جو نور بار ہوا آفتابِ حسنِ ملیحہوئے زمین و زماں کامیابِ حُسنِ ملیح زوال مہر کو ہو ماہ کا جمال گھٹےمگر ہے اَوج ابد پر شبابِ حُسنِ ملیح زمیں کے پھول گریباں دریدۂ غمِ عشقفلک پہ بَدر دل افگار تابِ حُسنِ ملیح دلوں کی جان ہے لطفِ صباحتِ یوسفمگر ہوا ہے نہ ہو گا جوابِ حُسنِ ملیح الٰہی موت سے یوں آئے مجھ کو میٹھی نیندرہے خیال کی راحت ہو خوابِ حُسنِ ملیح جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھیہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حُسنِ ملیح زمینِ شور بنے تختہ گل و سنبلعرق فشاں ہو اگر آب و تابِ حُسنِ ملیح نثار دولتِ بیدار و طالعِ ازواجنہ دیکھی چشمِ زلیخا نے خوابِ حُسنِ ملیح تجلیوں نے نمک بھر دیا ہے آنکھوں میںملاحت آپ ہوئی ہے حجابِ حُسنِ ملیح نمک کا خاصہ ہے اپنے کیف پر لاناہر ایک شے نہ ہو کیوں بہرہ یابِ حُسنِ ملیح عسل ہو آب بنیں کوزہائے قند حبابجو بحرِ شور میں ہو عکس آبِ حُسنِ ملیح دل صباحتِ ۔۔۔
مزیدسحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخکرم کا چشمۂ جاری ہے بارھویں تاریخ ہمیں تو جان سے پیاری ہے بارھویں تاریخعدو کے دل کو کٹاری ہے بارھویں تاریخ اِسی نے موسمِ گل کو کیا ہے موسمِ گلبہارِ فصلِ بہاری ہے بارھویں تاریخ بنی ہے سُرمۂ چشمِ بصیرت و ایماںاُٹھی جو گردِ سواری ہے بارھویں تاریخ ہزار عید ہوں ایک ایک لحظہ پر قرباںخوشی دلوں پہ وہ طاری ہے بارھویں تاریخ فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہےزمینِ خلد کی کیاری ہے بارھویں تاریخ تمام ہو گئی میلادِ انبیا کی خوشیہمیشہ اب تری باری ہے بارھویں تاریخ دِلوں کے میل دُھلے گل کھلے ُسرور ملےعجیب چشمہ جاری ہے بارھویں تاریخ چڑھی ہے اَوج پہ تقدیر خاکساروں کیخدا نے جب سے اُتاری ہے بارھویں تاریخ خدا کے فضل سے ایمان میں ہیں ہم پورےکہ اپنی رُوح میں ساری ہے بارھویں تاریخ ولادتِ شہِ دیں ہر خوشی کی باعث ہےہزار عید سے بھاری ہے بارھویں تاریخ ہمیشہ تو نے غلاموں کے ۔۔۔
مزیدذاتِ والا پہ بار بار درودبار بار اور بے شمار درود رُوئے اَنور پہ نور بار سلامزُلفِ اطہر پہ مشکبار درود اُس مہک پر شمیم بیز سلاماُس چمک پہ فروغ بار درود اُن کے ہر جلوہ پر ہزار سلاماُن کے ہر لمعہ پر ہزار درود اُن کی طلعت پر جلوہ ریز سلاماُن کی نکہت پہ عطر بار درود جس کی خوشبو بہارِ خلد بسائےہے وہ محبوبِ گلعذار درود سر سے پا تک کرور بار سلاماور سراپا پہ بے شمار درود دل کے ہمراہ ہوں سلام فداجان کے ساتھ ہو نثار درود چارۂ جان درد مند سلاممرھمِ سینۂ فگار درود بے عدد اور بے عدد تسلیمبے شمار اور بے شمار درود بیٹھتے اُٹھتے جاگتے سوتےہو الٰہی مرا شعار درود شہر یارِ رُسل کی نذر کروںسب درودوں کی تاجدار درود گور بیکس کو شمع سے کیا کامہو چراغِ سرِِ مزار درود قبر میں خوب کام آتی ہےبیکسوں کی ہے یارِ غار درود اُنھیں کس کے دُرود کی پروابھیجے جب اُن کا کردگار درود ہے کرم ہی کرم کہ سنتے ہیں۔۔۔
مزیدرنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسندصحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو توُ پسند اپنا عزیز وہ ہے جسے تُو عزیز ہےہم کو ہے وہ پسند جسے آئے تُو پسند مایوس ہو کے سب سے میں آیا ہوں تیرے پاساے جان کر لے ٹوٹے ہوئے دل کو تو پسند ہیں خانہ زاد بندۂ احساں تو کیا عجبتیری وہ خُو ہے کرتے ہیں جس کو عدُو پسند کیوں کر نہ چاہیں تیری گلی میں ہوں مٹ کے خاکدنیا میں آج کس کو نہیں آبرو پسند ہے خاکسار پر کرمِ خاص کی نظرعاجز نواز ہے تیری خُو اے خوبرو پسند قُلْ کہہ کر اپنی بات بھی لب سے ترے سنیاﷲ کو ہے اِتنی تری گفتگو پسند حُورو فرشتہ جن و بشر سب نثار ہیںہے دو جہاں میں قبضہ کیے چار سُو پسند اُن کے گناہگار کی اُمیدِ عفو کوپہلے کرے گی آیتِ لَا تَقْنَطُوْا پسند طیبہ میں سر جھکاتے ہیں خاکِ نیاز پرکونین کے بڑے سے بڑے آبرو پسند ہے خواہشِ وصالِ درِ یار اے حسنؔآئے نہ کیوں اَثر کو مری آرزو پسند ذوقِ نعت ۔۔۔
مزیدہو اگر مدحِ کفِ پا سے منور کاغذعارضِ حور کی زینت ہو سراسر کاغذ صفتِ خارِ مدینہ میں کروں گل کاریدفترِ گل کا عنادِل سے منگا کر کاغذ عارضِ پاک کی تعریف ہو جس پرچے میںسو سیہ نامہ اُجالے وہ منور کاغذ شامِ طیبہ کی تجلّی کا کچھ اَحوال لکھوںدے بیاضِ سحر اک ایسا منور کاغذ یادِ محبوب میں کاغذ سے تو دل کم نہ رہےکہ جدا نقش سے ہوتا نہیں دَم بھر کاغذ ورقِ مہر اُسے خط غلامی لکھ دےہو جو وصفِ رُخِ پُر نور سے انور کاغذ تیرے بندے ہیں طلبگار تری رحمت کےسن گناہوں کے نہ اے دَاورِ محشر کاغذ لَبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میںہو مجھے تارِ نفس ہر خَطِ مسطر کاغذ مدح رُخسار کے پھولوں میں بسا لوں جو حسنؔحشر میں ہو مرے نامہ کا معطر کاغذ ذوقِ نعت ۔۔۔
مزیداگر چمکا مقدر خاک پاے رہرواں ہو کرچلیں گے بیٹھتے اُٹھتے غبارِ کارواں ہو کر شبِ معراج وہ دم بھر میں پلٹے لامکاں ہو کربَہارِ ہشت جنت دیکھ کر ہفت آسماں ہو کر چمن کی سیر سے جلتا ہے جی طیبہ کی فرقت میںمجھے گلزار کا سبزہ رُلاتاہے دُھواں ہو کر تصور اُس لبِ جاں بخش کا کس شان سے آیادلوں کا چین ہو کر جان کا آرامِ جاں ہو کر کریں تعظیم میری سنگِ اسود کی طرح مومنتمہارے دَر پہ رہ جاؤں جو سنگِ آستاں ہو کر دکھا دے یا خدا گلزارِ طیبہ کا سماں مجھ کوپھروں کب تک پریشاں بلبلِ بے آشیاں ہو کر ہوئے یُمن قدم سے فرش و عرش و لامکاں زندہخلاصہ یہ کہ سرکار آئے ہیں جانِ جہاں ہو کر ترے دستِ عطا نے دولتیں دیں دل کیے ٹھنڈےکہیں گوہر فشاں ہو کر کہیں آبِ رواں ہو کر فدا ہو جائے اُمت اِس حمایت اِس محبت پرہزاروں غم لیے ہیں ایک دل پُر شادماں ہو کر جو رکھتے ہیں سلاطیں شاہیِ جاوید کی خواہشنشاں قائم کریں اُن کی گ۔۔۔
