/ Thursday, 13 March,2025


ذوق نعت   (104)





اے مدینہ کے تاجدار سلام

اے مدینہ کے تاجدار سلاماے غریبوں کے غمگسار سلام تری اک اک اَدا پر اے پیارےسَو دُرودیں فدا ہزار سلام رَبِّ سَلِّمْ کے کہنے والے پرجان کے ساتھ ہو نثار سلام میرے پیارے پہ میرے آقا پرمیری جانب سے لاکھ بار سلام میری بگڑی بنانے والے پربھیج اے میرے کِردگار سلام اُس پناہِ گناہ گاراں پریہ سلام اور کروڑ بار سلام اُس جوابِ سلام کے صدقےتا قیامت ہوں بے شمار سلام اُن کی محفل میں ساتھ لے جائیںحسرتِ جانِ بے قرار سلام پردہ میرا نہ فاش حشر میں ہواے مرے حق کے راز دار سلام وہ سلامت رہا قیامت میںپڑھ لیے جس نے دل سے چار سلام عرض کرتا ہے یہ حسنؔ تیراتجھ پہ اے خُلد کی بہار سلام ذوقِ نعت۔۔۔

مزید

ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم

ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالمتو سلطانِ عالم ہے اے جانِ عالم یہ پیاری ادائیں یہ نیچی نگاہیںفدا جانِ عالم ہو اے جانِ عالم کسی اور کو بھی یہ دولت ملی ہےگداکس کے دَر کے ہیں شاہانِ عالم میں دَر دَر پھروں چھوڑ کر کیوں ترا دَراُٹھائے بَلا میری احسانِ عالم میں سرکارِ عالی کے قربان جاؤںبھکاری ہیں اُس دَر کے شاہانِ عالم مرے دبدبہ والے میں تیرے صدقےترے دَر کے کُتّے ہیں شاہانِ عالم تمہاری طرف ہاتھ پھیلے ہیں سب کےتمھیں پورے کرتے ہو ارمانِ عالم مجھے زندہ کر دے مجھے زندہ کر دےمرے جانِ عالم مرے جانِ عالم مسلماں مسلماں ہیں تیرے سبب سےمری جان تو ہی ہے ایمانِ عالم مرے آن والے مرے شان والےگدائی ترے دَر کی ہے شانِ عالم تُو بحرِ حقیقت تو دریاے عرفاںترا ایک قطرہ ہے عرفانِ عالم کوئی جلوہ میرے بھی روزِ سیہ پرخدا کے قمر مہرِ تابانِ عالم بس اب کچھ عنایت ہوا اب ملا کچھانھیں تکتے رہنا فقیرانِ عالم ۔۔۔

مزید

جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم

جاتے ہیں سوے مدینہ گھر سے ہمباز آئے ہندِ بد اختر سے ہم مار ڈالے بے قراری شوق کیخوش تو جب ہوں اِس دلِ مضطر سے ہم بے ٹھکانوں کا ٹھکانا ہے یہیاب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم تشنگیِ حشر سے کچھ غم نہیںہیں غلامانِ شہِ کوثر سے ہم اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیعڈر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم نقشِ پا سے جو ہوا ہے سرفرازدل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم گردن تسلیم خم کرنے کے ساتھپھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم گور کی شب تار ہے پر خوف کیالَو لگائے ہیں رُخِ انور سے ہم دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیںجب لپٹ کر روئے اُن کے دَر سے ہم کیا بندھا ہم کو خد اجانے خیالآنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم جانے والے چل دیئے کب کے حسنؔپھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم ذوقِ نعت ۔۔۔

مزید

اسیروں کے مشکل کشا غوثِ اعظم

اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظمفقیروں کے حاجت رَوا غوث اعظم گھرا ہے بَلاؤں میں بندہ تمہارامدد کے لیے آؤ یا غوث اعظم ترے ہاتھ میں ہاتھ میں نے دیا ہےترے ہاتھ ہے لاج یا غوث اعظم مریدوں کو خطرہ نہیں بحرِ غم سےکہ بیڑے کے ہیں ناخدا غوث اعظم تمھیں دُکھ سنو اپنے آفت زدوں کاتمھیں درد کی دو دوا غوث اعظم بھنور میں پھنسا ہے ہمارا سفینہبچا غوث اعظم بچا غوث اعظم جو دکھ بھر رہا ہوں جو غم سہ رہا ہوںکہوں کس سے تیرے سوا غوث اعظم زمانے کے دُکھ درد کی رنج و غم کیترے ہاتھ میں ہے دوا غوث اعظم اگر سلطنت کی ہوس ہو فقیروکہو شیئاً ﷲیا غوث اعظم نکالا ہے پہلے تو ڈوبے ہوؤں کواور اب ڈوبتوں کو بچا غوث اعظم جسے خلق کہتی ہے پیارا خدا کااُسی کا ہے تو لاڈلا غوث اعظم کیا غورجب گیارھویں بارھویں میںمعمہ یہ ہم پر کھلا غوث اعظم تمھیں وصلِ بے فصل ہے شاہِ دیں سےدیا حق نے یہ مرتبہ غوث اعظم پھنسا ہے تباہی میں بیڑا ہمارا۔۔۔

مزید

کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں

کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیںلیکن اے دل فرقتِ کوے نبی اچھی نہیں رحم کی سرکار میں پُرسش ہے ایسوں کی بہتاے دل اچھا ہے اگر حالت مری اچھی نہیں تیرہ دل کو جلوۂ ماہِ عرب درکار ہےچودھویں کے چاند تیری چاندنی اچھی نہیں کچھ خبر ہے میں بُرا ہوں کیسے اچھے کا بُرامجھ بُرے پر زاہدو طعنہ زنی اچھی نہیں اُس گلی سے دُور رہ کر کیا مریں ہم کیا جئیںآہ ایسی موت ایسی زندگی اچھی نہیں اُن کے دَر کی بھیک چھوڑیں سروری کے واسطےاُن کے دَر کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں خاک اُن کے آستانے کی منگا دے چارہ گرفکر کیا حالت اگر بیمار کی اچھی نہیں سایۂ دیوارِ جاناں میں ہو بستر خاک پرآرزوے تاج و تختِ خسروی اچھی نہیں دردِ عصیاں کی ترقی سے ہوا ہوں جاں بلبمجھ کو اچھا کیجیے حالت مری اچھی نہیں ذرّۂ طیبہ کی طلعت کے مقابل اے قمرگھٹتی بڑھتی چار دن کی چاندنی اچھی نہیں موسمِ گل کیوں دکھائے جاتے ہیں یہ سبز باغدشتِ ط۔۔۔

مزید

نگاہ لطف کے امیدوار ہم بھی ہیں

نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیںلیے ہوئے یہ دلِ بے قرار ہم بھی ہیں ہمارے دستِ تمنا کی لاج بھی رکھناترے فقیروں میں اے شہر یار ہم بھی ہیں اِدھر بھی توسنِ اقدس کے دو قدم جلوےتمہاری راہ میں مُشتِ غبار ہم بھی ہیں کھلا دو غنچۂ دل صدقہ باد دامن کااُمیدوارِ نسیمِ بہار ہم بھی ہیں تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہےپڑئے ہوئے تو سرِ رہ گزار ہم بھی ہیں جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضورتو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں یہ کس شہنشہِ والا کا صدقہ بٹتا ہےکہ خسروؤں میں پڑی ہے پکار ہم بھی ہیں ہماری بگڑی بنی اُن کے اختیار میں ہےسپرد اُنھیں کے ہیں سب کاروبار ہم بھی ہیں حسنؔ ہے جن کی سخاوت کی دُھوم عالم میںاُنھیں کے تم بھی ہو اک ریزہ خوار، ہم بھی ہیں ذوقِ نعت۔۔۔

