احمد شہاب بن محمد خفاجی مصری: فرید العصر وحید الدہر انے زمانہ میں بدر سیمائے عالم اور نیز افق نثر و نظم فاضل متفقہ علیہ تھے۔علوم عربیہ اپنے ماموں ابی بکر شنوانی سے پڑھے اور فقہ کو شیخ الاسلام رملی اور نور الدین علی زیادی اور خاتمۃ الحفاظ ابراہیم علقمی اور علی بن قائم مقدسی سے اخذ کیا پھر اپنے والد ماجد کے ساتھ حرمین شریفین میں آئے اور اس جگہ علی بن جاراللہ سے پڑھا پھر قسطنطنیہ کو ارتحال کیا۔حواشی تفسیربیضاوی آٹھ جلد میں،شرح شفاء چار جلد میں،شرح درۃ الغواض حریری،کتاب ریحانہ،رسائل اربعین،حاشیہ شرح فرائض،حواشی رضی،شفاء العلیل فی ما فی کلام العرب من الدخیل،شیعان الادب،طراز المجالس،رسالہ تفسیر آیت وغیرہ کتابیں تصنیف کیں اور ماہ رمضان ۱۰۶۹ھ میں وفات پائی،’’فاضل محسن‘‘ آپ کی تاریخ وفات۔۔۔
مزید
حسن[1]بن عمار المصری الشرنبلانی: ابو الاخلاص کنیت تھی،اعیان فقہاء اور اعلم فضلاء میں سے مشہور زمانہ اور معتبر فی الفتاویٰ تھے،علم عبداللہ نحریری اور محمد محبی اور علی بن غانم مقدسی سے حاصل کیا اور آپ سے ایک جماعت مثل سید احمد حموی اور احمد عجمی اور اسمٰعیل نابلسی وغیرہم نے استفادہ کیا۔بہت کتابیں تصنیف کیں جن میں سے شرح منظومہ ابن وہبان اور درروغرر کے حواشی اور نور الایضاح فقہ میں اور اس کی شرح امداد الفتاح اور اس کا مختصر مراقی الفلاح وغیرہ رسائل ساٹھ سے زیادہ ہیں۔وفات آپ کی ماہِ رمضان ۱۰۶۹ھ میں ہوئی،’’مجموعۂ رشادت‘‘ تاریخ وفات ہے،شرنبلانی بضم شین مع رامہملہ وسکون نون وضم باء موحدہ خلاف قیاس شرابلولہ کی طرف منسوب ہے جو مصر کے نواح میں تاجروں کے ایک شہر کا نام ہے۔ [1] ۔ ملا محمود بن شیخ محمد ب۔۔۔
مزید
مصطفیٰ بن عبداللہ قسطنطنی المعروف بہ کاتب چلپی: قسطنطنیہ میں پیدا ہوئے اور وہیں نشو ونماپایا۔بڑے عالم فاضل،مؤرخ کامل،جامع معقول و منقول تھے تمام عمر درس و تدریس میں مشغول رہے اور حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔کتاب کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون ایسی عمدہ تصنیف فرمائی جو آج تک اپنا ثانی نہیں رکھتی جس میں تمام کتب مصنفہ قبل سلام اور بعد اسلام کے نام مع ان کے مصنفین کے حالات اور تاریخ وفیات کی صحت و تحقیق سے درج فرمائیوفات آپ کی ۱۰۶۷ھ[1]میں ہوئی۔’’مؤرخ سلیم‘‘ تاریخ وفات ہے۔ [1] ۔ ولادت ۱۰۱۷ھ ۲۲ سے زائد کتب تصنیف کیں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
آدم الانطا کی الرومی المعروف بہ ملا خدا وندگار: جلال الدین رومی کے خلفاء میں سے عالم فاضل،عابد زاہد،جامع علومِ صوری اور معنوی،مشہور بہ استاذ تھے اور شہر انطاکیہ میں جو قرمان کےملک میں ساحل بحررومی پر واقع ہے،رہتے تھے، جب سوار ہوتے تھے تو آپکی رکاب میں تقریباً ایک سو مرید وغیرہ ساتھ ہوتے تھے اور باوجود اس کے ہمیشہ عبادت و وعظ میں مشغول رہتے تھے اور مثنوی مولانا روم کو نہایت عمدہ طور سے حل کرتے تھے۔ابتداء میں سخاوت میں بڑی افراط کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کا عطیہ سودینار سے کم نہ ہوتا تھا،اخیر کو حج کے ارادہ سے ماہِ جمادی الاخریٰ ۱۰۶۳ھ کو قاہرہ میں اکر بیمار ہوگئے اور وہیں ماہِ رمضان میں وفات پائی۔ ’’منزلِ فیض الٰہی‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
شیخ محمد فاضل جونپوری: علوم نقلیات و عقلیات میں افضل فضلاء عصر اور مثل علماء دہر،حصور،تقی،حسن الخلق،سلیم المزاج تھے،تمام عمر مسند افادت و افاضت پر متکی رہ کر تعلیم و تدریس میں مشغول رہے۔جب آپ کے تلمیذ رشید ملا محمود مذکور فوت ہوئے تو آپ بھی ان کے غم میں چالیس روز کے بعد ۱۰۶۲ھ میں فوت ہوگئے۔ [1] ۔ فضل بن محمد حمزہ بن محمد سلطان بن فرید الدین بن بہاؤ الدین جونپوری،شیخ عثمان ہرونی کیاولاد سے تھے،ولادت بردولی(دودھ) میں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
