/ Thursday, 13 March,2025


ذوق نعت   (104)





سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض

سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرضیہ عرض ہے حضور بڑے بے نوا کی عرض اُن کے گدا کے دَر پہ ہے یوں بادشاہ کی عرضجیسے ہو بادشاہ کے دَر پہ گدا کی عرض عاجز نوازیوں پہ کرم ہے تُلا ہواوہ دل لگا کے سنتے ہیں ہر بے نوا کی عرض قربان اُن کے نام کے بے اُن کے نام کےمقبول ہو نہ خاصِ جنابِ خدا کی عرض غم کی گھٹائیں چھائی ہیں مجھ تیرہ بخت پراے مہر سن لے ذرّۂ بے دست و پا کی عرض اے بے کسوں کے حامی و یاور سوا ترےکس کو غرض ہے کون سنے مبتلا کی عرض اے کیمیاے دل میں ترے دَر کی خاک ہوںخاکِ دَر حضور سے ہے کیمیا کی عرض اُلجھن سے دُور نور سے معمور کر مجھےاے زُلفِ پاک ہے یہ اَسیرِ بلا کی عرض دُکھ میں رہے کوئی یہ گوارا نہیں اُنہیںمقبول کیوں نہ ہو دلِ درد آشنا کی عرض کیوں طول دوں حضور یہ دیں یہ عطا کریںخود جانتے ہیں آپ مرے مدعا کی عرض دَامن بھریں گے دولتِ فضلِ خدا سے ہمخالی کبھی گئی ہے حسنؔ مصطفےٰ کی عرض ذوق۔۔۔

مزید

چشم ِدل چاہے جو اَنوار سے ربط

چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربطرکھے خاکِ درِ دلدار سے ربط اُن کی نعمت کا طلبگار سے میلاُن کی رحمت کا گنہگار سے ربط دشتِ طیبہ کی جو دیکھ آئیں بہارہو عنادِل کو نہ گلزار سے ربط یا خدا دل نہ ملے دُنیا سےنہ ہو آئینہ کو زنگار سے ربط نفس سے میل نہ کرنا اے دلقہر ہے ایسے ستم گار سے ربط دلِ نجدی میں ہو کیوں حُبِّ حضورظلمتوں کو نہیں اَنوار سے ربط تلخیِ نزع سے اُس کو کیا کامہو جسے لعل شکر بار سے ربط خاک طیبہ کی اگر مل جائےآپ صحت کرے بیمار سے ربط اُن کے دامانِ گہر بار کو ہےکاسۂ دوست طلبگار سے ربط کل ہے اجلاس کا دن اور ہمیںمیل عملہ سے نہ دربار سے ربط عمر یوں اُن کی گلی میں گزرےذرّہ ذرّہ سے بڑھے پیار سے ربط سرِ شوریدہ کو ہے دَر سے میلکمر خستہ کو دیوار سے ربط اے حسنؔ خیر ہے کیا کرتے ہویار کو چھوڑ کر اَغیار سے ربط ذوقِ نعت۔۔۔

مزید

خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وقعت محفوظ

خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وقعت محفوظعیبِ کوری سے رہے چشمِ بصیرت محفوظ دل میں روشن ہو اگر شمع وِلاے مولیٰدُزدِ شیطا ں سے رہے دین کی دولت محفوظ یا خدا محو نظارہ ہوں یہاں تک آنکھیںشکل قرآں ہو مرے دل میں وہ صورت محفوظ سلسلہ زُلفِ مبارک سے ہے جس کے دل کوہر بَلا سے رکھے اﷲ کی رحمت محفوظ تھی جو اُس ذات سے تکمیل فرامیں منظوررکھی خاتم کے لیے مہر نبوت محفوظ اے نگہبان مرے تجھ پہ صلوٰۃ اور سلامدو جہاں میں ترے بندے ہیں سلامت محفوظ واسطہ حفظِ الٰہی کا بچا رہزن سےرہے ایمانِ غریباں دمِ رحلت محفوظ شاہیِ کون و مکاں آپ کو دی خالق نےکنز قدرت میں اَزل سے تھی یہ دولت محفوظ تیرے قانون میں گنجائش تبدیل نہیںنسخ و ترمیم سے ہے تری شریعت محفوظ جسے آزاد کرے قامتِ شہ کا صدقہرہے فتنوں سے وہ تا روزِ قیامت محفوظ اُس کو اَعدا کی عداوت سے ضرر کیا پہنچےجس کے دل میں ہو حسنؔ اُن کی محبت محفوظ ذوقِ نعت ۔۔۔

