سید علی قومناتی رومی: عالم فاضل،فقیہ کامل،جامع علوم مختلفہ،واقفِ فنون متعددہ تھے اور موضع توقات میں جو روم کے علاقہ مین واقع ہے،رہتے تھے، شرح وقایہ کی شرح عنایہ نام تصنیف کی اور میر ریج کی شرح لکھی۔اخیر آٹھویں صدی میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
علاء الدین الاسود المشہور بقرہ خواجہ: پہلے اپنے ملک کے علماء سے علم پڑھنا شروع کیا پھر بلاد عجم میں کوچ کیا اور وہاں کے علماء وفضلاء سے علم حاصل کیا یہاں تک کہ رتبۂ فضل و کمال کو پہنچے اور اپنے ہم عصروں پر فوقیت حاصل کی بعد ازاں روم میں عہد سلطان اور خان بن عثمان غازی میں آئے،اس نے آپ کو مدرس مقرر کردیا جہاں آپ نے علم کو پھیلایا اور فقہ کی تدریس کی اور علماء وائمہ سے مناظرے کیے۔اثناء تدریس مدرسہ ازنیق میں آپ نے حل مشکلات کتاب و قایہ میں ایک شرح حافلہ کافلہ عنایہ سے تصنیف کی۔ صاحبِ کشف الظنون کہتے ہیں کہ آپ کا نام علی بن عمر تھا اور آپ نے ایک بڑی شرح کتاب مغنی کی بھی تصنیف کی ہے جس کی تصنیف سے ۷۸۷ھ میں فارغ ہوئے اور ۸۰۰ھ میں وفات پائی۔آپ سے آپ کے بیٹے حسن پاشا اور شمش الدین محمد فناری نے علم پڑھا،پھر یہ دونوں مدرسہ مسلسل۔۔۔
مزید
نجم الائمہ بخاری: علمائے کبار و فضلائے نامدار میں سے تھے،آپ کے زمانہ میں بخارا و خوارزم میں فتوےٰ کا مدار صرف آپ ہی پر منحصر تھا،آپ برہان الدین کبیر اور عطاء الدین حمامی اور بدر طاہر کے اقران میں سے تھے،فخر الدین بدیع قزنبی نے آپ سے علم پڑھا۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
عمر بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن نسر بسطامی ثم البلخی: ضیاء الاسلام لقب اور ابو شجاع کنیت تھی۔ماہِ ذی الحجہ ۴۷۵ھ میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ جد اعلیٰ آپ کا بسطا کا رہنے والا تھا جو بلخ میں آکر سکونت پذیر ہوا۔آپ بڑے فقیہ، حافظ،محدث ،مفسر،ادیب،شاعر،کاتب،حسن اخلاق اور صاحب ہدایہ کے استاد تھے،آپ کو اجازت عالیہ حاصل تھی اور تمام علوم میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ عبدالکریم بن محمد سمعانی شافعی نے اپنی کتاب انساب میں آپ کے حال میں لکھا ہے کہ میں نے آپ سے مرو بلخ و ہرات و بخاراو سمر قند میں حدیث کو سُنا اور استفادہ کیا۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
اشرف بن ابی الوجاح محمد بن امام ابی شجاع سید محمد: فروع واصول اور حسن طریقہ میں امام مشہور تھے،فقہ اپنے باپ سے پرھی اور یہاں تک کوشش کی کہ متعدد علوم میں فائق اور معاملات مذہب و خلاف میں عالم فاضل ہوکر استاذ کل ہوئے۔قاضی بلادروم عبد المجید بن اسمٰعیل متوفی ۵۳۷ھ اور علاؤ الدین محمد بن عبد المجید سمر قندی وغیرہ نے آپ سے فقہ حاصل کی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
اشرف بن ابی الوجاح محمد بن امام ابی شجاع سید محمد: فروع واصول اور حسن طریقہ میں امام مشہور تھے،فقہ اپنے باپ سے پرھی اور یہاں تک کوشش کی کہ متعدد علوم میں فائق اور معاملات مذہب و خلاف میں عالم فاضل ہوکر استاذ کل ہوئے۔قاضی بلادروم عبد المجید بن اسمٰعیل متوفی ۵۳۷ھ اور علاؤ الدین محمد بن عبد المجید سمر قندی وغیرہ نے آپ سے فقہ حاصل کی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
عبدالعزیز بن عمر بن مازہ: اپنے زمانہ کے امام فاضل فقیہ کامل تھے،ابو محمد کنیت تھی،برہان الائمہ اور برہان الالدین کبیر اور صدر الماضی اور صدر الکبیر آپ کے لقب تھے،ان لقبوں سے ملقب ہونے کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ ۴۹۵ھ میں سلطان سنجر بن ملک شاہ سلجوقی نے آپ کو بخارا کی طرف کسی مہم کے لیے بھیجا تھا اور اس مہم کانام صدر رکھا تھا اس لیے صدر کے لقب سے مشہور ہوئے۔علوم آپ نے امام سر خستی تلمیذ حلوائی سے اخذ کیے اور آپ سے آپ کے دونوں بیٹوں صدر السعید تاج الدین احمد و صدر الشہید حسام الدین عمراور ظہیر الدین کبیر علی بن عبدالعزیز مر غینانی وگیرہ نے تفقہ کیا۔برہان الاسلام زرنوجی نے کتاب تعلیم المتعلم میں اپنے شیخ صاحب ہدایہ سے حکایت کی ہے کہ عبدالعزیز بن عمر نے اپنے دونوں بیٹوں مذکورہ بالا کا سبق سب طلباء سے پیچھے دوپہر کے وقت مقرر کیا تھا جس پر وہ دونوں شکایت کیا کرتے تھے کہ اس وقت ہماری طبیعتیں سست ۔۔۔
مزید
عافیت بن یزید بن قیس۱ الا زدی کوفی : امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے آپ بڑے فقیہ دانااور محدث صدوق تھے یہاں تک کہ امام موصوف آپ کے وجود سے بڑےنازاں تھے اور آپ کی تعظیم و تکریم میں بڑا مبالغہ کیا کرتےتھے اور جب تک آپ سے مشورہ نہ لیتے کوئی بات اپنی کتابوں میں ملحق نہ کرتے اور اپنے اصحاب کو حکم دیتے کہ اب اس مسئلہ کو لکھ لو ۔ آپ نے امام اعمش اور ہشام بن عروہ سے بھی حدیث کی روایت کی،مدت تک کوفہ میں قاضی مقرر ہے اور ۱۸۰ھ میں وفات پائی ۔نسائی نے آپ سے تخریج کی ۔’’امام زماں‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔ ۱ اودی ۲ سعد بن عینہ ’’جواہر مضیہ ‘‘(مرتب) (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
شریک بن عبد اللہ کوفی۔کنیت آپ کی ابو عبد اللہ تھی اور ان علمائے کرام میں سے تھےجنہوں نے ابو حنیفہ کی صحبت اختیار کی اور ان سے روایت کی ، امام موصوف آپ کو کثیر العقل سے موصوف کیا کرتےتھے ۔آپ نے امام اعمش اور ابن شیبہ سے بھی حدیث کو سنا اور آپ سے عبد اللہ بن مبارک اور یحٰی سعید نے روایت کی۔ تقریب التہذیب میں لکھا ہے کہ آپ اور اہل ہوا اور بدعت پر بڑے سخت گیر تھے۔ جب کوفہ کی قضا کے متولی ہوئے تو آپ کا حافظ متغیر ہو گیا اور اکثر خطا کرنے لگے ۔وفات آپ کی ۱۷۷ھ یا ۱۷۸ھ میں ہوئی اور امام مسلم و ابو داؤد ترمذی و نسائی دابن ماجہ نے اپنی اپنی سنن میں آپ سے تخریج کی ۔’’کوہ علوم ‘‘آپ کی تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
لیث بن سعد بن عبد الرحمٰن فہمی :ابو الحارث کنت تھی،فقہ و حدیث میں امام اہل مصر ثقہ سری تھے ۔ اصل میں اصفہان کے باشندہ اوت قیس بن رفاعہ مولیٰ عبد الرحمٰن بن خالد بن مسافر فہمی کے مولیٰ تھے ۔آپ کٍا قول ہے کہ میں نے محمد بن شہاب زہری کےعلم سےعلم کثیر لکھا ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ آپ امام مالک سے افقہ تھے مگر اصحاب آپ کے ساتھ قائم نہ ہوئے۔ آپ عطاءوخلف اورابن ملیکہ نافع ابن مولیٰ عمر سے روایت کرتے تھے اورآپ سےشعیب اور ابن مبارک نے روایت کی۔بڑے سخی و کریم تھے یہاں تک کہ سال بھر میں آپ کو پانچ ہزار دینار کی آمدنی تھی مگر زکوٰ ۃ آپ پر واجب نہ ہوتی تھی کیونکہ آپ کا دستو تھا کہ ہر روز جب تک آپ تین سو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا نہیں لیتے تھے تو آپ روٹی نہیں کھاتے تھے۔ تاریخ خلکان میں لکھا ہے کہ میں نے بعض مجامیع میں لکھا دیکھا ہے کہ آپ حنفی المذہب تھے اور مصر کی قضا آپ کو تفویض تھی ، اما۔۔۔
مزید