بدھ , 26 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Wednesday, 17 December,2025

پسنديدہ شخصيات

قاسم بن معن

    قاسم بن معن بن عبد الرحمٰن مسعود الصحابی الہذ لی کوفی ۔ کنیت آپ کی ابو عبد للہ تھی ۔ آپ حدیث میں ثقہ فاضل اور فقہ و عربیت و لغت و شعر میں امام کامل اور سخا و مروت وزبد میں بے نظیر تھے اور امام ابو حنفیہ کے ان اصحاب میں سے تھے جن کے حق میں امام موصوف انتم مسار قلبی و جلاء حزنی کے کلمات فرمایا کرتے تھے ۔ابو حاتم کہتے ہیں کہ آپ ثقہ صدوق اور مکثر الروایت تھے ۔حدیث کو اعمش وعاصم بن احول و عبد الملک بن عمیر و منصور بن معتمر و طلحٰہ بن یحٰی و داؤد بن بی ہندو محمد بن عمر وبن علقمہ وہشام بن عروہ اور یحٰی بن سعید وغیرہم سے روایت کیا اور آپ سے ابی ہندو محمد بن عمرو بن نصر جہضمی کبیر و عبد اللہ بن ولید عدنی و ابو غسان نہندی وابو نعیم بن وکین اور اصحاب سنن نے روایت کی اور لیث بن مظفر نے نحو لغت آپ سے پڑھی ،بعد شریک بن عبد اللہ کے آپ کوفہ کے قاضی بنے اور بسبب تقوے کے بغیر تنخواہ کے قضا کا ۔۔۔

مزید

سیّدنا مخشی بن حُمَیرَّ الاشجعی رضی اللہ عنہ

انصار میں سے بنو سلمہ کے حلیف تھے۔ منافق تھے اور اُن لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے مسجد ضرار تعمیر کرائی تھی۔ یہ اس اسلامی لشکر میں جو تبوک گیا تھا۔ شامل تھے اور خود حُضور اکرم اور مسلمانوں کے بدترین مخالف تھے۔ بعد میں تائب ہوگئے اور بڑے اچھے طریقے سے تلافی مافات کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کا نام بدل دیا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر عبد اللہ بن عبد الرحمٰن کردیا۔ خود انہوں نے اللہ سے دعا کی، کہ شہادت نصیب ہو، اور بعد از وفات اُنہیں کوئی نہ ڈھونڈھ سکے۔ چنانچہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے اور ان کی میت نہ مل سکی۔ ابو عمر اور ابو موسیٰ نے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ ۔۔۔

مزید

نصیر الدین شہداد کوٹی

میاں نصیر الدین شہداد کوٹی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  مولانا حافظ میں نصیر الدین اول بن میاں عبدالحلیم ۱۲۹۸ھ کو گوٹھ کنڈو بلوچستان میں تولد ہوئے۔ حضرت غوث الزمان علامہ مفتی غلام صدیق شہداد کوٹی قدس سرہ الاقدس کے رشتہ میں بھانجے تھے۔تعلیم و تربیت:میاں نصیر الدین ، حضرت قبلہ شہداد کوٹی کے منظور نظر تھے، سعادت ابدی ان کی پیشانی سے عیاں تھی۔ بچپن میں بہن سے اجازت لے کر انہیں کنڈو سے اپنے پاس بلوا لیا، خود تربیت فرمائی اور اپنی نگرانی میں تعلیم دلوائی۔ تعلیم کیلئے اپنے نامور شاگرد حضرت علامہ مولانا عطاء اللہ فیروز شاہی کو بلوا کر درگاہ شریف پر مدرس مقرر کیا۔ میاں نصیر الدین انہیں سے درس نظامی مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔جانشینی:حضرت شہداد کوٹی نیا پنی زندگی میں میاں نصیر الدین کو جانشین مقرر کیا ۔ فرمایا :’’میری ظاہری باطنی وراثت کا وارث میاں نصیر الدین ہے‘‘ حضرت شہداد۔۔۔