مزید

مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع

مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیععروج و اَوج ہیں قربانِ بارگاہِ رفیع نہیں گدا ہی سرِ خوانِ بارگاہِ رفیعخلیل بھی تو ہیں مہمانِ بارگاہِ رفیع بنائے دونوں جہاں مجرئی اُسی دَر کےکیا خدا نے جو سامانِ بارگاہِ رفیع زمینِ عجز پہ سجدہ کرائیں شاہوں سےفلک جناب غلامانِ بارگاہِ رفیع ہے انتہاے علا ابتداے اَوج یہاںورا خیال سے ہے شانِ بارگاہِ رفیع کمند رشتۂ عمر خضر پہنچ نہ سکےبلند اِتنا ہے ایوانِ بارگاہِ رفیع وہ کون ہے جو نہیں فیضیاب اِس دَر سےسبھی ہیں بندۂ احِسانِ بارگاہِ رفیع نوازے جاتے ہیں ہم سے نمک حرام غلامہماری جان ہو قربانِ بارگاہِ رفیع مطیع نفس ہیں وہ سرکشانِ جن و بشرنہیں جو تابعِ فرمانِ بارگاہِ رفیع صلاے عام ہیں مہماں نواز ہیں سرکارکبھی اٹھا ہی نہیں خوانِ بارگاہِ رفیع جمالِ شمس و قمر کا سنگار ہے شب و روزفروغِ شمسۂ ایوانِ بارگاہِ رفیع ملائکہ ہیں فقط دابِ سلطنت کے لیےخدا ہے آپ نگہب۔۔۔

مزید

کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو برخلاف

کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلافاُن کی مدد رہے تو کرے کیا اَثر خلاف اُن کا عدو اسیرِ بَلاے نفاق ہےاُس کی زبان و دل میں رہے عمر بھر خلاف کرتا ہے ذکرِ پاک سے نجدی مخالفتکم بخت بد نصیب کی قسمت ہے بر خلاف اُن کی وجاہتوں میں کمی ہو محال ہےبالفرض اک زمانہ ہو اُن سے اگر خلاف اُٹھوں جو خوابِ مرگ سے آئے شمیم یاریا ربّ نہ صبحِ حشر ہو بادِ سحر خلاف قربان جاؤں رحمتِ عاجز نواز پرہوتی نہیں غریب سے اُن کی نظر خلاف شانِ کرم کسی سے عوض چاہتی نہیںلاکھ اِمتثالِ امر میں دل ہو ادھر خلاف کیا رحمتیں ہیں لطف میں پھر بھی کمی نہیںکرتے رہے ہیں حکم سے ہم عمر بھر خلاف تعمیل حکمِ حق کا حسنؔ ہے اگر خیالارشادِ پاک سرورِ دیں کا نہ کر خلاف ذوقِ نعت ۔۔۔

مزید

رحمت نہ کس طرح ہو گنہگارکی طرف

رحمت نہ کس طرح ہو گنہگار کی طرفرحمٰن خود ہے میرے طرفدار کی طرف جانِ جناں ہے دشتِ مدینہ تری بہاربُلبل نہ جائے گی کبھی گلزار کی طرف انکار کا وقوع تو کیا ہو کریم سےمائل ہوا نہ دل کبھی اِنکار کی طرف جنت بھی لینے آئے تو چھوڑیں نہ یہ گلیمنہ پھیر بیٹھیں ہم تری دیوار کی طرف منہ اُس کا دیکھتی ہیں بہاریں بہشت کیجس کی نگاہ ہے ترے رُخسار کی طرف جاں بخشیاں مسیح کو حیرت میں ڈالتیںچُپ بیٹھے دیکھتے تری رفتار کی طرف محشر میں آفتاب اُدھر گرم اور اِدھرآنکھیں لگی ہیں دامنِ دلدار کی طرف پھیلا ہوا ہے ہاتھ ترے دَر کے سامنےگردن جھکی ہوئی تری دیوار کی طرف گو بے شمار جرم ہوں گو بے عدد گناہکچھ غم نہیں جو تم ہو گنہگار کی طرف یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مرامیں خاک پر نگاہ دَرِ یار کی طرف کعبے کے صدقے دل کی تمنا مگر یہ ہےمرنے کے وقت منہ ہو دَرِ یار کی طرف دے جاتے ہیں مراد جہاں مانگیے وہاںمنہ ہون۔۔۔

