/ Thursday, 13 March,2025


ذوق نعت   (104)





کہوں کیا حال زاہد گلشن طیبہ کی نزہت کا

کہوں کیا حال زاہد، گلشن طیبہ کی نزہت کاکہ ہے خلد بریں چھوٹا سا ٹکڑا میری جنت کا تعالیٰ اللہ شوکت تیرے نامِ پاک کی آقاکہ اب تک عرشِ اعلیٰ کو ہے سکتہ تیری ہیبت کا وکیل اپنا کیا ہے احمد مختار کو میں نےنہ کیوں کر پھر رہائی میری منشا ہو عدالت کا بلاتے ہیں اُسی کو جس کی بگڑی وہ بناتے ہیںکمر بندھنا دیارِ طیبہ کو کھلنا ہے قسمت کا کھلیں اسلام کی آنکھیں ہوا سارا جہاں روشنعرب کے چاند صدقے کیا ہی کہنا تیری طلعت کا نہ کر رُسواے محشر، واسطہ محبوب کا یا ربّیہ مجرم دُور سے آیا ہے سن کر نام رحمت کا مرادیں مانگنے سے پہلے ملتی ہیں مدینہ میںہجومِ جود نے روکا ہے بڑھنا دستِ حاجت کا شبِ اسریٰ ترے جلوؤں نے کچھ ایسا سماں باندھاکہ اب تک عرشِ اعظم منتظر ہے تیری رُخصت کا یہاں کے ڈوبتے دَم میں اُدھر جا کر اُبھرتے ہیںکنارا ایک ہے بحرِ ندامت بحرِ رحمت کا غنی ہے دل، بھرا ہے نعمت کونین سے دامنگدا ہوں میں ف۔۔۔

مزید

تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاکِ سرور کا

تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سرور کابھرا آتا ہے پانی میرے منہ میں حوضِ کوثر کا جو کچھ بھی وصف ہو اُن کے جمالِ ذرّہ پرور کامرے دیوان کا مطلع ہو مطلع مہرِ محشر کا مجھے بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کالیے جاؤں گا چھوٹا سا کوئی ذرّہ ترے دَر کا جو اک گوشہ چمک جائے تمہارے ذرّۂ دَر کاابھی منہ دیکھتا رہ جائے آئینہ سکندر کا اگر جلوہ نظر آئے کفِ پاے منور کاذرا سا منہ نکل آئے ابھی خورشید محشر کا اگر دم بھر تصور کیجیے شانِ پیمبر کازباں پہ شور ہو بے ساختہ اﷲ اکبر کا اُجالا طور کا دیکھیں جمالِ جاں فزا دیکھیںکلیم آ کر اُٹھا دیکھیں ذرا پردہ ترے دَر کا دو عالم میہماں، تو میزباں، خوانِ کرم جاریاِدھر بھی کوئی ٹکڑا میں بھی کتّا ہوں ترے دَر کا نہ گھر بیٹھے ملے جوہر صفا و خاکساری کےمریدِ ذرّۂ طیبہ ہے آئینہ سکندر کا اگر اُس خندۂ دنداں نما کا وصف موزوں ہوابھی لہرا چلے بحرِ سخن سے چشمہ گوہر کا ۔۔۔

مزید

مجرمِ ہیبت زدہ جب فردِ عصیاں لے چلا

مجرمِ ہیبت زدہ جب فردِ عصیاں لے چلالطفِ شہ تسکین دیتا پیش یزداں لے چلا دل کے آئینہ میں جو تصویرِ جاناں لے چلامحفل جنت کی آرائش کا ساماں لے چلا رہروِ جنت کو طیبہ کا بیاباں لے چلادامنِ دل کھینچتا خارِ مغیلاں لے چلا گل نہ ہو جائے چراغِ زینتِ گلشن کہیںاپنے سر میں مَیں ہواے دشتِ جاناں لے چلا رُوے عالم تاب نے بانٹا جو باڑا نور کاماہِ نو کشتی میں پیالا مہرِ تاباں لے چلا گو نہیں رکھتے زمانے کی وہ دولت اپنے پاسپَر زمانہ نعمتوں سے بھر کے داماں لے چلا تیری ہیبت سے ملا تاجِ سلاطیں خاک میںتیری رَحمت سے گدا تختِ سلیماں لے چلا ایسی شوکت پر کہ اُڑتا ہے پھریرا عرش پرجس گدا نے آرزو کی اُن کو مہماں لے چلا دبدبہ کس سے بیاں ہو اُن کے نامِ پاک کاشیر کے منہ سے سلامت جانِ سلماں لے چلا صدقے اُس رحمت کے اُن کو روزِ محشر ہر طرفناشکیبا شورِ فریادِ اَسیراں لے چلا ساز و سامانِ گداے کوے سرور کیا کہوںاُس۔۔۔