مزیدمرحبا عزت و کمالِ حضورہے جلالِ خدا جلالِ حضور اُن کے قدموں کی یاد میں مریےکیجیے دل کو پائمالِ حضور دشتِ ایمن ہے سینۂ مؤمندل میں ہے جلوۂ خیالِ حضور آفرنیش کو ناز ہے جس پرہے وہ انداز بے مثالِ حضور مَاہ کی جان مہر کا ایماںجلوۂ حُسنِ بے زوالِ حضور حُسنِ یوسف کرے زلیخائیخواب میں دیکھ کر جمالِ حضور وقفِ انجاح مقصدِ خدامہر شب و روز و ماہ و سالِ حضور سکہ رائج ہے حکم جاری ہےدونوں عالم ہیں مُلک و مالِ حضور تابِ دیدار ہو کسے جو نہ ہوپردۂ غیب میں جمالِ حضور جو نہ آئی نظر نہ آئے نظرہر نظر میں ہے وہ مثالِ حضور اُنھیں نقصان دے نہیں سکتادشمن اپنا ہے بد سگالِ حضور دُرّۃ التاج فرقِ شاہی ہےذرّۂ شوکتِ نعالِ حضور حال سے کشفِ رازِ قال نہ ہوقال سے کیا عیاں ہو حالِ حضور منزلِ رُشد کے نجوم اصحابکشتیِ خیر و امنِ آلِ حضور ہے مسِ قلب کے لیے اکسیراے حسنؔ خاکِ پائمالِ حضور ذوقِ نعت ۔۔۔
مزیدسیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کرسوے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر سر گزشتِ غم کہوں کس سے ترے ہوتے ہوئےکس کے دَر پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر بے لقاے یار اُن کو چین آ جاتا اگربار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر کون کہتا ہے دلِ بے مدعا ہے خوب چیزمیں تو کوڑی کو نہ لوں اُن کی تمنا چھوڑ کر مر ہی جاؤں میں اگر اُس دَر سے جاؤں دو قدمکیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر کس تمنا پر جئیں یا رب اَسیرانِ قفسآ چکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر بخشوانا مجھ سے عاصی کا رَوا ہو گا کسےکس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر خلد کیسا نفسِ سرکش جاؤں گا طیبہ کو میںبد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رستہ چھوڑ کر ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثارکیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر حشر میں ایک ایک کا منہ تکتے پھرتے ہیں عدوآفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر مرکے جیتے ہیں جو اُن کے ۔۔۔
مزیدجتنا مرے خدا کو ہے میرا نبی عزیزکونین میں کسی کو نہ ہو گا کوئی عزیز خاکِ مدینہ پر مجھے اﷲ موت دےوہ مردہ دل ہے جس کو نہ ہو زندگی عزیز کیوں جائیں ہم کہیں کہ غنی تم نے کر دیااب تو یہ گھر پسند ، یہ دَر ، یہ گلی عزیز جو کچھ تری رِضا ہے خدا کی وہی خوشیجو کچھ تری خوشی ہے خدا کو وہی عزیز گو ہم نمک حرام نکمّے غلام ہیںقربان پھر بھی رکھتی ہے رحمت تری عزیز شانِ کرم کو اچھے بُرے سے غرض نہیںاُس کو سبھی پسند ہیں اُس کو سبھی عزیز منگتا کا ہاتھ اُٹھا تو مدینہ ہی کی طرفتیرا ہی دَر پسند، تری ہی گلی عزیز اُس دَر کی خاک پر مجھے مرنا پسند ہےتختِ شہی پہ کس کو نہیں زندگی عزیز کونین دے دیے ہیں ترے اِختیار میںاﷲ کو بھی کتنی ہے خاطر تری عزیز محشر میں دو جہاں کو خدا کی خوشی کی چاہمیرے حضور کی ہے خدا کو خوشی عزیز قرآن کھا رہا ہے اِسی خاک کی قسمہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز طیبہ کی خاک ہو کہ حیاتِ ۔۔۔