مزید

حضرت شیخ بختیار

حضرت شیخ بختیار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شیخ بختیار حضرت احمد عبدالحق ردولوی کے مرید تھے آپ ابتدائی زندگی میں ایک سوداگر کے غلام تھے مگر جوہر شناس تھے وہ سوداگر آپ کو مختلف علاقوں میں جواہرات خریدنے کے لیے بھیجا کرتا تھا۔ ایک بار شیخ بختیار اسی سلسلہ میں حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہ کے شہر میں آئے ہر روز صبح و شام حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر کھڑے رہتے۔ چھ ماہ تک اسی طرح صبح و شام آتے رہے کھڑے ہوتے رہے مگر حضرت احمد عبدالحق نے کبھی توجہ نہ کی اور نہ ہی پوچھا تم کون ہو اور کیوں آتے ہو ایک روز نگاہ کی تو شیخ بختیار پر مستی طاری ہوگئی شیخ بختیار مستی کے عالم میں بڑی گستاخانہ باتیں کرتے وہ حضرت احمد عبدالحق کو کہتے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا صاحب کرامت بنایا ہے تو اپنا فیض تقسیم کیوں نہیں کرتے اور ان اسرار و معارف پر نجیل بن کر کیوں بیٹھے رہتے ہو۔ ان کی یہ باتیں اہل خانقاہ کو اچھی نہ لگتیں م۔۔۔

مزید

مولانا مفتی محمد حسین ٹھٹوی

  ٹھٹھہ کے صدیقی خاندان کے چشم و چراغ ، علم و عمل کے روشن ستارے ، نامور خطیب حضرت مولانا حافظ مفتی محمد حسین بن مولانا حافظ پیر محمد صدیقی ۱۳۱۷ھ میں ٹھٹھہ ( سندھ ) میں تو لد ہوئے۔ تعلیم و تربیت: مفتی محمد حسین نے اپنے والد ماجد حافظ پیر محمد صدیقی کے پاس قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد حفظ کی دولت سے سر فراز ہوئے۔ فارسی و عربی کی تعلیم کیلئے استاد العلماء فخر اہل سنت حضرت علامہ عبدالکریم درس مہتمم مدرسہ درسیہ کراچی کی خدمات حاصل کی۔ اس کے بعد مٹیاری میں حضرت مولانا محمد عمر جان سر ہندی اور استاد العلماء حضرت علامہ قاضی لعل محمد مٹیاری سے نصاب کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔ بیعت : آپ سلسلہ نقشبندیہ میں قاطع نجدیت حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی فاروقی قدس سرہ سے دست بیعت تھے۔ ( بروایت محترم حافظ حبیب سندھی ) درس و تدریس : بعد فراغت ٹھٹھہ شہر میں اپنے خاندانی مدرسہ ع۔۔۔

مزید

سید شرف الدین عیسی

  اپنے والد بزرگوار اور ابو الحسن بن ضرماء رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث سنی، اور تفقہ حاصل کیا، پھر درس و تدریس کا کام شروع کیا، حدیث بیان کی، فتوے دئیے، وعظ کہا، اور تصوّف میں جواہر الاسرار اور لطائف الانوار وغیرہ کتابیں تصنیف کیں، حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فتوح الغیب انہیں کے لیے تصنیف فرمائی تھی۔ [ایضًا ص ۱۰۹ شرافت] پھر یہ بغداد سے مصر چلے گئے، اہالیان مصر میں سے ابو تراب ربیعہ بن الحسن الحضرمی الصنعانی رحمۃ اللہ علیہ، مسافر بن یعمر المصری رحمۃ اللہ علیہ، حامد بن احمد الاتاجی رحمۃ اللہ علیہ، محمد بن محمد الفقیہ المحدّث رحمۃ اللہ علیہ، عبد الخالق بن صالح القرش الاموی المصری رحمۃ اللہ علیہ، وغیرہ نے اِن سے حدیث سنی۔ [حیاتِ جا ودانی ص ۱۱۰]   ان کو شعر و سخن کا مذاق بھی تھا، چنانچہ یہ اشعار انہیں کے ہیں۔ فان سئلوا کم کیف حالی بعدھم فلیس لہٗ اِلفٌ یسیرُ بقُربہم غریبٌ۔۔۔

مزید

ابو عمران راعی

حضرت ابو عمران راعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  ۔۔۔

مزید

حضرت حریق اسود ابدال

حضرت حریق اسود ابدال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  ۔۔۔

مزید

ابو موسی راعی

حضرت ابو موسیٰ راعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  ۔۔۔

مزید

شاہ جہانگیر

حضرت شاہ جہانگیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  ۔۔۔

مزید