مزید

قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا

قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیاکعبہ کا بھی قبلہ خمِ اَبرو نظر آیا محشر میں کسی نے بھی مری بات نہ پوچھیحامی نظر آیا تو بس اِک تو نظر آیا پھر بندِ کشاکش میں گرفتار نہ دیکھےجب معجزۂ جنبشِ اَبرو نظر آیا اُس دل کے فدا جو ہے تری دید کا طالباُن آنکھوں کے قربان جنھیں تو نظر آیا سلطان و گدا سب ہیں ترے دَر کے بھکاریہر ہاتھ میں دروازے کا بازو نظر آیا سجدہ کو جھکا جائے براہیم میں کعبہجب قبلۂ کونین کا اَبرو نظر آیا بازارِ قیامت میں جنھیں کوئی نہ پوچھےایسوں کا خریدار ہمیں تو نظر آیا محشر میں گنہ گار کا پلّہ ہوا بھاریپلہ پہ جو وہ قربِ ترازو نظر آیا یا دیکھنے والا تھا ترا یا ترا جویاجو ہم کو خدا بِین و خدا جُو نظر آیا شل ہاتھ سلاطیں کے اُٹھے بہرِ گدائیدروازہ ترا قوتِ بازو نظر آیا یوسف سے حسیں اور تمناے نظارہعالم میں نہ تم سا کوئی خوش رُو نظر آیا فریادِ غریباں سے ہے محشر میں۔۔۔

مزید

ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا

ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایایوسف کو ترا طالبِ دیدار بنایا طلعت سے زمانے کو پُر انوار بنایانکہت سے گلی کوچوں کو گلزار بنایا دیواروں کو آئینہ بناتے ہیں وہ جلوےآئینوں کو جن جلوؤں نے دیوار بنایا وہ جنس کیا جس نے جسے کوئی نہ پوچھےاُس نے ہی مرا تجھ کو خریدار بنایا اے نظم رسالت کے چمکتے ہوئے مقطعتو نے ہی اُسے مطلعِ انوار بنایا کونین بنائے گئے سرکار کی خاطرکونین کی خاطر تمہیں سرکار بنایا کنجی تمھیں دی اپنے خزانوں کی خدا نےمحبوب کیا مالک و مختار بنایا اﷲ کی رحمت ہے کہ ایسے کی یہ قسمتعاصی کا تمہیں حامی وغم خوار بنایا آئینۂ ذاتِ احدیٰ آپ ہی ٹھہرےوہ حسن دیا ایسا طرح دار بنایا انوارِ تجلیّٰ سے وہ کچھ حیرتیں چھائیںسب آئینوں کو پشت بدیوار بنایا عالم کے سلاطین بھکاری ہیں بھکاریسرکار بنایا تمھیں سرکار بنایا گلزار کو آئینہ کیا منہ کی چمک نےآئینہ کو رُخسار نے گل زار بنایا یہ لذتِ پا۔۔۔

مزید

تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہوگا

تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گاہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہو گا گناہگار پہ جب لطف آپ کا ہو گاکیا بغیر کیا ، بے کیا کیا ہو گا خدا کا لطف ہوا ہو گا دستگیر ضرورجو گرتے گرتے ترا نام لے لیا ہو گا دکھائی جائے گی محشر میں شانِ محبوبیکہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہو گا خداے پاک کی چاہیں گے اگلے پچھلے خوشیخداے پاک خوشی اُن کی چاہتا ہو گا کسی کے پاوں کی بیڑی یہ کاٹتے ہوں گے کوئی اسیرِغم اُن کو پکارتا ہو گا کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤنہیں تو دَم میں غریبوں کا فیصلہ ہو گا کسی کے پلّہ پہ یہ ہوں گے وقتِ وزنِ عملکوئی اُمید سے منہ اُن کا تک رہا ہو گا کوئی کہے گا دہائی ہے یَا رَسُوْلَ اﷲتو کوئی تھام کے دامن مچل گیا ہو گا کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوے جحیموہ اُن کا راستہ پھِر پھِر کے دیکھتا ہو گا شکستہ پا ہوں مرے حال کی خبر کردوکوئی کسی سے یہ رو رو کے کہہ رہا ہو گا خدا کے واسطے جلد اُن ۔۔۔

