آپ نے حضرت حافظ سعد اللہ مجددی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سلسلہ نقشبندیہ میں خرقہ خلافت حاصل کیا آپ صاحب کرامت ولی اللہ تھے اللہ تعالیٰ کے نیک برگزیدہ اور مقبول بندے تھے مخلوق خدا کی رشد و ہدایت کے لیے بہت کام کیا اور طالبان حق کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے کے لیے ان کی روحانی تربیت کی درس و تدریس کے ذریعے ظاہری و باطنی تعلیم سے خلق خدا کو مستفید کیا۔ کرامات: آپ کافی عرصہ تک افغانستان کے مختلف شہروں میں بزرگوں سے فیوض و برکات حاصل کرتے ہوئے افغانستان کے باہر کے ممالک میں بھی سیر و سیاحت کی غرض سے تشریف لے گئے اس دوران آپ نے حج بھی کیے حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت حاصل کی پھر جب لاہور تشریف لائے تو لاہور کے محلّہ عبد اللہ واڑی میں سکونت پذیر ہوئے اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھوڑے ہی عرصہ میں لوگوں کے دلوں میں آپ کی عقیدت و محبت پیدا ہوگئی تھی چنانچہ جب احمد شاہ ابدالی نے ہندوست۔۔۔
مزید
حضرت شیخ سعدی بلخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا شمار اپنے وقت کے مشہور اولیاء کرام میں ہوتا ہے آپ حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ تھے اور ظاہری و باطنی علوم میں آپ کو درجہ کمال حاصل تھا صاحبِ کرامت ولی اللہ تھے بچپن سے ہی آپ سے ولایت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے آپ کے حالاتِ زندگی کے متعلق بہت سے بزرگوں نے کتب میں تحریر کیا ہے آپ نقشبندی سلسلہ طریقت کے عابد و زاہد بزرگ تھے اور مقامات عالیہ پر فائز تھے۔ آپ نے بہت سے مجاہدے اور ریاضتیں کی تھیں۔ بچپن کا واقعہ: جناب شرف الدین مجددی کشمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی تصنیف ’’روضۃ السلام‘‘ میں حضرت شیخ سعدی بلخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حالات زندگی خود ان کی زبانی تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان فرماتے تھے کہ میری عمر تقریباً آٹھ برس کی ہوگی کہ میں اپنے گاؤ۔۔۔
مزید
آپ کی ولادت باسعادت بخارا میں ہوئی آپ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے آپ کے بزرگوں کا سلسلہ حضرت خواجہ علاء الدین عطار نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ اعظم حضرت بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ ظاہری و باطنی علوم کا حصول: آپ نے ابتدائی تعلیم بخارا کے مدرسہ سلطانی میں حاصل کی بارہ سال کی عمر میں آپ قرآن حکیم حفظ کر چکے تھے جب کہ چودہ سال کی عمر میں تمام دینی علوم میں درجہ کمال حاصل کرلیا تھا علمائے وقت آپ کی علمی قابلیت کے زبردست معترف تھے اور آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔ ’’تاریخ لاہور‘‘ میں تحریر ہے کہ حضرت خواجہ خاوند محمود نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے بخارا کے شاہی کالج میں بھی تعلیم حاصل کی تھی اور نمایاں پوزیشن سے بہرہ ور ہوئے۔ چونکہ آپ علوم ظاہری کی تکمیل کرچکے تھے اور طبیعت پہلے ہی تصوف کی طرف مائل تھی اس لیے اب یکسوئی سے باطنی تعلیم کے حصول کی طرف ۔۔۔
مزید
آپ نے پہلے فوج میں بھرتی ہونے کی بہت کوشش کی۔ چنانچہ اسی غرض سے سیالکوٹ۔ ہانسی۔ بھرت پور۔ کانپور گئے۔ مگر سب جگہ سے ناکام واپس آئے۔ آخر انبالہ میں حضرت صاحب سے بیعت ہوئے۔ حضرت صاحب نے آپ کا نام تبدیل کر کے عبد الکریم رکھا۔ آپ نے حضرت صاحب کی خدمت ایسی کی ہے کہ شاید کوئی کرتا۔ حضرت صاحب بیت الخلا میں تشریف رکھتے ہیں۔ مغلی شاہ لوٹا لیے کھڑے ہیں۔ گھنٹے گزر گئے۔ پاؤں سوج گئے۔ زخم پڑ گئے۔ اور دل میں یہ خواہش کہ جو کام ہو وہ میں ہی کروں اور میاں صاحب مجھ سے ہی لیں۔ جناب مولوی حاجی سید ظہور الدین صاحب انبہٹوی نے آپ کا حال یوں تحریر فرمایا ہے۔ بھائی مغلی شاہ خاص خادم تھے۔ استنجاء اور وضو کے لیے پانی لانا ذرا بدن دبانا ان کی خدمت تھی۔ رات بھر جاگتے تھے۔ آپ کو حضور سے اس قدر محبت تھی کہ مسواک دماغ میں زور زور سختی سے مار کر خون نکال لیتے تھے تاکہ آنکھ نہ لگ جائے۔ اللہ اکبر! مغلی شاہ جب آئے۔ ت۔۔۔
