صانع نے اِک باغ لگایاباغ کو رشک خلد بنایا خلد کو اس سے نسبت ہو کیاگلشن گلشن صحرا صحرا چھائے لطف و کرم کے بادلآئے بذل و نعم کے بادل خوب گھریں گھنگھور گھٹائیںکرنے لگیں غل شور گھٹائیں لہریں کرتی نہریں آئیںموجیں کرتی موجیں لائیں سرد ہوا کے آئے جھونکےآنکھوں میں نیند کے لائے جھونکے سبزہ لہریں لیتا نکلامینہ کو دعائیں دیتا نکلا بولے پپیہے کوئل کوکیساعت آئی جام و سبو کی پھرتی ہے بادِ صبا متوالیپتے پتے ڈالی ڈالی چپے چپے ہوائیں گھومیںپتلی پتلی شاخیں جھومیں فصلِ بہار پر آیا جوبنجوبن اور گدرایا جوبن گل پر بلبل سرو پہ قمریبولے اپنی اپنی بولی چٹکیں کچی کچی کلیاںخوشبو نکلی بس گئیں گلیاں آئیں گھٹائیں کالی کالیجگنو چمکے ڈالی ڈالی کیوں کر کہیے بہار کی آمدآمد اور کس پیار کی آمد چال میں سو انداز دکھاتیطرزِ خرامِ ناز اُڑاتی رنگ رُخِ گل رنگ دکھاتیغم کو گھٹاتی دل کو بڑھاتی یاس کو کھوت۔۔۔
مزیدآئیں بہاریں برسے جھالےنغمہ سرا ہیں گلشن والے شاہد گل کا جوبن اُمڈادل کو پڑے ہیں جان کے لالے ابرِ بہاری جم کر برساخوب چڑھے ہیں ندّی نالے کوئل اپنی کُوک میں بولیآئے بادل کالے کالے حسنِ شباب ہے لالہ و گل پرقہر ہیں اُٹھتے جوبن والے پھیلی ہیں گلشن میں ضیائیںشمع و لگن ہیں سرو اور تھالے عارضِ گل سے پردہ اٹھابلبلِ مضطر دل کو سنبھالے جوشِ طبیعت روکے تھامےشوقِ رُؤیت دیکھے بھالے سن کے بہار کی آمد آمدہوش سے باہر ہیں متوالے بوٹے گل رویانِ کم سنپیارے پیارے بھولے بھالے فیضِ اَبر بہاری پہنچاپودے پودے تھالے تھالے جمع ہیں عقد عروسِ گل میںسب رنگین طبیعت والے بانٹتی ہے نیرنگیِ موسمبزم میں سرخ و سبز دو شالے نکہت آئی عطر لگانےپھول نے ہار گلوں میں ڈالے پنکھے جھلنے والی نسیمیںبادل پانی دینے والے گاتے ہیں مل مل کے عنادلسہرا مبارک ہو ہریالے ایسی فصل میں جوشِ طبیعتکس سے سنبھلے کون سنبھالے آ۔۔۔
مزیدچھائے غم کے بادل کالےمیری خبر اے بدرِ دُجیٰ لے گرتا ہوں میں لغزشِ پا سےآ اے ہاتھ پکڑنے والے زُلف کا صدقہ تشنہ لبوں پربرسا مہر و کرم کے جھالے خاک مری پامال ہو کب تکنیچے نیچے دامن والے پھرتا ہوں میں مارا ماراپیارے اپنے دَر پہ بُلا لے کام کیے بے سوچے سمجھےراہ چلا بے دیکھے بھالے ناری دے کر خط غلامیتجھ سے لیں جنت کے قبالے تو ترے احساں میرے یاورہیں مرے مطلب تیرے حوالے تیرے صدقے تیرے قرباںمیرے آس بندھانے والے بگڑی بات کو تو ہی بنائےڈوبتی ناؤ کو تو ہی سنبھالے تم سے جو مانگا فوراً پایاتم نہیں کرتے ٹالے بالے وسعت خوانِ کرم کے تصدقدونوں عالم تم نے پالے دیکھیں جنہوں نے تیری آنکھیںوہ ہیں حق کے دیکھنے والے تیرے عارض گورے گورےشمس و قمر کے گھر کے اُجالے اَبر لطف و غلافِ کعبہتیرے گیسو کالے کالے آفت میں ہے غلامِ ہندیتیری دُہائی مدینے والے تنہا میں اے حامیِ بے کسسینکڑوں ہیں دُکھ دینے و۔۔۔