مزید

کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیں

کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیںاپنے سرکار کے دربار کو کیوں کر دیکھیں تابِ نظارہ تو ہو ، یار کو کیوں کر دیکھیںآنکھیں ملتی نہیں دیدار کو کیوں کر دیکھیں دلِ مردہ کو ترے کوچہ میں کیوں کر لے جائیںاثرِ جلوۂ رفتار کو کیوں کر دیکھیں جن کی نظروں میں ہے صحراے مدینہ بلبلآنکھ اُٹھا کر ترے گلزار کو کیوں کر دیکھیں عوضِ عفو گنہ بکتے ہیں اِک مجمع ہےہائے ہم اپنے خریدار کو کیوں کر دیکھیں ہم گنہگار کہاں اور کہاں رؤیتِ عرشسر اُٹھا کر تری دیوار کو کیوں کر دیکھیں اور سرکار بنے ہیں تو انھیں کے دَر سےہم گدا اور کی سرکار کو کیوں کر دیکھیں دستِ صیاد سے آہو کو چھڑائیں جو کریمدامِ غم میں وہ گرفتار کو کیوں کر دیکھیں تابِ دیدار کا دعویٰ ہے جنھیں سامنے آئیںدیکھتے ہیں ترے رُخسار کو کیوں کر دیکھیں دیکھیے کوچۂ محبوب میں کیوں کر پہنچیںدیکھیے جلوۂ دیدار کو کیوں کر دیکھیں اہل کارانِ سقر اور اِرادہ سے حس۔۔۔

مزید

نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میں

نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میںتمھیں دُولھا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں یہ رنگینی یہ شادابی کہاں گلزارِ رضواں میںہزاروں جنتیں آ کر بسی ہیں کوے جاناں میں خزاں کا کس طرح ہو دخل جنت کے گلستاں میںبہاریں بس چکی ہیں جلوۂ رنگینِ جاناں میں تم آئے روشنی پھیلی ہُوا دن کھل گئی آنکھیںاندھیرا سا اندھیرا چھا رہا تھا بزمِ اِمکاں میں تھکا ماندہ وہ ہے جو پاؤں اپنے توڑ کر بیٹھاوہی پہنچا ہوا ٹھہرا جو پہنچا کوے جاناں میں تمہارا کلمہ پڑھتا اُٹھے تم پر صدقے ہونے کوجو پائے پاک سے ٹھوکر لگا دو جسمِ بے جاں میں عجب انداز سے محبوبِ حق نے جلوہ فرمایاسُرور آنکھوں میں آیا جان دل میں نور ایماں میں فداے خار ہاے دشتِ طیبہ پھول جنت کےیہ وہ کانٹے ہیں جن کو خود جگہ دیں گل رگِ جاں میں ہر اک کی آرزو ہے پہلے مجھ کو ذبح فرمائیںتماشا کر رہے ہیں مرنے والے عیدِ قرباں میں ظہورِ پاک سے پہلے بھی صدقے۔۔۔

مزید

عجب کرم شہ والا تبار کرتے ہیں

عجب کرم شہ والا تبار کرتے ہیںکہ نا اُمیدوں کو اُمیدوار کرتے ہیں جما کے دل میں صفیں حسرت و تمنا کینگاہِ لطف کا ہم انتظار کرتے ہیں مجھے فسردگئ بخت کا اَلم کیا ہووہ ایک دم میں خزاں کو بہار کرتے ہیں خدا سگانِ نبی سے یہ مجھ کو سنوا دےہم اپنے کتوں میں تجھ کو شمار کرتے ہیں ملائکہ کو بھی ہیں کچھ فضیلتیں ہم پرکہ پاس رہتے ہیں طوفِ مزار کرتے ہیں جو خوش نصیب یہاں خاکِ دَر پہ بیٹھتے ہیںجلوسِ مسندِ شاہی سے عار کرتے ہیں ہمارے دل کی لگی بھی وہی بجھا دیں گےجو دم میں آگ کو باغ و بہار کرتے ہیں اشارہ کر دو تو بادِ خلاف کے جھونکےابھی ہمارے سفینے کو پار کرتے ہیں تمہارے دَر کے گداؤں کی شان عالی ہےوہ جس کو چاہتے ہیں تاجدار کرتے ہیں گدا گدا ہے گدا وہ توکیا ہی چاہے ادببڑے بڑے ترے دَر کا وقار کرتے ہیں تمام خلق کو منظور ہے رضا جن کیرضا حضور کی وہ اختیار کرتے ہیں سنا کے وصفِ رُخِ پاک عندلیب کو ہمرہینِ آ۔۔۔

