ان سے ابوبحریہ نے روایت کی ان کا شمار اہل شام میں ہوتا ہے۔ ہمیں یحییٰ بن ابی الرجاء اصفہانی نے اس اسناد سے جو ابن ابی عاصم تک جاتا ہے۔ بتایا کہ اس سے محمد بن عوف نے، اس سے محمد بن اسماعیل بن عیاش نے ان سے میرے والد نے، اس نے ضمضم بن زرعہ سے اس نے شریح بن ابی عبید سے اس نے ابو ظبیہ سے اس نے ابو بحریہ السکونی سے اُس نے مالک بن بسیار السکونی العوفی سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اللہ سے کوئی چیز مانگو تو ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو سیدھا رکھو نہ کہ الٹا۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔ ابن مندہ کے قول کے مطابق ان سے ابن بجدہ نے روایت کی، نہ کہ ابن بحریہ سے۔ بقول ابونعیم اس سلسلے میں ابن مندہ کو اشتباہ ہوا ہے۔ صحیح نام ابوبحریہ ہے۔ ۔۔۔
مزید
ان کا نام حارث بن عمرو بن حارث بن ہیثم بن ظفر الانصاری، اوسی، ظفری تھا۔ یہ صاحب اپنے دونوں بھائیوں بشر اور بشیر کے ساتھ غزوۂ احد میں موجود تھے۔ ہم نے بشر اور مبشر کا ذکر تو کیا ہے، لیکن بشیر کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ وہ مرتد ہوگیا تھا اور حالت کفر میں مرا۔ ابن ماکولا کا بیان ہے کہ جناب مبشر کو حضور کی صحبت میں حاضری کا موقع ملاتھا اور انھوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ان بھائیوں کا ذکر قتادہ بن نعمان کی حدیث میں آیا ہے۔ ہمیں اس بارے میں ابوعیسیٰ ترمذی کے اسناد سے کئی آدمیوں نے بتایا کہ ہم سے محمد بن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے اس نے اپنے باپ سے اس نے اپنے دادا قتادہ بن نعمان سے بیان کیا کہ ہمارے کچھ اعزہ تھے، جنھیں بنو ابیرق کہتے تھے، وہ تین بھائی تھے، مبشر، بشر اور بشیر۔ آخرالذکر منافق تھا۔ اور صحابہ کی ہجو میں شعر کہتا تھا اور بعض لوگ اسے کچھ دے دلاکر اس کی ۔۔۔
مزید
ابو عمر المحاربی کہتا ہے۔ابونعیم انھیں منسوب نہیں کرتا۔ حضرمی اور طبرانی نے انھیں صحابہ میں شمار کیا ہے اور اشعث بن ابو الشعث نے ان سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتا تھا۔ صحابہ کرام میں بعض رمضان کے روزے رکھتے تھے، لیکن کوئی شخص بھی دوسرے سے تعرض نہیں کرتا تھا۔ جناب مشعب کا نام حمزہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر مشعب رکھ دیا۔ ابونصر نے ان کا پورا نام ابوصالح حمزہ بن عمرو الاسلمی لکھا ہے۔ ابوحاتم رازی کے قول کے مطابق ان کا نام مشعب تھا۔ یا لقب مشعب تھا۔ ۔۔۔
مزید
بن ثعلبہ بن وہب بن عائذ بن ربیعہ بن یربوع بن سمال بن عوف بن امرأ القیس بن بہثہ بن سلیم بن منصور السلمی: اُنھوں نے بصرے میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان سے ابو عثمان النہدی اور کلیب بن شہاب اور عبدالملک بن عمیر نے روایت کی، یہ اپنے بھائی مجالد سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے اور جنگ حمل کے موقع پر، بصرے میں لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی قتل ہوگئے تھے۔ صورتِ حال کچھ اس طرح ہے کہ حکیم بن جبلہ نے عبداللہ بن زبیر کو قتل کردیا۔ مجاشع ابن زبیر کے ساتھ تھے۔ اُنھوں نے حکیم بن جبلہ کو قتل کیا اور یوں مجاشع بھی قتل کردیے گئے۔ یہ قول ہے خلیفہ بن خیاط کا۔ باقی لوگوں کی رائے ہے کہ مجاشع اس جنگ میں قتل ہوئے، جہاں حضرت علی، طلحہ اور ابن زبیر موجود تھے، ہم اس واقعہ کو تفصیل سے الکامل فی التاریخ میں بیان کرچکے ہیں اور جناب مجاشع حضرت عمر کے دورِ خلافت میں اس لشکرکے کماندار تھے۔ جس نے توَّج کے۔۔۔
مزید
بن سلمہ بن ضمضم بن سعد بن مرہ بن ذہل بن شیبان بن ثعلبہ بن عکابہ بن صعب بن علی بن بکر بن وائل ربعی شیبانی، یہ صاحب اپنے قبیلے کے وفد کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ۹ ہجری میں حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکر نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں خالد بن ولید سے پہلے عراق پر حملہ کرنے کے لیے اُنھیں روانہ کیا۔ یہی وہ صاحب ہیں جنھوں نے خلیفہ اور مسلمانوں کو ایران پر چڑھائی کے لیے اُکسایا اور بتایا کہ یہ کام بالکل آسان ہے۔ یہ صحابی بڑے بہادر، دلیر، جید الفکر اور صائب الرای تھے۔ ایرانیوں کے خلاف لڑائیوں میں اُنھوں نے بڑے مصائب اور تکالیف برداشت کیں۔ جب حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو انھوں نے مختار الثقفی کے والد ابوعبید بن مسعود الثقفی کو مثنی بن حارثہ کی مدد کو روانہ کیا۔ دونوں لشکروں نے جمع ہوکر قس ناطف کے مقام پر ایرانیوں پر حملہ کردیا۔ جس میں ابو عبید شہید ہوگئے اور مث۔۔۔
