ابن یمان۔ ہ حذیفہ بیٹے ہیں عسل کے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے ہیں حسیل بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جروہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن بغیض بن لیث بن غطفان کے۔ کنیت ان کی ابو عبداللہ عبسی ہیں۔ یمان لقب ہے حسل بن جابر کا۔ ابن کلبی نے کہا ہے کہ یہ لقب ہے جو وہ بن حارث کا ان کو یمان اس وجہس ے کہتے ہیں کہ انھوںنے اپنی قوم میں ایک خون کیا تھا پھر بھاگ کر مدینہ چلے گئے اور بنی عبد الاشہل سے جو انصار کی ایک شاخ ہے انھوں نے حلف کی دوستی کر لی لہذا ان کی قوم نے ان کا یمان رکھ دیا کیوں کہ انھوں نے انصار سے حلف کی دوستی کی اور وہ لوگ یمن کے رہنے والے تھے۔ ان سے ابو عبیدہ اور عمر بن خطاب اور علی بن ابی طالب اور قیس بن ابی حازم اور ابو وائل اور زید بن وہب وغیرہم نے روایت کی ہے۔ نبی ﷺ کے حضور میں ہجرت کر کے آئے تھے حضرت نے ان کو ہجرت اور نصرت کے درمیان میں اختیار دیا انھوں نے نصرت کو اختیار۔۔۔
مزید
آپ نارنول کے باشندے تھے اور صاحب نفس مشہور تھے اکثر اوقات نارنول کے بازاروں میں گھومتے پھرتے تھے۔ آپ کا مزار بھی نارنول ہی میں ہے، آپ جس جگہ بیٹھ جاتے وہاں سے کئی کئی دن تک نہ اُٹھتے، تنہائی میں خود سے باتیں کیا کرتے کبھی گریہ و زاری کرتے، کبھی ہنستے کبھی اپنے آپ سے لڑتے جھگڑتے، کبھی دوتارہ بجا کر فارسی چٹکلے کہتے، پُرانے چیتھڑے پہنتے اور ہاتھ پاؤں میں لوہے کی زنجیریں ڈالے رکھتے، گفتگو میں آپ کا تکیہ کلام یہ تھا، خدایا آؤ، خدایا جاؤ، خدایا بیٹھو اور جس سے اور جس سے گفتگو کرتے یہ تکیہ کلام ضرور استعمال کرتے۔ جو مجھ سے مجھے چھپائے رکھے وہ جلوہ گر آشکار آقاﷺ (ذوقِ نعت) ملا محمد نارنولی کہا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ میری والدہ نے مجھ سے کہا ملا محمد تم بچپن میں اتنے سخت بیمار ہوئے تھے کہ تمہارے بچنے کی کوئی امید نہ تھی چنانچہ ہمارے محلّہ سے الہ دین مجذوب گزرا اور اس نے ایک ٹھیکری ایک آدمی ک۔۔۔
مزید
اصل میں کالپی کے باشندے تھے۔ ابتداء ہی میں سلوک کے راستہ دیکھ چکے تھے اور راتوں کو کمزور لوگوں کے گھروں میں جاکر ان کے مٹکے بھرتے تھے۔ آخر کار ایک شخص کے ذریعہ سے آپ کو جذب کی حالت نصیب ہوئی اور گوالیا میں رہنے لگے۔ فتوح کے دروازے آپ پر کھل گئے اور دنیا والوں کے دل آپ کی طرف مائل ہوگئے۔ آپ اکثر و بیشتر استغراق کی حالت میں رہا کرتے تھے۔ ضرورت انسانی کے وقت استغراق میں تھوڑا سا افاقہ ہو جاتا تھا۔ آپ کا دستور تھا کہ کئی کئی دن بعد تھوڑے سے دانے بطور غذا کھایا کرتے اور ستر چھپانے کی حد تک لباس پہنتے تھے۔ بعض وقت ذرا سا بھی کپڑا جسم پر نہ رکھتے، عمدہ اور قیمتی لباس جب آپ کو دیا جاتا تو وہ غریبوں کو تقسیم کردیتے مالداروں سے بہت ہی کم ملاقات کرتے دل کی دنیا سے آپ کا خاص تعلق تھا، آپ کی بہت سی کرامتیں دیکھی گئیں، تصوف میں شاہ مدار کے سلسلہ میں داخل ہوئے، آپ نے بہت سے اَسرار بیان کئے ہیں بعض فاضلوں۔۔۔
مزید
دہلی کے ایک قدیم ریئس کے فرزند تھے بچپن ہی سے مجذوب تھے دنیا کے طور طریقوں سے بے پروا تھے، عجیب و غریب و غریب حالت تھی۔ اکثر اوقات بالکل برہنہ رہتے اورآپکے عضو مخصوص میں انتشار پیدا نہیں ہوتا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مٹی کا ایک غلہ دیوار میں چِپکا ہوا ہے، روپیہ پیسہ اور کپڑے اور جو کچھ آپ کو ملتا وہ سب کا سب حاضرین اور قوالوں کو دے دیا کرتے تھے اس حالت کے باوجود آپ کی ظاہری صورت یہ تھی کہ مجلسوں میں جاتے، ہر ایک کی جانب التفات کرتے اور بڑی دلچسپ گفتگو کرتے، بعض علماء نے خواب میں دیکھا کہ شیخ حسن بودلہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہیں اور وضو کرارہے ہیں، بعض صاحبوں نے بیان کی کہ ہم نے شیخ حسین بودلہ کو مکہ مکرمہ میں دیکھا حالانکہ وہ دہلی میں موجود تھے۔ آپ نے تقریباً 964ھ میں وفات پائی، آپ کا مزار دہلی بازار میں خواص خاں کے مقبرے کے پاس ہے یہ خواص خاںشیر شاہ سوری کے دوست تھے او۔۔۔
مزید
