حضرت قاضی عبدالمقتدر دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قاضی عبد المقتدر بن قاضی رکن الدین الشریحی الکندی: عالم،فاضل، فقیہ ادیب،فصیح،بلیغ،جامع علوم نقلیہ و عقلیہ،صاحبِ ظاہرو باطن تھے،قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے آپ سے علم حاصل کیا۔بہت سے قصائد و غزلیات عربی آپ کی تصنیفات سے ہیں،خصوصاً آپ کا وہ قصیدہ جو معارضۂ لامیۃ العجم میں آپ نے کہا ہے،آپ کی کمال فصاحت و بلاغت پر دال ہے۔آپ ہمیشہ تدریس و تنشیر علوم میں مصروف رہے اور اکثرطالب علموں کو تحصیل علم اور حفظ شریعت کی وصیت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ ایک مسئلہ شرعیہ میں فکر کرنا اس ہزار رکعت پر فضیلت رکھتا ہے جو عجب و رویا سے پڑھی جائے۔ کہتے ہیں کہ آپ طالب علمی کے وقت اکثر شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کے پاس جاتے اور ان سے بحث کرتے اور وہ آپ کی بحث کو پسند کرتے اور آپ کو تحصیل علوم کی ترغیب دیتے تھے،یہاں تک کہ آپ بعد تحصیل علوم کے شیخ موصوف کے ۔۔۔
مزید
حضرت مولانا غلام علی آزاد بلگرامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غلام علی بن سید نوح واسطی بلگرامی: حسان الہند لقب اور آزاد تخلص تھا، یکشنبہ کے روز ۲۵؍ماہ صفر ۱۱۱۶ھ[1]میں قصبۂ بلگرام علاقہ صوبۂ اودھ میں پیدا ہوئے۔نسب آپ کا امام زید شہید بن امام زین العابدین تک پہنچتا ہے۔ابتداء شعور میں تحصیل علم کا سر رشتہ ہاتھ میں لاکر کتب و رسیہکو ابتاء سے انتہاء تک حلقۂ درس استاز المھققین میر طفیل محمد بلگرامی میں پڑھا اور کتب لغت و حدیث وسیر نبوی و فنون ادب کو میر عبد الجلیل بلگرامی اپنے جد فاس سے اخذ کیا اور عروض وقانی وغیرہ کو اپنے ماموں میر سید محمد سے حاصل کیا اور سند صحیح بخار اور اجازت صحاح ستہ وغیرہ کی شیخ محمد حیات مدنی اور سماعت بعض فوائد علم حدیث کی شیخ عبد الوہاب طنطاوی سے مکہ معظمہ میں حاصل کی۔طنطاوی نے آپ کے اشعار عربی کی ن ہایت تحسین کی اور جب یہ سنا کہ آپ کا تخلص آزاد ہے تو اس کے معنی سمجھ کر ۔۔۔
مزید
حضرت ابوالفضائل رضی الدین حسن بن محمد قرشی عدوی صغانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حسن بن محمد بن حسن بن حیدر قرشی عدوی عمر ی صغانی: حضرت عمر بن الخطاب کی نسل میں سے تھے۔ابو الفضائل کنیت اور رضی الدین لقب تھا اگر چہ تمام علوم میں ماہر متجر تھے مگر فقہ و حدیث اور لغت میں امام زمانہ و استاد بے نظیر عدم التمثیل تھے۔دمیاطی نے کہا ہے کہ آپ شیخ صالح،فضول کلام سے صات اور حدیث میں صدوق اور لغت و فقہ و حدیث میں امام تھے۔میں نے آپ سے پڑھا آباء و اجداد اپ کے شہر صغان یعنی چغان کے رہنے والے تھے جو ماوراء النہر میں شہر مرو کے پاس واقع ہے مگر آپ ۱۵ ؍ماہ صفر ۵۷۷ھ میں شہر لاہور میں پیدا ہوئے اورغزنہ میں جاکر نشو و نمایا۔ابتداء میں اپنے والد ماجسد سے تلمیز کیا اور فنون کثیرہ واستعداد کاملہ حاصل کر کے ۶۱۵ھ میں بغدا د کو گئے اور وہاں مدت تک تحصیل علوم و تدریس او ر تصنیف میں مصروف رہے۔زان بعد مکہ معظمہ کی زیارت ک۔۔۔