مزید
آپ حضرت صاحب کے شیدائیوں میں سے تھے۔ حضرت صاحب نے بار ہا فرمایا۔ کہ یوسف شاہ! تو لوگوں کو اللہ کا نام بتایا کرو۔ اور کرتہ اور لونگی بھی مرحمت فرمائی۔ اور اکثر چھاؤنی انبالہ کے لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ تم یوسف شاہ کی صحبت میں بیٹھا کرو۔ مگر آپ بوجہ انکسار کسی کو بیعت نہ کرتے تھے۔ آپ خانقاہ شریف کے متولی تھے۔ اور ہر سال حضرت صاحب کا ختم شریف نہایت عمدگی سے کراتے تھے۔ (مشائخ نقشبند) ۔۔۔
مزید
آپ نے اپنا حال خود اپنے قلم سے یوں تحریر فرمایا ہے: اس خاکسار کو اجازت بیعت وکالتاً ہے۔ چنانچہ دہلی اور ٹھسکہ میرا نجی میں اکثر زن و مرد نے اس خاکسار کے ہاتھ پر وکالتاً بیعت کی۔ اور ذکر و شغل وغیرہ کی تلقین کی اجازت اصالتاً ہے۔ اس عاجز کو حضور نے پہلے عالم رؤیا میں ۱۸۷۲ء میں دہلی میں اور ۱۸۷۳ء میں لاہور میں بیعت کیا۔ پھر عالم ظاہر میں انبالہ میں بیعت کیا۔ یہ بندہ مثل یوسف علی صاحب اور حکیم جی (معز الدین) کے حضور میاں صاحب کا منظور نظر تھا۔ حضور اکثر میری گستاخی کو بھی معاف کر دیتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اس کی باتیں مستانہ ہیں۔ میاں صاحب کی حالت جلال میں سب اُٹھ کر بھاگ جاتے تھے۔ مگر بندہ بیٹھا رہتا تھا۔ عرصہ ۲۵ سال سفر میں و حضر میں حضور کے ہمراہ رہا۔ اور ۱۸۹۳ء سے بہ سبب ملازمت مدرسی تین سال کامل حضور انور سے توجہ لی۔ لطائف خمسہ ولایت صغریٰ اور موسوی و محمد ولایت کا فیض بھی فقیر پر۔۔۔
مزید
آپ قاری خوش الحان اور پابند اوراد ہیں۔ حضرت میاں صاحب قبلہ نے اپنے مرض موت میں آپ کو اللہ کا نام بتانے کی اجازت دی جیسا کہ خود آپ نے ہی اپنی کتاب کمالات توکلی (کمال ۷۱) میں لکھا ہے۔ انبالہ میں لوگ آپ سے مرید ہیں اور فیض جاری ہے۔ (مشائخ نقشبند) ۔۔۔
مزید
آپ نے بارہ برس کی عمر میں حاجی دوست محمد قندھار خلیفہ جناب شاہ احمد سعید صاحب مجددی دہلوی سے بیعت کی تھی۔ حضرت حاجی محمود جالندھری قدس سرہ سے فیض اٹھایا۔ مگر زیاد فیض حضرت میاں صاحب قبلہ سے ہوا۔ آپ میاں صاحب علیہ الرحمۃ پر جان و مال قربان کرنے والے۔ ذاکر شاغل۔ رقیق القلب تھے۔ مزاج پر جلال غالب تھا۔ میاں صاحب نے آپ کے حق میں فرمایا تھا کہ تجھے دین و دنیا دونوں ملیں گے۔ چنانچہ ابتداء میں آپ پر کچھ عسرت و تنگی معاش رہی۔ مگر آخر میں خوب ترقی ہوئی۔ ان کا مرقد انبالہ ہی میں ہے۔ (مشائخ نقشبند)۔۔۔
مزید
آپ کا وطن موضع سیدا تحصیل پھالیہ ضلع گجرات پنجاب تھا۔ علوم دینیہ کی تحصیل کے لیے آپ ہندوستان گئے۔ اور فارغ التحصیل ہوکر مدرسہ اسلامیہ کرنال میں مدرس مقرر ہوئے۔ حضرت صاحب کے فقر کا آواز ہ سن کر کرنال سے حاضر خدمت ہوئے۔ اور بیعت ہوکر واپس چلے گئے۔ پھر تین مہینے کے بعد ملازمت سے مستعفی ہوکر انبالہ چلے آئے۔ یہاں آپ کے آنے پر مدرسہ توکلیہ جاری ہوا۔اور آپ گیارہ برس حضرت صاحب کی خدمت میں رہے۔ آپ سے نواحی گجرات میں بہت فیض ہوا اور بہت سے لوگ مرید ہوئے۔ آپ نے حضرت صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حالات میں کتاب ذکر خیر لکھی ہے۔ رمضان ۱۹۱۷ء میں آپ کا وصال ہوا۔ (مشائخ نقشبند)۔۔۔
مزید
آپ مردوجیہ۔ ذاکر شاغل۔ عالم با عمل تھے۔ پنجاب میں آپ سے فیض جاری ہوا۔ اور بہت سے لوگ آپ سے مرید ہوئے۔ (مشائخ نقشبند)۔۔۔
مزید