مزید
(اس کا نام ربیعہ بن عامر بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ تھا) ان کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے۔ ان سے ان کے بیٹے کاہل نے روایت کی ہے۔ یہ صحابی اور ان کا بھتیجا بشیر بن معاویہ حضور کے دربار میں حاضر ہوئے انھیں حضو اکرم نے سورہ یٰسین، الحمد للہ رب العالمین اور معوذاتِ ثلاثہ پڑھائیں۔ نیز یہ بھی بتایا کہ ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کی جائے۔ ابن مندہ اور ابونعیم نے تخریج کی ہے۔ ۔۔۔
مزید
اور ا یک روایت میں ابن سلیم بن زید بن عبید بن ثعلبہ بن یربوح بن ثعلبہ بن الدول بن حنیفہ میں لحیم بن صعب بن علی بن بکر بن وائل حنفی یمامی مذکور ہے ۔ جناب مجاعہ اور ان کے والد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں عودہ، عوانہ اور الجیل کے علاقے بطور جاگیر عطا کیے اور فرمان لکھ کر دیا۔ مجاعہ بنو حنیفہ کے رؤسا میں سے تھے۔ تحریک ارتداد میں۔ جناب خالد بن ولید سے کچھ واقعات مذکور ہیں جن کا ذکر ہم نے اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں کیا ہے۔ جنابِ خالد کے ساتھ ایک واقعہ یوں ہے کہ مجاعہ، خالد بن ولید کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے مسیلمہ کے آدمیوں کو دیکھا کہ انھوں نے تلواریں نیاموں سے باہر نکالی ہوئی ہیں۔ مجاعہ سے مخاطب ہوکر کہا ’’مجاعہ! یہ بزدل تیری قوم کے ہیں۔‘‘ نہیں یہ یمانیہ قبیلے کے لوگ ہیں۔ میرے لوگ تو ایسے ہیں کہ ۔۔۔
مزید
(اس کا نام ربیعہ بن عامر بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ تھا) ان کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے۔ ان سے ان کے بیٹے کاہل نے روایت کی ہے۔ یہ صحابی اور ان کا بھتیجا بشیر بن معاویہ حضور کے دربار میں حاضر ہوئے انھیں حضو اکرم نے سورہ یٰسین، الحمد للہ رب العالمین اور معوذاتِ ثلاثہ پڑھائیں۔ نیز یہ بھی بتایا کہ ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کی جائے۔ ابن مندہ اور ابونعیم نے تخریج کی ہے۔ ۔۔۔
مزید
ہم اُن کا نسب، ان کے بھائی مجاشع کے تذکرے میں لکھ آئے ہیں۔ مجالد کی کنیت ابومعبد تھی۔ بصرے میں سکونت تھی۔ اُنھوں نے فتح مکہ کے بعد اپنے بھائی کی طرح اسلام قبول کیا تھا۔ جناب مجاشع انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت علی البحرۃ کے لیے لے گئے تھے، لیکن آپ نے ان کی درخواست مسترد کردی تھی اور بیعت علی الاسلام والجہاد منظور فرمائی تھی۔ ابن ابی حاتم کا قول ہے کہ مجالد جنگ جمل میں شہید ہوگئے تھے، لیکن جناب مجاشع کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، حالانکہ اس جنگ میں ان کا قتل یقینی امر ہے۔ ان دونوں بھائیوں سے ابو عثمان کی روایت میں کوئی استبعادنہیں۔ کیونکہ دونوں اکٹھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور بصرے میں دونوں کی قبریں قریب قریب ہیں۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔ ۔۔۔
مزید
اور ا یک روایت میں ابن سلیم بن زید بن عبید بن ثعلبہ بن یربوح بن ثعلبہ بن الدول بن حنیفہ میں لحیم بن صعب بن علی بن بکر بن وائل حنفی یمامی مذکور ہے ۔ جناب مجاعہ اور ان کے والد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں عودہ، عوانہ اور الجیل کے علاقے بطور جاگیر عطا کیے اور فرمان لکھ کر دیا۔ مجاعہ بنو حنیفہ کے رؤسا میں سے تھے۔ تحریک ارتداد میں۔ جناب خالد بن ولید سے کچھ واقعات مذکور ہیں جن کا ذکر ہم نے اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں کیا ہے۔ جنابِ خالد کے ساتھ ایک واقعہ یوں ہے کہ مجاعہ، خالد بن ولید کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے مسیلمہ کے آدمیوں کو دیکھا کہ انھوں نے تلواریں نیاموں سے باہر نکالی ہوئی ہیں۔ مجاعہ سے مخاطب ہوکر کہا ’’مجاعہ! یہ بزدل تیری قوم کے ہیں۔‘‘ نہیں یہ یمانیہ قبیلے کے لوگ ہیں۔ میرے لوگ تو ایسے ہیں کہ ۔۔۔
مزید