مزید
امام رضی الدین ابو حامد محمد بن احمد بن ضیاء محمد بن علز محمد بن سعید العبری المکی العمری صغانی الاصل: اپنے زمانہ کے امامِ فاضل اور فقیہ کامل تھے۔آپ ابو البقاء محمد بن ضیاء متوفی ۸۴۵ھ کے بھائیاور ضیاء الدین محمد ہندی صغانی متوفی ۷۸۰ھ کے پوتے ہیں۔رمضان ۷۹۰ھ میں پیدا ہوئے۔اپنے والد اور سراج قاری سے تفقہ کیا۔شعبان ۸۵۸ھ میں وفات پائی۔کنز الدقائق نسفی کی شرح لکھی جس کا تکملہ ان کے بیٹے جمال الدین محمد بن محمد بن احمد المعروف محمد المکی متوفی ۸۸۵ھ نے لکھا۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مولوی غلام حسین[1]بن مولوی حسین علی بن شیخ علامہ عبد الباسط قنوجی: فقیہ فاضل،محدث کامل،مفسرِ اکمل،جامع علوم و فنون تھے۔۱۲۲۱ھ میں پیدا ہوئے۔آپ کا تاریخی نام غلام علیم ہے،علوم نقلیہ و عقلیہ شیخ عالم محمد سعادت کان فرخ آبادی مشہور متوکل سےپڑھے اور ۱۲۳۶ھ میں علمِ حدیث و تفسیر کو علامہ محمد ولی اللہ مفتی فرخ آبادی سے اخذ کیا اور براہ بڑدودہ حرمین شریفین کو تشریف لے گئے اور ۱۲۵۵ھ میں حج کر کے شیخ عبد اللہ سراج اور شیخ شمس الدین شطا اور سید عمر آفندی وغیرہ کی صحبت کی پھر مدینہ منورہ کو تشریف لے گئے اور وہاں شیخ محمد عابد سندھی سے صحاح ستہ اور سننِ مشہورہ کی سند حاصل کی اور حضرت عثمان کے قرآن کی زیارت کی اور کتب تصوف میں مشغول ہوئے،جب واپس آئے تو بڑدودہ میں سکونت اختیار کی اور اخیر عمر میں پھر حرمین شریفین کو نہضت فرماہوئے اور حج کر کے بمبئی ۔۔۔
مزید
حضرت شیخ محمد صدیق لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ محمد صدیق بن محمد حنیف بن محمد لطیف لاہوری: عالم فاضل،فقیہ محدث، ادیبِ اریب منشی تھے۔لاہور میں یوم دو شنبہ ۲۹محرم الحرام ۱۱۳۸ھ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد کابل سےآکر مسجد وزیر خاں کے امام ہوئے اور آپ کی والدہ ماجدہ اہل تاشنکد سے تھیں۔جب آپ کی عمر پانچ سال کی ہوئی توآپ کو مولانا محمد عابد صاحب تعلیقات تفسیر بیضاوی کی خدمت میں واسطے بسم اللہ شروع کرانے کے لے گئے،بعد ازاں آپ نے ملّا اسلام سے کلام اللہ پڑھا اور پھر حفظ کیا،بعدہ مختلف اساتذہ مثل مولانا محمد عابد و مرزا مہر اللہ و ملا حفیظ اللہ ومولوی عبداللہ وملا ظہور اللہ ومولانا شہریار وغیرہ سے فقہ وحدیث وغیرہ علوم منقول و معقول کی تکمیل کی اور حدیث کی سند شیخ یحییٰ بن صالح مکی مدرس مسجد الحرام اور شیخ ابو الحسن سندی مدنی مدرس مدینہ منورہ سے ۱۱۷۰ھ میں حاصل کی اور بہت سی کتابیں تصنیف کیں جن می۔۔۔
مزید
خواجہ بہاری: عالم علومِ فقہ و حدیث و تفسیر اور واقفِ اسرار حقانی تھے۔ اوائل میں اپنےشہر حاجی پورے نکل کر واسطے تحصیل علوم کے قصبۂ کودہ پور میں آئے اور شیخ جمال الاولیاء سے عرصہ تک پڑھتے رہے،پھر لاہور میں آکر ملا محمد فاضل لاہور سے مخصلیت کی دستار باندھی اور انہی کے گھر میں سکونت اختیار کی۔ آخر کو حضرت میاں میرے کے مرید ہوکر ان کے اعظم خلفاء میں سے ہوئے۔ وفات آپ کی ۱۰۶۰ھ میں ہوئی اور لاہور میں دفن کیے گئے۔’’معدن فیوض‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
احمد پاشا بن خضر بیگ بن جلال الدین رومی: علم اصول و فروع میں بڑے ماہر متجر اور پرہیز گار و متواضع بھی کامل درجہ کے تھے۔جب سلطان محمد خاں بن سلطان مراد خاں نے قسطنطیہ میں آٹھ مدارس بنوائے تو ایک مدرسہ آپ کو بھی تدریس کے لیے دیا گیا مگر جب آپ کے بھائی سنان پاشا یوسف دعہدۂ قزارت سے معزول ہوئے توآپ کو شہر اسکوب کے مدرسہ پر تبدیل کیا گیا۔پھر جب سلطان با یزید خاں بن محمد خاں تخت نشین ہوا تو اس نے آپ کو ادرنہ کے مدرسہ پر مقرر کیا، بعد ازاں آپ کو بوسا کا قاضی بنایا گیا اور باقی عمروہیں رہے یہاں تک ۹۲۷ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
موسیٰ بن سلیمان جو ز جانی : ابو سلیمان کنیت تھی ۔ عالم فضل ،عارف مذہب ، فقیہ متجر ،محدث حافظ اور معلی بن منصور کے مشارک تھے۔فقہ تو امام محمد سے اخذ کی اور مسائل اصول و امالی لکھا اور حدیث کو عبد اللہ بن مبارک وامام ابو یوسف ونیز امام محمد سے سنا۔ خلیفہ مامون نے آپ کو قضا کے لیے کہا تھا مگر آپ نے انکار کیا اور اسّی سال کے ہو کر بعد ۲۰۰ھ کے وفات پائی آپ کی تصنیفات سے کتاب سیر صغیر اور نوادر یادگار ہیں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
بابا داؤد مشکوٰتی کشمیری: فقہ،حدیث،تفسیر،حکمت،معانی میں ید طولیٰ رکھتے تھے چونکہ مشکوٰۃ المصابیح آپ کو متنا واسناد احفظ تھی اس لیے آپ داؤد مشکوٰتی خطاب سے مخاطب ہوئے،تمام علوم عقلی و نقلی و فنون ظاہری ورسمی خواجہ حیدر چرغی سے حاصل کر کے واسطے کسب رموز باطن کے بابا نصیب لدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدت تک ان کی صحبت سے فیض حاصل کیا اور سلوک و مقامات میں عربی و فارسی تصنیفات کی اور کتاب اسرار الابراسادات عالیشان اور ذیشان کاشمیر کے حالات میں لکھی او اسرار الاشجار اور کتاب منطقل الطیر شیخ عطار کو منظوم کیا نیز خواجہ خاوند محمود نقشبندی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے علوم باطن کا کمال حاصل کر کے ۱۰۹۷ھ میں وفات پائی اور کاشمیر کے محلہ کند پورہ میں متصل عید گاہ کے مدفون ہوئے۔’’محدث زیب کشور‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید