے کس کو سنائیے گا یہاں غم کی داستاں جو غم میں ساتھ دیتے وہ سارے بدل گئے ڈھونڈے سے پائیے گا نہ پہلی سی مستیاں بدلی شرابِ کہنہ وہ پیالے بدل گئے اس دورِ مصلحت میں وفا کوئی شے نہیں گا ہے ہوئے ہمارے تو گاہے بدل گئے اخترؔ لگائیے لو نبیٔ کریم سے کیا فکر اہلِ دنیا جو سارے بدل گئے۔۔۔
مزیددرِ احمد پہ اب میری جبیں ہے مجھے کچھ فکر دو عالم نہیں ہے مجھے کل اپنی بخشش کا یقیں ہے کہ الفت ان کی دل میں جاگزیں ہے بہاریں یوں تو جنت میں ہیں لاکھوں بہارِ دشت طیبہ پر کہیں ہے میں وصفِ ماہِ طیبہ کر رہا ہوں بلا سے گر کوئی چیں بر جبیں ہے عبث جاتا ہے تو غیروں کی جانب کہ بابِ رحمت رحماں یہیں ہے گنہگارو! نہ گھبرائو کہ اپنی شفاعت کو شفیع المذنبیں ہے فریبِ نفس میں ہمدم نہ آنا بچے رہنا یہ مارِ آستیں ہے دلِ بیتاب سے اخترؔ یہ کہہ دو سنبھل جائے مدینہ اب قریں ہے۔۔۔
مزید