مزید

یہ اکرام ہے مصطفے پر خدا کا

یہ اکرام ہے مصطفےٰ پر خدا کاکہ سب کچھ خدا کا ہوا مصطفےٰ کا یہ بیٹھا ہے سکہ تمہاری عطا کاکبھی ہاتھ اُٹھنے نہ پایا گدا کا چمکتا ہوا چاند ثور و حرا کااُجالا ہوا بُرجِ عرشِ خدا کا لحد میں عمل ہو نہ دیوِ بلا کاجو تعویذ میں نقش ہو نقشِ پا کا جو بندہ خدا کا وہ بندہ تمہاراجو بندہ تمہارا وہ بندہ خدا کا مرے گیسوؤں والے میں تیرے صدقےکہ سر پر ہجومِ بَلا ہے بَلا کا ترے زیرِ پا مسندِ ملکِ یزداںترے فرق پر تاجِ مُلکِ خدا کا سہارا دیا جب مرے ناخدا نےہوئی ناؤ سیدھی پھرا رُخ ہوا کا کیا ایسا قادر قضا و قدر نےکہ قدرت میں ہے پھیر دینا قضا کا اگر زیرِ دیوارِ سرکارِ بیٹھوںمرے سر پہ سایہ ہو فضل خدا کا ادب سے لیا تاجِ شاہی نے سر پریہ پایا ہے سرکار کے نقشِ پا کا خدا کرنا ہوتا جو تحتِ مشیّتخدا ہو کر آتا یہ بندہ خدا کا اَذاں کیا جہاں دیکھو ایمان والوپسِ ذکرِ حق ذکر ہے مصطفیٰ کا کہ پہلے زباں حمد سے پا۔۔۔

مزید

سرصبح سعادت نے گریباں سے نکالا

سر صبحِ سعادت نے گریباں سے نکالاظلمت کو ملا عالمِ اِمکاں سے نکالا پیدائشِ محبوب کی شادی میں خدا نےمدت کے گرفتاروں کو زِنداں سے نکالا رحمت کا خزانہ پئے تقسیم گدایاںاﷲ نے تہ خانۂ پنہاں سے نکالا خوشبو نے عنادِل سے چھڑائے چمن و گلجلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا ہے حسنِ گلوے مہِ بطحا سے یہ روشناب مہر نے سر اُن کے گریباں سے نکالا پردہ جو ترے جلوۂ رنگیں نے اُٹھایاصَرصَر کا عمل صحنِ گلستاں سے نکالا اُس ماہ نے جب مہر سے کی جلوہ نمائیتاریکیوں کو شامِ غریباں سے نکالا اے مہرِ کرم تیری تجلی کی اَدا نےذرّوں کو بلاے شبِ ہجراں سے نکالا صدقے ترے اے مردمکِ دیدۂ یعقوبیوسفؔ کو تری چاہ نے کنعاں سے نکالا ہم ڈوبنے ہی کو تھے کہ آقا کی مدد نےگِرداب سے کھینچا ہمیں طوفاں سے نکالا اُمت کے کلیجے کی خلِش تم نے مٹائیٹوٹے ہوئے نشتر کو رَگِ جاں سے نکالا اِن ہاتھوں کے قربان کہ اِن ہاتھوں سے تم نےخارِ رہِ ۔۔۔

مزید

اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہوجاتا

اگر قسِمت سے میں اُن کی گلی میں خاک ہو جاتاغمِ کونین کا سارا بکھیڑا پاک ہو جاتا جو اے گل جامۂ ہستی تری پوشاک ہو جاتاتو خارِ نیستی سے کیوں اُلجھ کر چاک ہو جاتا جو وہ اَبرِ کرم پھر آبروے خاک ہو جاتاتو اُس کے دو ہی چھینٹوں میں زمانہ پاک ہو جاتا ہواے دامنِ رنگیں جو ویرانے میں آ جاتیلباسِ گل میں ظاہر ہر خس و خاشاک ہو جاتا لبِ جاں بخش کی قربت حیاتِ جاوداں دیتیاگر ڈورا نفس کا ریشۂ مسواک ہو جاتا ہوا دل سوختوں کو چاہیے تھی اُن کے دامن کیالٰہی صبحِ محشر کا گریباں چاک ہو جاتا اگر دو بوند پانی چشمۂ رحمت سے مل جاتامری ناپاکیوں کے میل دُھلتے پاک ہو جاتا اگر پیوند ملبوسِ پیمبر کے نظر آتےترا اے حُلّۂ شاہی کلیجہ چاک ہو جاتا جو وہ گل سُونگھ لیتا پھول مرجھایا ہوا بلبلبہارِ تازگی میں سب چمن کی ناک ہو جاتا چمک جاتا مقدر جب دُرِ دنداں کی طلعت سےنہ کیوں رشتہ گہر کا ریشۂ مسواک ہو جاتا عدو کی آنک۔۔۔

