بریرہ کے خاوند تھے۔ جعفر المستغفری نے ان کا ذکر کیا ہے اور انہوں نے محمد بن عجلان سے انہوں نے یحییٰ بن عروہ بن زبیر سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی کہ بریرہ کی وجہ سے ہمیں تین سنتوں کا علم ہُوا۔ ۱۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (بریرہ)کے بارے میں فرمایا تھا۔ کہ ولاء اس کی ہوگی جو کسی کو آزاد کرے گا۔ بریرہ کا خاوند غلام تھا، جن کا نام مقسم تھا۔ جب وہ آزاد کردی گئیں تو حضرت عائشہ نے ان (بریرہ) سے کہا۔ ۲۔ ’’کیا تجھے علم ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرے بارے میں فرمایا تھا کہ آزادی کے بعد تُو اس وقت تک اپنے نفس (اختیار) کی مالک ہوگی۔ جب تک تو کسی سے بیا ہی نہ جائے ۔ میری خواہش یہی ہے، کہ تو اب اس قصّے کو جانے ہی دے۔‘‘ بریرہ نے جواب دیا۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ ۳۔ حضور نے فرمایا، صدقہ وہی بہتر ہوتا ہے جو مناسب جگہ پر صرف کیا جائے۔ اس حدیث میں بریرہ کے خ۔۔۔
مزید
الحارثی: حسن بن سفیان نے الوحدان میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ابو موسیٰ کو کتابتہً ابو علی نے انہیں ابو نعیم نے، اُنہیں حبیب بن حسن نے انہیں محمد بن یحییٰ نے، انہیں احمد بن یحییٰ بن محمد نے اُنہیں ابراہیم بن سعد نے اُنہیں محمد بن اسحاق نے انہیں محمد بن مسلمہ اور عبد اللہ بن ابی بکر نے اُنہیں مکنف الحارثی نے بتایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقعہ پر محیصہ بن مسعود کو ۳۰ وسق کھجور اور ۳۰ وسق جو عنایت فرمائے تھے ابو نعیم، ابو عمر اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن زید الخیل طائی: ہم ان کا نسب ان کے باپ کے ترجمے میں لکھ آئے ہیں اور یہ زید الخیل کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ اور انہی کے نام پر ان کی کنیت تھی (ابو مکنف) مکنف اور ان کے بڑے بھائی، حضرت خالد کی کمان میں مرتدین کے خلاف جنگ میں شریک رہے۔ ابو عمر نے زید الخیل کے ترجمے میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اور حماد الراویہ ان کے آزاد کردہ غلام تھے۔ قتیبی نے معارف میں ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن عمرو بن عطیہ بن خناء بن مبذول بن عمرو بن غنم بن مازن بن نجار انصاری۔ خزرمی، نجاری مازنی: انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی۔ وہ محمد بن یحییٰ بن حبان کے دادا تھے۔ ان کے سر پر ایک ضرب لگنے سے ان کی زبان اور عقل متاثر ہوئی تھی چونکہ وہ تجارت پیشہ تھے۔ دھوکا کھا جاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت کی کہ جب تم کوئی چیز بچنے لگو تو خریدار سے کہہ دیا کرو کہ مجھے دھوکا نہ دینا اور اسی طرح جب کوئی چیز خریدو۔ تو ہر سودے میں تین دن کا اختیار لے لیا کرو۔ انہوں نے ایک سو تیس سال زندگی پائی تھی۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
تمیمی: ان کا نسب مذکور نہیں۔ صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ابن سعد نے انہیں بصری صحابہ کے طبقے میں شمار کیا ہے اور ان کا نام یوں لکھا ہے: منقع بن حصین بن یزید بن شبل بن حبار بن حارث بن عمرو بن کعب بن عبد شمس بن سعد بن زید مناہ بن تمیم: جنگِ قادسیہ میں موجود تھے۔ پھر بصرے میں سکونت اختیار کرلی۔ ان کے ایک گھوڑے کا نام جناح تھا۔ جس پر سوار ہوکر وہ قادسیہ میں شریک ہوئے تھے۔ یہ اشعار ان کے ہیں۔ لَمَّا رَاَیْتُ الْخَیْلَ زیَّل بَیْنَھَا طعَانَ وَنَشَّابٌ صَبَرَتُ جَنَاحَا ترجمہ: جب مَیں نے دیکھا کہ نیزہ بازوں اور تیر اندازوں کی وجہ سے گھوڑوں میں فاصلہ پیدا ہوگیا۔ تو مَیں نے اپنے گھوڑے جناح کو کافی سمجھا۔ فَطَاعَنْتُ حَتّٰی اَنُرَلَ اللہ نَصْرَہٗ وَوَدَّ جَنَاحٌ لَوْقَضیٰ فَارَ اَحَا ترجمہ: مَیں نے نیزے سے دشمن پر حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے کامیابی نازل کی اور جناح کی ۔۔۔
مزید