مزیدہوں جو یادِ رُخِ پُر نور میں مرغانِ قفسچمک اُٹھے چہِ یوسف کی طرح شانِ قفس کس بَلا میں ہیں گرفتارِ اسیرانِ قفسکل تھے مہمانِ چمن آج ہیں مہمانِ قفس حیف در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شداب کہاں طیبہ وہی ہم وہی زندانِ قفس روے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شدہائے کیا قہر کیا اُلفتِ یارانِ قفس نوحہ گر کیوں نہ رہے مُرغِ خوش اِلحانِ چمنباغ سے دام ملا دام سے زِندانِ قفس پائیں صحراے مدینہ تو گلستاں مل جائےہند ہے ہم کو قفس ہم ہیں اسیرانِ قفس زخمِ دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیمروز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس قافلہ دیکھتے ہیں جب سوے طیبہ جاتےکیسی حسرت سے تڑپتے ہیں اسیرانِِ قفس تھا چمن ہی ہمیں زنداں کہ نہ تھا وہ گل ترقید پر قید ہوا اور یہ زِندانِ قفس دشتِ طیبہ میں ہمیں شکل وطن یاد آئیبد نصیبی سے ہوا باغ میں ارمانِ قفس اَب نہ آئیں گے اگر کھل گئی قسمت کی گرہاب گرہ باندھ لیا ہم نے یہ پیمانِ قفس ہ۔۔۔
مزیدجنابِ مصطفےٰ ہوں جس سے نا خوشنہیں ممکن ہو کہ اُس سے خدا خوش شہِ کونین نے جب صدقہ بانٹازمانے بھر کو دَم میں کر دیا خوش سلاطیں مانگتے ہیں بھیک اُس سےیہ اپنے گھر سے ہے اُن کا گدا خوش پسندِ حقِ تعالیٰ تیری ہر باتترے انداز خوش تیری ادا خوش مٹیں سب ظاہر و باطن کے امراضمدینہ کی ہے یہ آب و ہوا خوش فَتَرْضٰی کی محبت کے تقاضےکہ جس سے آپ خوش اُس سے خدا خوش ہزاروں جرم کرتا ہوں شب و روزخوشا قسمت نہیں وہ پھر بھی نا خوش الٰہی دے مرے دل کو غمِ عشقنشاطِ دَہر سے ہو جاؤں ناخوش نہیں جاتیں کبھی دشت نبی سےکچھ ایسی ہے بہاروں کو فضا خوش مدینہ کی اگر سرحد نظر آئےدلِ ناشاد ہو بے اِنتہا خوش نہ لے آرام دم بھر بے غمِ عشقدلِ مضطر میں خوش میرا خدا خوش نہ تھا ممکن کہ ایسی معصیت پرگنہگاروں سے ہو جاتا خدا خوش تمہاری روتی آنکھوں نے ہنسایاتمہارے غمزدہ دل نے کیا خوش الٰہی دُھوپ ہو اُن کی گلی کیمرے سر کو۔۔۔
مزیدخدا کی خلق میں سب انبیا خاصگروہِ انبیا میں مصطفےٰ خاص نرالا حُسنِ انداز و اَدا خاصتجھے خاصوں میں حق نے کر لیا خاص تری نعمت کے سائل خاص تا عامتری رحمت کے طالب عام تا خاص شریک اُس میں نہیں کوئی پیمبرخدا سے ہے تجھ کو واسطہ خاص گنہگارو! نہ ہو مایوسِ رحمتنہیں ہوتی کریموں کی عطا خاص گدا ہوں خاص رحمت سے ملے بھیکنہ میں خاص اور نہ میری اِلتجا خاص ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایاتمھیں ہو مالکِ مُلکِ خدا خاص غریبوں بے نواؤں بے کسوں کوخدا نے در تمہارا کر دیا خاص جو کچھ پیدا ہوا دونوں جہاں میںتصدق ہے تمہاری ذات کا خاص تمہاری انجمن آرائیوں کوہوا ہنگامۂ قَالُوْا بَلٰی خاص نبی ہم پایہ ہوں کیا تو نے پایانبوت کی طرح ہر معجزہ خاص جو رکھتا ہے جمالِ مَنْ رَّاٰنِیْاُسی منہ کی صفت ہے وَالضُّحٰی خاص نہ بھیجو اور دروازوں پر اِس کوحسنؔ ہے آپ کے در کا گدا خاص ذوقِ نعت ۔۔۔
مزید