مزید

سن لو میری التجاء اچھے میاں

سن لو میری اِلتجا اچھے میاںمیں تصدق میں فدا اَچھے میاں اب کمی کیا ہے خدا دے بندہ لےمیں گدا تم بادشا اچھے میاں دین و دنیا میں بہت اچھا رہاجو تمہارا ہو گیا اچھے میاں اس بُرے کو آپ اچھا کیجیےآپ اچھے میں بُرا اچھے میاں ایسے اچھے کا بُرا ہوں میں بُراجن کو اچھوں نے کہا اچھے میاں میں حوالے کر چکا ہوں آپ کےاپنا سب اچھا بُرا اچھے میاں آپ جانیں مجھ کو اِس کی فکر کیامیں بُرا ہوں یا بھلا اچھے میاں مجھ بُرے کے کیسے اچھے ہیں نصیبمیں بُرا ہوں آپ کا اچھے میاں اپنے منگتا کو بُلا کر بھیک دیاے میں قربانِ عطا اچھے میاں مشکلیں آسان فرما دیجیےاے مرے مشکل کشا اچھے میاں میری جھولی بھر دو دستِ فیض سےحاضرِ دَر ہے گدا اچھے میاں دَم قدم کی خیر منگتا ہوں ترادَم قدم کی خیر لا اچھے میاں جاں بلب ہوں دردِ عصیاں سے حضورجاں بلب کو دو شفا اچھے میاں دشمنوں کی ہے چڑھائی الغیاثہے مدد کا وقت یا اچھے میاں نف۔۔۔

مزید

دل میں ہو یاد تیری گوشۂ تنہائی ہو

دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہوپھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو آستانے پہ ترے سر ہو اَجل آئی ہواَور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو خاک پامال غریباں کو نہ کیوں زندہ کرےجس کے دامن کی ہوا بادِ مسیحائی ہو اُس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحتخاکِ طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو تاج والوں کی یہ خواہش ہے کہ اُن کے دَر پرہم کو حاصل شرفِ ناصیہ فرسائی ہو اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کووہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتےکب وہ چاہیں گے مری حشر میں رُسوائی ہو کیوں کریں بزمِ شبستانِ جناں کی خواہشجلوۂ یار جو شمع شبِ تنہائی ہو خلعتِ مغفرت اُس کے لیے رحمت لائےجس نے خاکِ درِ شہ جاے کفن پائی ہو یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنےایسے یکتا کے لیے ایسی ہی یکتائی ہو ذکر خدّام نہیں مجھ کو بتا دیں دشمنکوئی نعمت بھی کسی اور سے گر پائی ہو جب اُٹھے دستِ اَجل سے مری ۔۔۔

مزید

اے راحت جاں جو تیرے قدموں سے لگا ہو

اے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہوکیوں خاک بسر صورتِ نقشِ کفِ پَا ہو ایسا نہ کوئی ہے نہ کوئی ہو نہ ہوا ہوسایہ بھی تو اک مثل ہے پھر کیوں نہ جدا ہو اﷲ کا محبوب بنے جو تمھیں چاہےاُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو دل سب سے اُٹھا کر جو پڑا ہو ترے دَر پراُفتادِ دو عالم سے تعلق اُسے کیا ہو اُس ہاتھ سے دل سوختہ جانوں کے ہرے کرجس سے رطبِ سوختہ کی نشوونما ہو ہر سانس سے نکلے گل فردوس کی خوشبوگر عکس فگن دل میں وہ نقشِ کفِ پَا ہو اُس دَر کی طرف اس لیے میزاب کا منہ ہےوہ قبلۂ کونین ہے یہ قبلہ نما ہو بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبتمِٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو یہ میری سمجھ میں کبھی آ ہی نہیں سکتاایمان مجھے پھیرنے کو تو نے دیا ہو اُس گھر سے عیاں نورِ الٰہی ہو ہمیشہتم جس میں گھڑی بھر کے لیے جلوہ نما ہو مقبول ہیں اَبرو کے اشارہ سے دعائیںکب تیر کماندارِ نبوت کا خطا ہو ہو سلسلہ اُلفت۔۔۔

مزید