محمد بن منصور بن مخلص بن اسمٰعیل نوقدی: امام زاہد صائم الدہر مشتغل بالتدریس و فتوےٰ تھے۔کنیت [1]،ابواسحٰق تھی۔فقہ آپ نے ابی جعفر ہندوانی شاگرد ابی بکر اعمش تلمیذ ابی بکر اسکاف سے حاصل کی اور حدیث کو قاضی محمد بن حسین یزدی سے روایت کیا۔مدت تک سمر قند کے مفتی رہے اور سمر قند ہی میں ماہ رمضان ۴۳۴ھ میں فوت ہوئے،نوقد شہر نف کے قصبات میں سے ایک قصبہ کا نام ہے۔ ’’بحر المناقب‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔ 1۔ لقب حاکم تھا ’’جواہر المضیۃ‘‘ (حدائق الحنفیہ) ۔۔۔
مزیدحسین[1] بن علی بن محمد بن جعفر صمیری: فقہائے کبار اور فضلائے نامدار میں سے بڑےعقیل جید النظر حسن العبارت محدث صدوق تھے۔۳۵۱ھ میں پیدا ہوئے،شہر صمیرکے پہاڑ میں جو خورنستان کے ملک میں نہر بصرہ پر واقع ہے رہتے تھے۔فقہ آپ نے ابی نصر محمد بن سہل بن ابراہیم اور ابی بکر محمد خوار زمی سے حاصل کی اور حدیث کو دمشق میں ابی الحسن دار قطنی وابی بکر محمد بن احمد جر جانی سے سنا اور روایت کیا اور آپ سے قاضی القضاۃ ابو عبد اللہ محمد بن علی بن محمد بن حسین دامغانی وابو الحسن علی بن حسین صندلی نیشا پوری نے تفقہ کیا اور ابو بکر احمد بن خطیب بغدادی نے حدیث کی روایت کی۔آپ نے ایک بہت بڑی کتاب امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے اخبار میں تصنیف کی اور مدت تک مدائن وغیرہ کی دار القضاء کے متولی رہے اور بغداد میں ۲۱؍شوال ۴۳۶ھ میں وفات پائی۔ ’’مر۔۔۔
مزیدصاعد بن محمد بن احمد بن عبد اللہ استوائی: شہر استواء مین جو نیشا پور کے پاس واقع ہے،۳۴۳ھ میں پیدا ہوئے۔کنیت ابو العلاء تھی۔اپنے زمانہ کے عالم صدوق فقیہ فاضل تھے،خراسان میں ریاست مذہب حنفیہ کی آپ پر منتہیٰ ہوئی۔ ابتداء میں آپ نے علم ادب ابی بکر محمد خوار زمی اور فقہ قاضی ابی نصر سہل اپنے نانا سے پڑھی پھر قاضی ابی ہیثم عتبہ سے تفقہ کیا اور حدیث کو ابا م حمد عبد اللہ بن مھمد بن زیاد و ابا عمر و اسمٰعیل وابا سہل بشر بن احمدالاسفرائنی اور ابا الحسن علی بن عبد الرحمٰن کوفی سے سنا مدت تک نیشا پور کی قضا کے متولی رہے پھر قضا کا عہدہ ابو الہیثم عتبہ اپنے استاد کو دے دیا۔آپ سے آپ کے بیٹے ابو سعد محمد بن صاعد اور پوتے ابو منصور احمد بن نے تفقہ کیا اور ایک جم غفیر نے روایت کی۔آپ[1] نے عقائد میں ایک کتاب اعتقاد نام تصنیف فرمائی اور ۴۳۲ھ میں۔۔۔
مزیدجعفر بن محمد بن معتزبن محمد بن مستغفر بن فتح بن ادریس نسفی: ۳۵۰ھ میں شہر نسف میں جس کو اب نخشب کہتے ہیں،پیدا ہوئے۔ابو العباس کنیت تھی اور مستغفری کی نسبت سے جو آپ کے بعض اجداد کی طرف منسوب ہے۔مشہور تھے۔ آپ فقیہ فاضل محدث صدوق تھے،آپ کے زمانہ میں مرجع انام ہوا ہو۔علم آپ نے قاضی ابی علی حسین نسفی تلمیذ ابی بکر محمد بن فضل سے حاصل کیا اور حدیث کو کثرت سے روایت کیا۔سمعانی نے لکھا ہے کہ آپ خراسان کی طرف تشریف لے گئے اور مرو سرخص میں مدت تک مقیم رہے جہاں ابی علی زاہد بن احمد سرخسی سے بہت کچھ سماعت کیا۔نسف میں ابا سہر ہارورن بن احمد استربادی و ابا محمد رازی اور بخارا میں حافظ ابا عبد اللہ محمد بن احمد عنجا اور مرو میں ابا ہیثم محمد وغیرہ محدثین کثیر سے سنا اور آپ سے میرے جد اعلیٰ قاضی ابو منصور محمد بن عبد الجبار سمعانی ۔۔۔