مزید

دشمن ہے گلے کا ہار آقا

دشمن ہے گلے کا ہار آقالُٹتی ہے مری بہار آقا تم دل کے لیے قرار آقاتم راحتِ جانِ زار آقا تم عرش کے تاجدار مولیٰتم فرش کے با وقار آقا دامن دامن ہوائے دامنگلشن گلشن بہار آقا بندے ہیں گنہگار بندےآقا ہیں کرم شعار آقا اِس شان کے ہم نے کیا کسی نےدیکھے نہیں زینہار آقا بندوں کا اَلم نے دل دُکھایااَور ہو گئے بے قرار آقا آرام سے سوئیں ہم کمینےجاگا کریں با وقار آقا ایسا تو کہیں سنا نہ دیکھابندوں کا اُٹھائیں بار آقا جن کی کوئی بات تک نہ پوچھےاُن پر تمھیں آئے پیار آقا پاکیزہ دلوں کی زینت ایمانایمان کے تم سنگار آقا صدقہ جو بٹے کہیں سلاطیںہم بھی ہیں اُمیدوار آقا چکرا گئی ناؤ بے کسوں کی!آنا مرے غمگسار آقا اﷲ نے تم کو دے دیا ہےہر چیز کا اختیار آقا ہے خاک پہ نقشِ پا تمہاراآئینہ بے غبار آقا عالم میں ہیں سب بنی کے ساتھیبگڑی کے تمھیں ہو یار آقا سرکار کے تاجدار بندےسرکار۔۔۔

مزید

واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا

واہ کیا مرتبہ ہوا تیراتو خدا کا خدا ہوا تیرا تاج والے ہوں اِس میں یا محتاجسب نے پایا دیا ہوا تیرا ہاتھ خالی کوئی پھرا نہ پھرےہے خزانہ بھرا ہوا تیرا آج سنتے ہیں سننے والے کلدیکھ لیں گے کہا ہوا تیرا اِسے تو جانے یا خدا جانےپیش حق رُتبہ کیا ہوا تیرا گھرہیں سب بند دَرہیں سب تیغایک دَر ہے کھلا ہوا تیرا کام توہین سے ہے نجدی کوتو ہوا یا خدا ہوا تیرا تاجداروں کا تاجدار بنابن گیا جو گدا ہوا تیرا اور میں کیا لکھوں خدا کی حمدحمد اُسے وہ خدا ہوا تیرا جو ترا ہو گیا خدا کا ہواجو خدا کا ہوا ہوا تیرا حوصلے کیوں گھٹیں غریبوں کےہے اِرادہ بڑھا ہوا تیرا ذات بھی تیری انتخاب ہوئینام بھی مصطفیٰ ہوا تیرا جسے تو نے دیا خدا نے دیادَین رب کا دیا ہوا تیرا ایک عالم خدا کا طالب ہےاور طالب خدا ہوا تیرا بزمِ اِمکاں ترے نصیب کھلےکہ وہ دُولھا بنا ہوا تیرا میری طاعت سے میرے جرم فزوںلطف سب سے بڑھا ہوا تیر۔۔۔

مزید

معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا

معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیاجب اِشارہ ہو گیا مطلب ہمارا ہو گیا ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھاغم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنےتیری ہیبت سے فلک کا مہ دوپارا ہو گیا اللہ اللہ محو حُسنِ روے جاناں کے نصیببند کر لیں جس گھڑی آنکھیں نظارا ہو گیا یوں تو سب پیدا ہوئے ہیں آپ ہی کے واسطےقسمت اُس کی ہے جسے کہہ دو ہمارا ہو گیا تیرگی باطل کی چھائی تھی جہاں تاریک تھااُٹھ گیا پردہ ترا حق آشکارا ہو گیا کیوں نہ دم دیں مرنے والے مرگِ عشقِ پاک پرجان دی اور زندگانی کا سہارا ہو گیا نام تیرا، ذکر تیرا، تو، ترا پیارا خیالناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا ذرّۂ کوے حبیب‘ اللہ رے تیرے نصیبپاؤں پڑ کر عرش کی آنکھوں کا تارا ہو گیا تیرے صانع سے کوئی پوچھے ترا حُسن و جمالخود بنایا اور بنا کر خود ہی پیارا ہو گیا ہم کمینوں کا اُنھیں آرام تھا اِتن۔۔۔

مزید