مزید

ترا ظہور ہوا چشم نور کی رونق

ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونقترا ہی نور ہے بزمِ ظہور کی رونق رہے نہ عفو مںچ پھر ایک ذرّہ شک باقیجو اُن کی خاکِ قدم ہو قبور کی رونق نہ فرش کا یہ تجمل نہ عرش کا یہ جمالفقط ہے نور و ظہورِ حضور کی رونق تمہارے نور سے روشن ہوئے زمنی و فلکییہ جمال ہے نزدیک و دُور کی رونق زبانِ حال سے کہتے ہںد نقشِ پا اُن کےہمںن ہںے چہرۂ غلمان و حور کی رونق ترے نثار ترا ایک جلوۂ رنگںحبہارِ جنت و حور و قصور کی رونق ضاا زمنو و فلک کی ہے جس تجلّی سےالٰہی ہو وہ دلِ ناصبور کی رونق ییٰ فروغ تو زیبِ صفا و زینت ہےییٰ ہے حسن تجلّی و نور کی رونق حضور ترتہ و تاریک ہے یہ پتھر دلتجلّیوں سے ہوئی کوہِ طور کی رونق سجی ہے جن سے شبستانِ عالمِ امکاںوہی ہں مجلسِ روزِ نشور کی رونق کریں دلوںکومنورسراج(۱)کے جلوےفروغِ بزمِ عوارف ہو نور (۲) کی رونق دعا خدا سے غمِ عشقِ مصطفےٰ کی ہےحسنؔ یہ غم ہے نشاط و سُرور کی رونق ۱۔ سراج ۔۔۔

مزید

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تکتو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک وہ جب تشریف لائے گھرسے در تکبھکاری کا بھرا ہے دَر سے گھر تک دُہائی ناخداے بے کساں کیٔکہ سلاکبِ اَلم پہنچا کمر تک الٰہی دل کو دے وہ سوزِ اُلفتپُھنکے سنہک جلن پہنچے جگر تک نہ ہو جب تک تمہارا نام شاملدعائںے جا نہںا سکتںے اَثر تک گزر کی راہ نکلی رہ گزر مںقابھی پہنچے نہ تھے ہم اُن کے دَر تک خدا یوں اُن کی اُلفت مںں گما دےنہ پاؤں پھر کبھی اپنی خبر تک بجائے چشم خود اُٹھتا نہ ہو آڑجمالِ یار سے ترنی نظر تک تری نعمت کے بُھوکے اہلِ دولتتری رحمت کا پاھسا ابر تک نہ ہو گا دو قدم کا فاصلہ بھیالٰہ آباد سے احمد نگر تک تمہارے حسن کے باڑے کے صدقےنمک خوار ملاحت ہے قمر تک شبِ معراج تھے جلوے پہ جلوےشبستانِ دنیٰ سے اُن کے گھر تک بلائے جان ہے اب ویرانیِ دلچلے آؤ کبھی اس اُجڑے گھر تک نہ کھول آنکھںل نگاہِ شوقِ ناقصبہت پردے ہںن حسنِ جلوہ۔۔۔

مزید

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تکتو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک وہ جب تشریف لائے گھرسے در تکبھکاری کا بھرا ہے دَر سے گھر تک دُہائی ناخداے بے کساں کیٔکہ سلاکبِ اَلم پہنچا کمر تک الٰہی دل کو دے وہ سوزِ اُلفتپُھنکے سنہک جلن پہنچے جگر تک نہ ہو جب تک تمہارا نام شاملدعائںے جا نہںا سکتںے اَثر تک گزر کی راہ نکلی رہ گزر مںقابھی پہنچے نہ تھے ہم اُن کے دَر تک خدا یوں اُن کی اُلفت مںں گما دےنہ پاؤں پھر کبھی اپنی خبر تک بجائے چشم خود اُٹھتا نہ ہو آڑجمالِ یار سے ترنی نظر تک تری نعمت کے بُھوکے اہلِ دولتتری رحمت کا پاھسا ابر تک نہ ہو گا دو قدم کا فاصلہ بھیالٰہ آباد سے احمد نگر تک تمہارے حسن کے باڑے کے صدقےنمک خوار ملاحت ہے قمر تک شبِ معراج تھے جلوے پہ جلوےشبستانِ دنیٰ سے اُن کے گھر تک بلائے جان ہے اب ویرانیِ دلچلے آؤ کبھی اس اُجڑے گھر تک نہ کھول آنکھںل نگاہِ شوقِ ناقصبہت پردے ہںن حسنِ جلوہ۔۔۔

مزید

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شانِ جمال

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شان جمال اس طرف بھی اک نظر اے برق تابان جمال اک نظر بے پردہ ہو جائے جو لمعان جمال مر دم دیدہ کی آنکھوں پر جو احسان جمال جل گیا جس راہ میں سرد خرامان جمال نقش پا سے کھل گئے لاکھوں گلستان جمال ہے شب غم اور گرفتاران ہجران جمال مہر کر ذرّوں پہ اے خورشید تابان جمال کر گیا آخر لباسِ لالہ و گل میں ظہور خاک میں ملتا نہیں خون شہیدانِ جمال ذرّہ ذرّہ خاک کا ہو جائے گا خورشید حشر قبر میں لے جائیں گے عاشق جو ارمانِ جمال ہو گیا شاداب عالم آ گئی فصل بہار اٹھ گیا پردہ کھلا باب گلستان جمال جلوۂ موئے محاسن چہرۂ انور کے گرد آبنوسی رحل پررکھا ہے قرآنِ جمال اُس کے جلوے سے نہ کیوں کافور ہوں ظلمات کفر پیش گاہِ نور سے آیا ہے فرمانِ جمال کیا کہوں کتنا ہے ان کی رہ گزر میں جوش حسن آشکارا ذرّہ ذرّہ سے ہے میدانِ جمال ذرّۂ دَر سے ترے ہم سفر ہوں کیا مہر و قمر یہ ہے سلطان جمال اور و۔۔۔

مزید

بزمِ محشر منعقد کر مہرسامانِ جمال

بزم محشر منعقد کر مہر سامان جمال دل کے آئینوں کو مدت سے ہے ارمان جمال اپنا صدقہ بانٹتا آتا ہے سلطان جمال جھولیاں پھیلائے دوڑیں بے نوایان جمال جس طرح سے عاشقوں کا دل ہے قربان جمال ہے یونہی قربان تیری شکل پر جان جمال بے حجابانہ دکھا دو اک نظر آن جمال صدقے ہونے کے لئے حاضر ہیں خواہان جمال تیرے ہی قامت نے چمکایا مقدر حسن کا بس اسی اِکّے سے روشن ہے شبستان جمال روح لے گی حشر تک خوشبوئے جنت کے مزے گر بسا دے گا کفن عطر گریبانِ جمال مر گئے عشاق لیکن وا ہے چشم منتظر حشر تک آنکھیں تجھے ڈھونڈیں گی اے جانِ جمال پیشگی ہی نقد جاں دیتے چلے ہیں مشتری حشر میں کھولے گا یارب کون دو مکان جمال عاشقوں کا ذکر کیا معشوق عاشق ہو گئے انجمن کی انجمن صدقے ہے اے جان جمال تیری ذُرّیت کا ہر ذرّہ نہ کیوں ہو آفتاب سر زمینِ حُسن سے نکلی ہے یہ کان جمال بزم محشر میں حسینان جہاں سب جمع ہیںپر نظر تیری طرف اٹھتی ہے۔۔۔

مزید

اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم

اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دممیرے شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم اِس بے کس و حزیں پر جو کچھ گزر رہی ہےظاہر ہے سب وہ تم پر ، تم پر سلام ہر دم دُنیا و آخرت میں جب میں رہوں سلامتپیارے پڑھوں نہ کیوں کر تم پر سلام ہر دم دِل تفتگانِ فرقت پیاسے ہیں مدتوں سےہم کو بھی جامِ کوثر تم پر سلام ہر دم بندہ تمہارے دَر کا آفت میں مبتلا ہےرحم اے حبیبِ دَاور تم پر سلام ہر دم بے وارثوں کے وارث بے والیوں کے والیتسکینِ جانِ مضطر تم پر سلام ہر دم للہ اب ہماری فریاد کو پہنچئےبے حد ہے حال اَبتر تم پر سلام ہر دم جلادِ نفسِ بد سے دیجے مجھے رِہائیاب ہے گلے پہ خنجر تم پر سلام ہر دم دَریوزہ گر ہوں میں بھی ادنیٰ سا اُس گلی کالطف و کرم ہو مجھ پر تم پر سلام ہر دم کوئی نہیں ہے میرا میں کس سے داد چاہوںسلطانِ بندہ پرور تم پر سلام ہر دم غم کی گھٹائیں گھر کر آئی ہیں ہر طرف سےاے مہر ذرّہ پرور تم پر سلام ہر دم ۔۔۔

مزید