آپ کو شیخ علاول بلاول بھی کہتے ہیں۔ کشف حالات اور دلوں کی باتیں ظاہر کرنے میں اللہ کی نشانی تھے جو کوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے ضرور کوئی نہ کوئی آپ کی کرامت دیکھی ابتدائے جوانی میں طالب علم تھے عرصہ تک سامانہ میں رہے طالب علمی کے زمانے میں دہلی میں بھی پڑھا، اس کے بعد جب جذبہ و حال طاری ہوا تو آگرہ چلے گئے، عرصہ تک مجردر ہے، آپ کی کرامتوں کو دیکھ کر لوگوں نے آپ کی خدمت کے لیے نوکر چاکر اور کنیزیں خرید کردیں۔ آپ نے بالحاظ فطرت انسانی بعض کے ساتھ شادیاں بھی کیں جن سے کئی اولادیں ہوئیں۔ میرے چچا رزق اللہ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں اپنے چند لڑکوں کے غائب ہونے سے سخت پریشان تھا، میں ان کی خیریت طلبی کے لیے صدقہ دینا یا قرآن کریم پڑھنا یا کسی اسم الٰہی کا ورد کرنا چاہتا تھا، اسی پریشانی اور تردو میں شیخ علاؤالدین مجذوب کے پاس گیا تاکہ وہ جو کچھ بتائیں ویسا کروں چنانچہ مجھے دیکھتے ہی انہو۔۔۔
مزید
مشہور مجذوب تھے اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے قریب شیخ برہان الدین بلخی کے مقبرہ کے پاس والے پُرانے گنبد میں رہا کرتے تھے مستی اور حالت جذبے کے باوجود علم تکسیر میں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک خاص نشانی تھی۔ جب شیر شاہ نے دہلی کے قلعہ کو ویران کیا تو آپ اس کو سنتے ہی ایسے غائب ہوئے کہ پھر آپ کا نشان تک نہیں ملا۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
آپ کا نام محمد اور تخلص بحثی تھا۔ ابتدا میں بڑے آزاد تھے لیکن آخر عمر میں توفیق الٰہی کی بدولت راہ فقرو ریاضت کی نعمت نصیب ہوئی، تیس سال تک مسلسل روزے رکھے اور ریاضت کرتے رہے، دہلی میں نظام الدین اولیاء کے قریب رئیس وقت مرزا محمد عزیز نے آپ کے لیے ایک خانقاہ بنوائی تھی آپ اسی میں مشغول عبادت رہا کرتے تھے اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ دہلی کی ویران گلیوں میں گشت کرتے تھے اور کشف قبور سے متعلق بہت سی چیزیں آپ سے منقول ہیں۔ بوقت وفات آپ باخبر اور بیدار دل تھیں اپنے وقت کے جواں سال عالم و فاضل، ادیب و مہذب، مقبول عام و خاص، درویشوں کے معتقد مولانا حسن کشمیری نے آپ کی تاریخ وفات یوں کہی ہے۔ فات فی السبت شیخنا بحثی کہ بنودش نظیر بے شک و ریب سال تاریخ آں ملک سیرت فات بحثی ندارسید زعیب اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
بڑی ریاضت کرنے والے عبادت گزار، سالک و عارِف اور صورت و سیرت کے لحاظ سے بھی درویش تھے۔ پوری عمر سلوک کی راہ، ریاضت میں گذاری، صاحب ذوق و شوق اور خوشگوار صحبت رہے۔ بانسری کی آواز پر درد و شورش کا اظہار کرتے اور اتنا روتے تھے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا، اصلی وطن ماوراءالنہر تھا برسوں حرمین شریفین میں فقروریاضت مجاہدہ و عبادت کی زندگی بسر کی افغانوں کے عہد حکومت میں تقریباً 955ھ میں آپ ہندوستان آئے اور یہاں کے اکثر و بیشتر مشائخین کی صحبت میں رہے پھر دہلی میں فقیروں کی طرح زندگی گزاری اور 997ھ میں وفات پائی، آپ کا مزار دہلی میں شیخ برہان الدین بلخی کے چبوترے کے پاس ہے۔ اللہ آپ پر رحمتیں نازل کرے۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
جنات کو بلانے کے علم و عمل میں کامل تھے اور اپنے نفس پر پورا قابو رکھتے تھے۔ ہندوستان و خراسان کی خوب سیرو سیاحت کی، آپ اپنے نانا شیخ شمس الدین کے مرید تھے۔ ایک مرتبہ جنات اٹھا کر اپنے ملک میں لے گئے جہاں عرصہ تک آپ رہے ادھر آپ کے گھر والوں کو یہ خیال ہو ا کہ آپ کہیں سیر و سیاحت کرنے گئے ہیں۔ آپ جنات کی وضع قطع، رہن سہن اور ان کی زمین وغیرہ کو تفصیل سے بیان کرتے تھے اور ان کی زَبان بھی بخوبی جانتے تھے۔ جنات کے شہر میں رہنے سہنے کی وجہ سے آپ کی شکل و صورت میں بھی کافی تبدیلی ہو گئی تھی۔ کوئی نیا شخص دیکھ کر کبھی یہ نہیں کہتا کہ آپ ہماری زمین کے باشندے ہیں۔ آپ بہت زیادہ بوڑھے ہوگئے تھے اور 989ھ میں انتقال کیا۔ آپ کو عبدالغفور مانو کہنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مانو آپ کی محبوبہ کا نام ہے اور وہ کوئی جناننی تھی یا آدم زاد، آپ کو اس سے اتنی محبت تھی کہ اگر کوئی شخص مانو کا لفظ ٹھیکری پ۔۔۔
مزید