شیخ محمد فاضل جونپوری: علوم نقلیات و عقلیات میں افضل فضلاء عصر اور مثل علماء دہر،حصور،تقی،حسن الخلق،سلیم المزاج تھے،تمام عمر مسند افادت و افاضت پر متکی رہ کر تعلیم و تدریس میں مشغول رہے۔جب آپ کے تلمیذ رشید ملا محمود مذکور فوت ہوئے تو آپ بھی ان کے غم میں چالیس روز کے بعد ۱۰۶۲ھ میں فوت ہوگئے۔ [1] ۔ فضل بن محمد حمزہ بن محمد سلطان بن فرید الدین بن بہاؤ الدین جونپوری،شیخ عثمان ہرونی کیاولاد سے تھے،ولادت بردولی(دودھ) میں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مولانا محمود[1]بن محمد فاروقی جونپوری: ہند کے علمائے کبار اور فقہائے نامدار میں سے فاضل اجل،عالمِ اکمل،ادیب اریب اور جونپوری میں رہتے تھے۔جمہ علوم عقلیہ ونقلیہ اپنے جد امجد شاہ محمد اور استاذ الملک شیخ محمد فاضل[2] جونپوری سے حاصل کر کے سترہ سال کی عمر میں تحصیل سے فراغت پائی اور مسند تدریس وافادہ پر متمکن ہوئے۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہےکہ گیارہویں صدی کی ابتداء میں ہندوستا میں دو ہی مجدد ہوئے،ایک شیخ احمد سرہندی اور دوسرے آپ۔کہتےہیں کہ آپ سے تمام عمر یں ایسا کوئی قول صادر نہیں ہوا جس سے آپ نے رجوع کیا ہو۔آپ کی عادت تھی کہ جب کوئی آپ سے کچھ پوچھتا اگر آپ کی طبیعت حاضر ہوتی تو اس کو جواب دے دیتے ورنہ کہہ دیتے کہ کہ میر طبیعت اس وقت حاضر نہیں ہے۔ کتاب شمس بازغہ آپ کی اشہ۔۔۔
مزید
خواجہ محمد اسلم[1] قاضی محمد اسلم والد میر زاہد: عالمِ اجل،فقیہ اکمل،جامع علومِ عقلیہ و نقلیہ تھے،ہرات میں پیدا ہوئے اور طلبِ علم کی غرض سے لاہور میں تشریف لائے ار شیخ بہلول سے جو علمائے کبار میں سے لاہور میں تھے،علوم حاصل کیے،پھر آگرہ میں سلطان جہانگیر کے پاس تشریف لے گئے۔چونکہ آپ مولانا کلاں محدث کے رشتہ داروں میں سے تھے جو بادشاہ کے استاد تھے اس لیے آپ کی بڑی عزت ہوئی اور کابل کی قضاء آپ کے سپرد کی گئی جس کو آپ نے بڑی دیانتداریکی شہرت سے انجام دیا پھر آپ عسکر کے قاضی ہوئے۔جب شاہ جہان تخت نشین ہوا تو اس نے علاوہ قضاء کے ہزاریکا منصب بھی آپ کو دیا اور آپ تیس سال تک نہایت دیانت سےقضاء پر مامور اور سلطانی عنایات کے موردر ہے یہاں تک کہ بادشاہ نے آپ کو میزان[2] میں تُلوایا اور ساڑھے چھ ہزار روپیہ آپ کو دیا۔وفات آپ کی ۱۔۔۔
مزید
مولانا حیدر تلپو بن خواجہ فیروز کاشمیری: بڑے عالم فاضل،فقیہ محدث، صاحب درع اتقاء و متبع سنت تھے۔سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر کےعبادت الٰہی اور ادائے سنن نبوی میں مشغول ہوئے،پہلے بابا نصیب سے علوم پڑھے پھر مولانا جوہرنات سے استفادہ کیا،چونکہ بنونہ تکمیل کو نہ پہنچے تھےکہ آپ کے والد ماجد فوت ہوگئے اس لیے آپ کاشمیر سےدہلی میں آئے اورقدوۃ المتأ خرین شیخ عبد الحق محدث دہلوی سے ظاہری عوم فقہ و حدیث وغیرہ کی تکمیل کی اور صاحب فتویٰ و عالمِ بے نظیر ہوکر کاشمیر کو واپس تشریف لے گئے،ان ایام میں والئ کشمیر نے تین دفعہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر کاشمیر کی قضاء کے لیے آپ کو کہا مگر آپ نے قبول نہ کیا،جب تقاضا شدیدعمل میں آیا تو آپ شباشب کاشمیر سے دوسرے مقام میں چلے گئے جب اور شخص منصب قجاء پر مقرر ہ۔۔۔
مزید
مخدوم شیخ عبد الرشید بن شیخ مصطفیٰ عبد الحمید عثمان: پہلا نام آپ کا محمد رشید تھا اور اسی کو دوست رکھتے تھے اور مراسلات و مکاتبات میں لکھتے تھے،لقب آپ کا شمس الدین تھا،مشاہیر علماء وقت اور اکابر مشائخ زمانہ سے تھے،بعد تحصیل علومِ اصولیہ وفروعیہ کے درس و تدریس میں مشغو رہے،پھر جاذبۂ حقیقی سے اپنے والد ماجد کے مرید ہوکر تمام تعلقات کو ترک کردیا،اکثر کتب حقائق و مارف کو مطالعہ کرتے اور کتب عربی سے بڑا ذوق رکھتے تھے۔شیخ محی الدین کی کتاب اسرار المخلوقات کی عمدہ شرح تصنیف فرمائے۔وفات آپ کی ۱۰۵۵ھ میں ہوئی۔ ’’خواجۂ گیتی‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید