یوسف سہالوی فرنگی محلی، علامہ مفتی محمداسمِ گرامی: محمد یوسف۔نسب: حضرت علامہ مفتی محمد یوسف سہالوی فرنگی محلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا سلسلۂ نسب یہ ہے:مفتی محمد یوسف بن مفتی محمد اصغر بن مفتی ابی الرحیم بن مولانا محمد یعقوب بن مولانا عبد العزیز بن مولانا سعید بن مولانا قطب الدین الشہید السہالوی(رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین)۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آبا و اَجداد اپنے وقت کے جیّد علمائے کرام اور اجلّہ مشائخ تھے۔ آپ کے دادا مفتی ابی الرحیم، جو ستاسی (۸۷)سے زائد کتب کے مصنّف تھے، باندہ میں ذیقعدہ ۱۲۶۴ھ کو پیدا ہوئے تھے اور اُن کی وفات لکھنؤ میں ۱۹؍ربیع الاوّل ۱۳۰۴ھ،کو ہوئی۔ (تذکرہ علمائے ہند)ولادت:آپ کی ولادت باسعادت 1223ھ/بمطابق 1808ء کو ہوئی۔تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم سے ۔۔۔
مزیدحضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی علیہ الرحمۃ نام ونسب: اسمِ گرامی: خواجہ محمد قاسم۔ لقب:باواجی۔علاقہ موہڑہ شریف کی نسبت سے "موہڑوی"کہلاتے ہیں۔والدکااسمِ گرامی:جناب سلطان جیو خان علیہ الرحمہ۔آپ کانسب سلاطینِ ایران کےکیانی خاندان سے ملتا ہے۔آپ کے جد امجد عہد عالمگیرمیں برصغیرتشریف لائے۔آپ کے جد امجد اور والد گرامی کا معمول تھا کہ پنجاب سے سامان تجارت لے کر کشمیر جاتے اور راستے میں پہاڑی علاقوں میں تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرتے رہتے۔ تاریخِ ولادت: آپ کاسنِ ولادت تقریباً 1845ءہے۔ تحصیلِ علم: حضرت خواجہ صاحب کے والد ماجد بچپن میں ہی داغ مفارقت دے گئےتھے۔ہوش سنبھالنے پر والدہ ماجدہ نے تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور علوم دینیہ کی تحصیل کے لئے ہندوستان بھیجا جہاں آپ نے اس دور کے مشہور فضلاء سے استفادہ کیا اور تقریباً1276ھ؍1860ء میں تکمیلِ علوم کے بعد واپس تشریف لائے اور راولپ۔۔۔
مزیدحضرت شیخ فتح علی موصلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صاحب ہمت اور عالی قدر بزرگ تھے ورع و مجاہدہ میں مقتدر تھے اپنی ذات پر اللہ کا خوف اور کیفیت حزن طاری رکھتے تھے۔ ہمیشہ گریاں رہتے۔ مخلوق خدا سے علیحدگی کا یہ عالم تھا کہ اپنے احوال کو چھپانے کے لیے اپنے ہاتھ میں چابیوں کا ایک گچھا لٹکائے رکھتے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ آپ بہت سے صندوقوں کے مالک ہیں۔ جہاں جاتے چابیاں اپنے سامنے رکھا کرتے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ کیا ہیں ایک دن ایک صاحب دل نے پوچھا کہ ان چابیوں سے کیا کرتے ہو فرمانے لگے جس دن سے میں نے چابیاں اٹھائی ہوئی ہیں۔ چوروں کی چوری سے چھوٹ گیا ہوں۔ حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات حضرت خواجہ سری سقطی کے گھر سویا ہوا تھا۔ رات کا ایک حصہ گزرا تھا۔ تو حضرت خواجہ پاکیزہ کپڑے پہنے کندھوں پر چادر اوڑھے باہر نکلے۔ میں نے پوچھا۔ اس وقت آپ کہاں جا رہے ہیں، کہنے لگے: حضرت فتح موصلی ب۔۔۔
مزیدحضرت خواجہ حسن عطار رحمتہ اللہ تعالٰی آپ خواجہ علاؤالدین عطارؒ کے فرزند ہیں۔آپ کی ولایت کے شجرہ کا ثمرہ جذبہ قویٰ رکھتا تھا۔جذبہ کی صفت سے جس میں چاہتے تھے تصرف کیا کرتے تھے"اور اس کو اس جہان کے حضور اور شعور کے مقام سے بے خودی اور بے شعوری کے مقام تک پہنچادیتے تھے۔بعض اہل سلوک کو جو ذوق غیبت فنا بہت سے مشاہدہ کے بعد بھی اتفاقاً ہوا کرتا ہے چکھا دیا کرتے تھے۔تمام مادراء النہر خراسان کے علاقہ میں آپ کے تصرف کی کیفیت طالبین اور زائیرین میں مشہور تھی۔جو شخص آپ کے ہاتھ پر بوسہ دیتا"وہ گر پڑتا۔اس کو غیبت بے خودی کی دولت حاصل ہو جاتی۔ایسا سنا گیا ہے کہ ایک دن صبح کے وقت آپ گھر سے باہر نکلے۔آپ پر کیفیت غالب ہوئی۔جس شخص کی نگاہ آپ پر پڑتی سب کو بے خودی کی کیفیت ہوتی"اور گر پڑتا۔ایک درویش سفر مبارک کے ارادہ سے ہرات میں پہنچا"اس پر جذبہ غیبت بے خودی حیرت کے آثار ظ۔۔۔
مزیدحضرت مولانا قاری محمد طفیل نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قاری محمد طفیل نقشبندی بن حاجی عبدالرحمن ۱۹۰۵ء کو امر تسر (پنجاب ، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حاجی عبدالرحمن نقشبندی مجددی جماعتی ، امیر ملت حضرت مولانا پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری رحمۃ اللہ علیہ (علی پور شریف ضلع نارووال ، پنجاب) کے مرید اور خلیفہ تھے۔ حیدرآباد (سندھ) میں ان کا وصال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔ جدامجد حاجی اللہ رکھا جنت المعلیٰ قبرستان مکہ مکرمہ میں مدفون ہوئے۔ تعلیم و تربیت : قاری صاحب نے دس سال کی عمر میں ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم قاری کریم بخش شاگرد قاری عبدالخالق سہارنپوری ، قاری خدا بخش اور قاری ظفر علی سے حاصل کی۔ روایت حفص قاری عبدالرزاق لکھنوی سے حاصل کی ۔ جنگ جرمن (۱۹۳۹ء سے لے کر ۱۹۴۱ء تک) کے عرصے میں قاری صاحب حرمین شریفین میں رہے اور مدینہ من۔۔۔
مزیدحضرت مولانا مفتی محمد لطف اللہ علی گڑھی علیہ الرحمۃ پلکھنہ ضلع علی گڈھ کےساکن، مولوی محمد اسد اللہ کے بیٹے، محمد لطف اللہ نام، ۱۲۴۴ھ میں ولادت ہوئی، والد نے ‘‘چراغم’’ مادۂ تاریخ کہا، حضرت شاہ جمال علی گڈھی سےنسلی مولانا عنایت وابستہ ہے، ابتدائی درسیات مقامی معلموں سےپڑھیں، کان پور مدرسۂ فیض عام میں مولانا عنایت احمد سےتکمیل علوم کی ۱۲۷۸ھ میں اُستاذ نےاُن کو مدرسہ کا مدرس دوم مقرر کیا، خود حجکی نیت سےجاتے ہوئے جدہ کے قریب غریق بحر رحمت ہوئے، مفتی صاحب نے سات برس تک مدرسہ فیض عام میں درس دیا، اسی سنہ میں مدرسہ جامعہ مسجد علی گڈھ میں بحیثیت مدرس اول تقرر ہوا، فارغین کی پہلی جماعت میں حضرت اُستاذ زمن مولانا شاہ احمد حسن کانپوری جیسے اکابر عالم تھے، غیر مقلد مولوی اسماعیل علی گڑھی سےتحریری مناظرہ رہا۔ ۱۳۱۲ھ میں دائی ریاست حیدر آباد کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے، اور صد۔۔۔
مزید