مزیدساقیا کیوں آج رِندوں پر ہے تو نا مہرباں کیوں نہیں دیتا ہمیں جامِ شرابِ ارغواں تشنہ کاموں پر ترس کس واسطے آتا نہیںکیوں نہیں سنتا ہے مے خواروں کی فریاد و فغاں جام کیوں اوندھے پڑے ہیں کیوں ہیں منہ شیشوں کے بندعقدۂ لاحل بنا ہے کیوں ہر اِک خُمِ مے کا دہاں کیوں صدا قلقل کی مینا سے نہیں ہوتی بلندکیوں اُداسی چھا رہی ہے کیوں ہوئی سونی دکاں کیوں ہے مہر خامشی منہ پر سبُو کے جلوہ ریزکچھ نہیں کھلتا مجھے کیسا بندھا ہے یہ سماں کس قدر اعضا شکن ہے یہ خمارِ جاں گسلہے جماہی پر جماہی ٹوٹتی ہیں ہڈیاں کیا غضب ہے تجھ کو اِس حالت پہ رحم آتا نہیںخشک ہے منہ میں زباں آتی ہیں پیہم ہچکیاں آمدِ بادِ بہاری ہے گلستاں کی طرففصلِ گلشن کر رہی ہے کیا ہی رنگ آمیزیاں ابر کی اٹکھیلیوں سے جوبنوں پر ہے بہارپڑ رہی ہیں پیاری پیاری ننھی ننھی بوندیاں چار جانب سے گھٹاؤں نے بڑھائے ہیں قدمتوسِن بادِ صبا پر لی ہے راہِ ۔۔۔
مزیددنیا و دیں کے اس کے مقاصد حصول ہیںجس کی مدد پہ حضرت فضل رسول ہیں منکر تری فضیلت و جاہ و جلال کی بے دیں ہیں یا حسود ہیں یا بوالفضول ہیں حاضر ہوئے ہیں مجلس عرسِ حضور میںکیا ہم پہ حق کے لطف ہیں فضل رسول ہیں کافی ہے خاک کرنے کو یک نالۂ رسادفتر اگرچہ نامۂ عصیاں کے طول ہیں خاکِ درِ حضور ہے یا ہے یہ کیمیایہ خارِ راہ ہیں کہ یہ جنت کے پھول ہیں ذوقِ نعت۔۔۔
مزیدتوانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقینہ پوچھو ہائے کیا جاتا رہا کیا رہ گیا باقی زمانے نے ملائیں خاک میں کیفیتیں ساریبتا دو گر کسی شے میں رہا ہو کچھ مزا باقی نہ اب تاثیر مقناطیس حسن خوب رویاں میںنہ اب دل کش نگاہوں میں رہا دل کھینچنا باقی نہ جلوہ شاہد گل کا نہ غل فریادِ بلبل کانہ فضل جاں فزا باقی نہ باغِ دل کشا باقی نہ جوبن شوخیاں کرتا ہے اُونچے اُونچے سینوں پرنہ نیچی نیچی نظروں میں ہے اندازِ حیا باقی کہاں وہ قصر دل کش اور کہاں وہ دلربا جلسےنہ اس کا کچھ نشاں قائم نہ اس کا کچھ پتا باقی کہاں ہیں وہ چلا کرتے تھے جن کے نام کے سکےنشاں بھی ہے زمانہ میں اب ان کے نام کا باقی کہاں ہیں وہ کہ جن کے دم سے تھے آباد لاکھوں گھرخدا شاہد جو ان کی قبر کا بھی ہو پتا باقی شجاعت اپنے سر پر ڈالتی ہے خاک میداں کینہ کوئی صف شکن باقی نہ کوئی سُورما باقی سحر جا کر اسے دیکھا تو سناٹا نظر آیاوہ محفل جس میں۔۔۔
مزیداِسے کہتے ہیں خضر قوم بعض احمق زمانہ میںیہ وہ ہے آٹھ سو کم کر کے جو کچھ رہ گیا باقی مزارِ پیر نیچر سے بھی نکلے گی صدا پیہمچڑھا جاؤ گرہ میں ہو جو کچھ پیسا ٹکا باقی نئی ہمدردیاں ہیں لوٹ کر ایمان کی دولتنہ چھوڑا قوم میں افلاس عقبیٰ کے سوا باقی ظروفِ مے کدہ توڑے تھے چن کر محتسب نے سبالٰہی رہ گیا کس طرح یہ چکنا گھڑا باقی مریدوں پر جو پھیرا دست شفقت پیر نیچر نےنہ رکھا دونوں گالوں پر پتا بھی بال کا باقی مسلماں بن کے دھوکے دے رہا ہے اہل ایماں کویہی ہے ایک پہلے وقت کا بہروپیا باقی غضب ہے نیچری حُسنِ خرد پر ناز کرتے ہیںنہیں کیا شیر پور میں کوئی ان کے جوڑ کا باقی علی گڑھ کے سفر میں صرف کر دی دولتِ ایماںبتاؤ مجھ کو زیر مدِّ باقی کیا رہا باقی گیا ایمان تو داڑھی بھی پیچھے سے روانہ کیپرانے رنگ کا اب کیوں رہے کوئی پتا باقی بپا بوٹے بہ بر کوٹے و بر سر سُرخ سر پوشےکہو اب بھی مسلماں ہونے میں ۔۔۔
مزیدنامیؔ خستہ نہ نالم بچہ روکوہ افتاد دریغا افتاد دلم از فرقت استادم سوختازلبم چوں نہ برآید فریاد ہر کہ پُرسید زمن باعث غمگفتمش سوئے جناں رفت استاد سال فوتش ز جوابم جوئیددیگر امروز نمید ارم یاد ۱۳۲۶ھتمت٭ ۔۔۔
مزید