ازدی ابو مدراک: ان کی حدیث کو منیب بن مدرک بن منیب نے اپنے والد سے اس نے دادا سے روایت کہا کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانۂ جاہلیت میں تبلیغ دین کرتے دیکھا۔ جب آپ فرماتے کہ لا الہٖ اللہ کہو گے، تو نجات پا جاؤ گے۔ تو بعض لوگ ان کے منہ پر تھوکتے، بعض ان پر مٹی ڈالتے اور بعض گالیاں بکتے۔ جب دوپہر ہو جاتی، تو ایک لڑکی پانی کا ایک برتن لاتی، جس سے آپ کا ہاتھ منہ دھلاتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صاحبزادی سے مخاطب ہوکر فرماتے ’’میری بیٹی! تم اپنے باپ پر دشمنوں کے غلبے اور ذلت سے ڈرنا مت۔‘‘ اِن سے پوچھا کہ وہ صاحبزادی کون تھیں انہوں نے کہا، زینب رضی اللہ عنہا بنت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے یہ حدیث مدرک بن حارث ازدی کے ترجمے میں بھی بیان کی ہے۔۔۔۔
مزید
بن عبد السلمی: خطیب ابو بکر اور ابو نصرما کو لانے اِن کا ذکر کیا ہے۔ ان سے عبد اللہ بن عامر الہانی نے روایت کی ہے۔ ان کا شمار صحابہ میں ہوتا ہے۔ ابو امامہ باہلی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس شخص نے صبح کی نماز با جماعت پڑھی اور وہاں بیٹھا نماز اشراق تک تسبیح پڑھتا رہا، اسے حج اور عمرے کا پورا ثواب مِلے گا۔ ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔
مزید
بن ابی اُمیّہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم قرشی مخزومی: یہ صاحب ام المومنین ام سلمہ کے بھائی تھے ان کا نام ولید تھا۔ چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نام اچھا نہ لگا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر مہاجر کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطورِ سفیر حارث بن عبد کلال حمیری کے پاس یمن میں بھیجا تھا۔ مہاجر غزوۂ تبوک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ دے سکے تھے، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ناراض تھے، ام المومنین ام سلمہ نے ان کی سفارش کی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درگزر فرمایا، اور انہیں کندہ اور صدف سے وصولِ زکات کا محصل مقرر فرمایا۔ اس اثنا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا مگر مہاجر اپنے کام پر جمے رہے۔ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہُوئے، تو انہیں حکم مِلا، کہ وہ مرتدین یمن کے خلاف جہاد کریں۔ ادھر سے فراغت ملی تو حضرت ابو بکر۔۔۔
مزید
بن زیاد الحارثی: یہ ربیع بن زیاد کے بھائی تھے۔ ابو عمر نے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کا قول ہے کہ انہیں اس کا علم نہیں۔ آیا انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور اسی طرح ان کی صحبت کے بارے میں شبہ ہے۔ ۱۷ ہجری میں وہ بہ مقام مناذر قتل ہوئے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ تستر کے مقام پر قتل ہوئے۔ ان کے بھائی نے ابو موسیٰ سے کہا کہ مہاجر روزے کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ آپ انہیں حکم دیں کہ وہ افطار کر کے لڑیں، انہوں نے تعمیل ارشاد کی اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔۔۔۔
مزید
بن قنقذ بن عمیر بن جدعان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی قرشی تیمی: عبد اللہ بن جدعان ان کے والد کے چچا تھے اور وہ دادا ہیں محمد بن یزید بن مہاجر کے۔ ایک روایت میں ہے، کہ مہاجر کا نام عمرو تھا اور قنقذ کا نام خلف تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہاجر اور قنقذ دونوں لقب ہیں اور اُنہیں مہاجر اس لیے کہتے تھے کہ جب اُنہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو مشرکین نے اُنہیں پکڑلیا اور خوب مرمّت کی۔ اس اثناء میں انہیں موقعہ مل گیا اور بھاگ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فی الحقیقت تم ہی مہاجر ہو۔ ایک روایت کے مطابق مہاجر فتح مکہ کے دن اسلام لائے تھے۔ بصرے میں سکونت اختیار کی اور وہیں فوت ہوئے۔ ابو ساسان حضین نے ان سے روایت کی۔ حسن نے مہاجر سے جو حدیث روایت کی ہے، وہ مرسل ہے۔ کیونکہ ان دونوں میں حضین حائل ہے۔ یعیش بن صدقہ بن علی الفقیہ۔۔۔
مزید