مزیدمعتمد بن محمد بن مکحولی بن فضل نسفی مکحولی: فقیہ محدث عالم فاضل تھے۔ ابو المعالی کنیت تھی۔روایت اپنے جد امجد ابی المعین سے کرتے تھے اور نیز با سہل ہارون بن احمد استر آبادی سےسنا اور ان کے کتاب اخیار مکہ وغیرہ کی روایت کی۔ ماہ ذی الحجہ ۳۳۶ھ میں [1] پیدا ہوئے اور کچھ اوپر ۴۳۰ھ میں وفات پائی۔ 1۔ ۳۴۶ھ ’’جواہر المضیۃ‘‘ (مرتب) (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزیدعبید اللہ بن عمر بن عیسٰی القاضی ابو زید الدبوسی: اکابرین فقہائے حنفیہ میں سےگزرے ہیں پہلے پہل علم خلاف کا آپ ہی نے وضع کیا اور اس کا اجراء فرمایا،علم مناظرہ اور استخراج حجج میں ضرب مثل تھے۔مدت تک بخارا و سمر قند میں علمائے فحول سے مناظرے کرتے رہے۔ابن خلکان میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے فقیہ سے مناظرہ کیا،پس جب آپ اس کو الزام دیتے تو وہ مسکراتا یا ہنس دیتا اس پر آپ نے فی البدیہ یہ شعر تصنیف کیے ؎ مالی اذا الزمۃ حجۃ قابلنی با لضحک والقہقہہ ان کان ضحک المرء من فقہہ فالدب فی الصحراء ما افقہہ آپ نے کتاب الاسرار و کتاب تقویم الادلہ اور کتاب امدالاقضی وغیرہ تصنیف کیں اور ایک کتاب فتاویٰ نظم میں لکھی اور بخارامیں ۴۳۰ھ میں وفا۔۔۔
مزیداسحٰق بن ابراہیم بن مخلد بن جعفر بن مخلد: فقیہ فاضل محدث صدوق تھے۔ابو الفضل کنیت تھی۔خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے بھی کچھ تھوڑا سا لکھا،وفات آپ کی ماہ ربیع الاول ۴۲۹ھ میں ہوئی۔آپ کے والد ماجد ابو اسحیق ابراہیم بن مخلد متوفی ۴۱۰ھ بھی فاضل ادیب محدث صدوق صحیح الکتابت حسن النقل جید الضبط تھے لیکن فقہ میں محمد بن جریر طبری کا مذہب رکھتے تھے اور حدیث کو حسین بن یحییٰ قطان وابا عبد اللہ حکیمی اور قاضی احمد بن کامل سے روایت کرتے تھے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزیدحسن بن عبد اللہ بن سینا الملقلب بہ رئیس،حکماء مسلمین میں سے علم و ذکاء فہم و فراست میں یگانہ زمانہ تھے یہاں تک کہ رئیس الحکماء آپ کا لقب تھا،کنیت ابو علی تھی،باپ آپ کا بلخ کارہنے والا تھا جو بخارار میں ہجرت کر کے مقیم ہوا جہاں آپ ۳۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور امام ابی بکراحمد بن عبد اللہ زاہد سے علم پڑھا پھر اسمٰعیل زاہد تلمیذ محمد بن فضل بخاری کے پاس جاتے رہے اور ان سے علوم پڑھے اور مناظرے کیے۔آپ ایام اشتغال علم میں تمام رات کو کبھی نہ ہوئے اور نہ دن کو سوائے مطالعہ کتب کے اور کام میں مشغول ہوئے،جب کوئی مشکل مسئلہ واقع ہوتو تو وضو کر کے جامع مسجد میں نماز پڑھتے اور اس کے آسان ہونے کے لیے خدا سے دعا مانگتے۔ابھی اٹھارہ سال کی عمر کو نہ پہنچے تھے کہ علوم و فنون کی تحصیل سے فارغ ہوئے اور طب میں شفا وغیرہ کتابیں تصنیف کیں اور ۴۲۸ھ۔۔۔
مزیدحسین بن خضر بن محمد بن[1]یوسف نسفی: اپنے زمانہ کے امام فاضل،فقیہ جید محدث ثقہ تھے۔کنیت آپ کی ابو علی تھی،بخارا میں آپ نے امام ابی بکر محمد بن فضل اور ابا عمر و محمد بن محمد بن صابر اور ابا سعید بن خلیل بن احمد سجزی اور بغداد میں ابا الفجل عبید اللہ بن عبد الرحمٰن الزہری اور ابا الھسن علی بن عمر بن محمد ادرکوفہ میں ابا عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن حسین الہروی اور مکہ معظمہ میں ابا الحسن احمد بن ابراہیم اور ہمدان مین امام ابا بکر احمد بن علی بن دلال اور رے میں ابا القاسم جعفر بن عبد اللہ بن یعقوب رازی اور مرو میں ابا علی محمد عمرو مروزی اور ان کے طبقہ سے حدیث کو سنا اور تفقہ کیا،اور آپ سے ایک جم غفیر اور جماعت کثیرہ نے حدیث کو سنا اور روایت کیا۔مدت تک بغداد میں تعلیم و تدریس اور مناظرہ میں مصروف رہے، جب جعفر اسروشنی فوت ہوئے تو آپ کو بخا۔۔۔
مزیدمسعود بن محمد بن موسیٰ خوارزمی: عالم فاضل وحید عصر تھے۔ابو القاسم کنیت تھی فقہ آپ نے اپنے باپ ابی بکر محمد تلمیذ جصاص رازی سےپڑھی اور تمام عمر درس و افادۂ عوام اور افتاء میں مشغول رہ کر ۴۲۳ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید