احمد قادری، مُفتیِ اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سیّد
اسمِ گرامی: احمد۔
کنیت: ابوالبرکات۔
لقب: مُفتیِ
اعظم پاکستان۔
نسب:
مُفتیِ اعظم پاکستان حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمدقادری نسباً
سیّد ہیں۔ آپ سلسلۂ نسب اِس طرح ہے:
ابوالبرکات
سیّد احمد قادری بن سیّد دیدارعلی شاہ بن سیّد نجف علی شاہ۔
آپ کے جدِّ اعلیٰ سیّد خلیل شاہ
’’ مشہد ِمقدس‘‘ سے ہندوستان تشریف لائے اور’’ریاستِ اَلور‘‘ میں قیام پذیر ہوئے
۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام موسیٰ رضا تک
پہنچتاہے ۔
ولادت:
آپ 1319ھ بمطابق 1901ء کو بمقام (محلۂ نواب پورہ،ضلع اَلور
صوبۂ آندھر ا پردیش، انڈیا) میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم:
جس طرح آپ کا تعلق ایک عظیم علمی خاندان سے ہے، اسی طرح آپ
کی تربیت بھی نہایت مہتم بالشان طریقے سے ہوئی، قرآنِ مجید اَلور ہی کے حافظ
عبدالحکیم، حافظ عبدالعزیز اور حافظ قادر علی سے پڑھا۔ صرف و نحو کی ابتدائی کتب علامہ سیّد ظہور اللہ سے اور اکثر کتب اپنے
والدِ ماجد سے پڑھیں، فنون کی انتہائی کتب قاضی مبارک، حمداللہ، افق المبین، صدرا،
شمس بازغہ اور شرحِ عقائد نسفی وغیرہ، جمیع کتبِ احادیث اور کتبِ طب مرادآباد میں
حضرت صدرالافاضل مولانا سیّد محمد نعیم الدین
مرادآبادی(رحمۃ اللہ تعالٰی
علیھم)سے پڑھیں اور 1919ء میں مرادآباد سے ہی سندِ فراغت و دستارِ
فضیلت حاصل کی۔
بیعت وخلافت:
آپ کو بیعت و خلافت شیخ المشائخ شبیہ ِ غوث
الاعظم حضرت علامہ سیّد شاہ علی حسین اشرفی المعروف بہ ’’اشرفی
میاں‘‘ سے
حاصل تھی۔
امام ِاہلِ سنّت سے سندات کا حصول 1919ء میں آپ امام ِاہلِ سنّت مولانا
الشاہ احمد رضا خان کی خدمت میں حاضر ہوکر اُن کی صحبت میں رہے اور آپ
کے حکم پر فتویٰ نویسی کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ اعلیٰ حضرت نے آپ کو جمیع عُلوم و فنون کی سند اور وظائف و
خلافتِ عامّہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔
سیرت وخصائص:
رئیس المحققین،سند المدرسین ،خلیفۂ اعلیٰ حضرت،مُفتیِ اعظم پاکستان حضرت
علامہ ابولبرکات سیّد احمد القادری اشرفی نعیمی رضوی الوری۔ حضرت مُفتیِ اعظم پاکستان کی ساری زندگی
تبلیغِ دین اور علومِ عربیہ کی تدریس میں گزری اور سیکڑوں تشنگانِ علم نے سیرابی
حاصل کی۔ آپ کے تلامذہ میں ایسے حضرات بھی ہیں جو آسمانِ
شہرت پر آفتاب و ماہ تاب بن کر چمکے،اور مسلکِ حق اہلِ سنّت وجماعت کے فروغ اور ترقی میں اہم کردار اداکیا۔ایک عرصے
تک والدِ ماجد کے ساتھ آگرہ میں مقیم رہ کر درس و تدریس میں مصروف رہے اور بعد میں
انہیں کے ہمراہ لاہور پہنچے،اور تدریس و تعلیم میں مشغول ہوئے،1354ھ میں والدِ
ماجد کی وفات کے بعد ’’دار العلوم حزب الاحناف‘‘ (لاہور) کے رئیس اور شیخ الحدیث
مقرر ہوئے۔علومِ متداولہ میں مہارتِ تامّہ آپ کو ابتداہی سے حاصل تھی۔ جب آپ
مسندِ تدریس پر رونق افروز ہوئےتودور دراز شہروں سے باذوق طلبہ نے ہجوم در ہجوم آ کر
آپ سے اخذِ علوم کیا۔اِس وقت پاکستان کے اکثر علما آپ کے سلسلۂ تلمذ سے وابستہ
ہیں۔ آپ کی ذاتِ قدسی صفات مرجعِ علما وفضلا اور پاکستان میں اسلام کا مستحکم ستون ہے۔ درس وتدریس کے علاوہ خطبات میں بھی آپ کو کمال
حاصل تھا۔ ترویج واشاعتِ مذہبِ اہلِ سنّت اور اَدیانِ باطلہ
وہابیوں،دیوبندیوں،مرزائیوں کی تردید وظیفۂ زندگی رہا۔سعودی فتنۂ انہدامات
مقابرِ مقدّسہ کے زمانۂ نجدی نظریات وعقائد پر آپ تنقید فرمارہے تھےکہ ایک نجدی
العقیدہ شخص نے خنجرِ جفا سے آپ پر حملہ کردیا، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ
رکھا۔آپ نے دیوبندیوں کے’’حکیم الامّت مولوی اشرفعلی تھانوی‘‘ کو لاہور میں مناظرے کے لیے للکارا مگر
اس کو شیرِ اہلِ سنّت کے سامنے آنے کی
جرأت نہ ہوئی۔
ادبی خدمات:
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت نے جب فتاوٰی رضویہ کی جلدِ اوّل
کے چھپوانے کا اہتمام فرمایا تو اس کی نظرِ ثانی اور طباعت کی مکمل ذمّے داری آپ پر ہی رکھی گئی تھی۔بہارِ شریعت کے ابتدائی حصے آپ نے تصحیح کے
ساتھ طبع کرئے۔اسی طرح سنیّوں کا تاریخی رسالہ ’’ماہ
نامہ سوادِ اعظم مرادآباد‘‘ کا پہلا
شمارہ آپ کی زیرِ ادارت شائع ہوا۔
دینی وسیاسی تحریکات میں حصّہ:
آپ ’’آل انڈیا سنّی
کانفرنس‘‘ کےبانیان میں سے تھے۔تحریکِ پاکستان میں بھرپور طریقے سے حصّہ لیا۔1953
میں ’’تحریکِ ختمِ نبوّت‘‘ لاہورکاعظیم الشان جلوس آپ کی قیادت میں نکلا تھا۔محبّتِ
مصطفیٰ ﷺاور عظمتِ مقامِ مصطفیٰ ﷺکے جرم میں ایک عرصے تک قید میں رہے۔
وصال:
20؍ شوّال المکرم1398ھ،مطابق24؍ستمبر 1978ءکوعلم و عمل کا
یہ پیکر اِس دارِ فانی سے رخصت ہو گایا۔ آپ کی رحلت سے علمی دنیا میں کبھی نہ پُر ہونے والا خلا پیدا ہوگیا۔
مزارِ مبارک:
آپ کی قبرِ اَنور دارلعلوم حزب
الاَحناف لاہور میں ہے۔
مآخذ و مراجع:
تعارف علمائے اہلِ سنّت۔
تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت۔
روشن دریچے۔