مبارک فضل بھائی کو عجب ہی نور چھایا ہے شب اسرار کے دولہا نے انہیں دولہا بنایا ہے جگایا تم نے عزت کو مٹایا تم نے بدعت کو لہٰذا سو شہیدوں کا اجر و ثواب پایا ہے کیا ناراض سب کو اور راضی کر لیا رب کو غرض کہ اس تجارت میں نفع کافی کمایا ہے رسول اللہ ﷺتم سے خوش ہیں اور اللہ بھی راضی عمل سے تم نے امت کو سبق اچھا پڑھایا ہے یہ شادی خانہ آبادی مبارک ہو مبارک ہو کہ اس شادی میں حضرت فاطمہ زہرا کا سایہ ہے وہ آگے نعت خوانی اور درودِ پاک کی کثرت خداو مصطفیٰﷺ کے ذکر سے شیطاں بھگایا ہے یہ آوازیں یقیناً سبزِ گنبد میں بھی پہنچی ہیں احادیثِ نبیﷺ نے ہم کو یہ مژدہ سنایا ہے جہیزِ مختصر سے فاطمہ کی یاد تازہ کی ولیمہ کی ضیافت میں عجب ہی لطف آیا ہے دعا سالکؔ کی ہے یہ فضل پر فضلِ الٰہی ہو! رہے یہ درس قائم جس سے سب نے فیض پایا ہے۔۔۔
مزید
شہزادئ اسلام مالکۂ دار السلام حضرت فاطمہ زہرا کا نکاح گوشِ دل سے مومنو سن لو ذرا ہے یہ قصّہ فاطمہ کے عقد کا پندرہ سالہ نبی ﷺ کی لاڈلی اورتھی بائیس سال عمر علی عقد کا پیغام حیدر نے دیا مصطفٰیﷺ نے مرحبا اہلًا کہا پیر کا دن سترہ ماہِ رجب دوسرا سنِ ہجرت شاہِ عرب پھر مدینہ میں ہوا اعلانِ عام ظہر کے وقت آئیں سارے خاص و عام اس خبر سے شور برپا ہوگیا کوچہ و بازار میں غُل سا مچا آج ہے مولیٰ کی دختر کا نکاح آج ہے اس نیک اختر کا نکاح آج ہے اس پاک و سچی کا نکاح آج ہے بےماں کی بچی کا نکاح خیر سے جب وقت آیا ظہر کا مسجد نبویﷺ میں مجمع ہو گیا ایک جانب ہیں ابوبکر و عمر اک طرف عثمان بھی ہیں جلوہ گر ہر طرف اصحاب اور انصار ہیں درمیاں میں احمد و مختارﷺ ہیں سامنے نوشہ علیّ مرتضیٰ حیدر کرّار شاہِ لَا فَتٰی آج گویا عرش آیا ہے اتر یا کہ قدسی آگئے ہیں فرش پر جمع جب یہ سارا مجمع ہوگیا سید ال۔۔۔
مزید
رجب کی نو (۹) ہے اور خواجہ کا یہ دربارِ عالی ہے یہاں کی ہر ادا وقتِ سحر ہی نرالی ہے نگہ عشّاق کی روضہ کے دروازوں سے وابستہ تلاوت میں کوئی ضربات اللہ ہُو میں وارفتہ کہیں تو نعت کی مجلس میں زور و شور صلُّوا سے کہیں قوال کے نغموں میں پیدا شور ہا ہُو ہے کہیں گانے کا قوّالیوں کا شور برپا ہے کوئی سر دُھن رہا ہے وجد میں کوئی تھرکتا ہے سما ں پیدا کیا وجد آفریں نغمے نے سازوں کے تو حال و قال میں ہُو حق ہیں نعرے نعرہ بازوں کے کمر جنبش میں ہے اور دونوں ہاتھوں میں ہے پیچ و خم جُھکا ہے سر زباں پر لفظ یا خواجہ ہیں آنکھیں نم اذانِ فجر نے ساری فضا ہی کو بدل ڈالا نہ وہ نغمے نہ قوالی نہ اب وہ شور باقی تھا وہ ہیبت چھائی توحید و رسالت کی ہر اِک دل پر صدا تکبیر و توحید و صلوٰۃ آئی ہر اِک لب پر کھڑے ہیں دست بستہ صف بہ صف رب کی عبادت میں نہیں اس وقت کچھ بھی فرق غُربت میں امارت میں وہ ہے رحمت کی با۔۔۔
مزید
بہت بے بس بہت بے کس ہیں اب ہم نہیں ہے آج، اپنا کوئی ہمدم عدو ہے برسرِ آزار ہر دم مدد لِللہ اے سرکارِ عالم! زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم زبس ناکارہ و بدکار ہیں ہم سراپا معصیت کردار ہیں ہم بد ہیں ذلیل و خوار ہیں ہم مگر بندے تِرے سرکار ہیں ہم زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم نہیں دُنیا میں اب کوئی ہمارا ہمیں ہے آپ ہی کا اِک سہارا تحمّل کا نہیں اب ہم میں یارا ہمارے آپ ہیں اور آپ کے ہم زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم یہ مانا ہم بہت سرکش ہیں مولا تِرے احکام کی کچھ کی نہ پروا ہوئے اپنے ہی کرتوتوں سے رسوا خود اپنے آپ سے بیزار ہیں ہم زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم مسلماں ہر جگہ مشقِ ستم ہیں مسلماں ہر جگہ وقفِ اَلم ہیں مسلماں ہر جگہ مصروفِ غم ہیں تِرے بندوں پہ یہ بیداد پیہم! زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحّم یانبی اللہ ترحّم۔۔۔
مزید
اے سر و گلستانِ عالم، لاریب تو جانِ عالم ہے اے بزمِ عقیدت کے دولہا تجھ سے ہی شانِ عالم ہے جب آپ نہ تھے عالم بھی نہ تھا، خالق اِک کنزِ مخفی تھا جب آپ آئے عالم یہ ہوا! تو نور ظہوورِ عالم تھا اے شاہِ زمیں اے شاہِ زماں اے باعثِ خلق کون و مکاں کس چیز پہ تیرا حکم نہیں تو شاہِ شہانِ عالم ہے اے مرکز نقطۂ نونِ کُن، تجھ سے ہے محیط کون و مکاں رحمت کے خطوطِ واصل سے پیوستہ کمانِ عالم ہے اے مظہرِ اوّل ہرِّ خفی، اے منبعِ آخر، نورِ ہُدٰی ہے تو ہی پنہاں، اور تو ہی عیاں تجھ سے ہی تو شانِ عالم ہے ناموس خدائے واحد نے ، توحید کا ڈنکا پیٹ دیا کعبہ کے بُتوں کے گرنے سے غوغائے بُتانِ عالم ہے بُستانِ عرب، بستانِ عجم، بُستانِ زمیں، بُستانِ زمن ریحان و بہار ہر بستاں، تو جان جہانِ عالم ہے انساں میں مافوقُ الفطرت دیکھی نہ کبھی ایسی قدرت تم لاکھ بشر اپنے کو کہو، کچھ اور گُمانِ عالم ہے بندوں پہ نہ ہو کی۔۔۔
مزید
ہے کون جو شائق ہو مری طرح ستم کا مشتاق دل و جاں سے ہوں درد کا غم کا یکتا ہوں وہ غمگین کہ کہیں جز مرے گھر کے ڈھونڈوں تو پتہ تک نہ ملے رنج و الم کا اب شوق یہ کہتا ہے وہاں پہلے ہی پہنچے کاغذ سے بھی آگے ہو قدم نقشِ رقم کا اور رشک یہ کہتا ہے کوئی دیکھے نہ مضموں کاغذ پہ نشاں بھی نہ رہے نقشِ رقم کا وہ اپنا جفا کاری میں ثانی نہیں رکھتے معلوم نہیں کس سے لیا درس ستم کا وعدے تو وہ کر لیتے ہیں ایفا نہیں کرتے کچھ پاس نہ وعدے کا انہیں ہے نہ قسم کا اے کاش کوئی اس بُتِ طناز سے کہتا ہے چاہنے والا ترا مہماں کوئی دم کا دُزدیدہ نگاہوں سے مجھے آپ نے دیکھا ممنون ہوں میں آپ کے لطف کرم کا سنتے ہیں نعیمؔ آتے ہیں وہ بہرِ عیادت کیا آج ستارہ مری تقدیر کا چمکا۔۔۔
مزید
کس کے وعدہ پہ اعتبار رہامرتے مرتے بھی انتظار رہا بزمِ اعداء میں رات جاگے ہیںآنکھ میں شام تک خمار رہا آنکھ وہ کیا جو اشکبار رہیدل ہی کیا وہ جو بے قرار رہا آنکھ وہ دید سے جو شاد رہیدل جو دلبر سے ہمکنار رہا آپ پہلو میں دشمنوں کے رہےمیری آنکھوں میں انتظار رہا نہ وفا کی جناب نے مجھ سےنہ مجھے دل پہ اختیار رہا روتے روتے گزر گئیں راتیںدلِ بے صبر بے قرار رہا انتہا ہے سیاہ بختی کیدل گرفتارِ زلفِ یار رہا ہائے منعم کی بیکسی افسوسنزع میں بھی وہ اشکبار رہا۔۔۔
مزید
احسن اللہ الینا حسنا برک اللہ تعالیٰ فینا نحن فی سکہ بلدک طفنا شرفِ کعبہ بود کوئے ترا زادھا اللہ تعالیٰ شرفا زانکہ بد از مئے عشقش سرمست ولق اندر بغل و کاسہ بدست دلق انداخنہ و کاسہ شکست زائر کوئے تو از کعبہ گزشت سر کوئے تو کجا کعبہ کجا کردِ فرمانِ خداوندِ قدیر خاکِ ما از مئے الفت تخمیر عشق ابروئے تو اے مہرِ منیر ساخت ہمچوں مہ تو ماشدہ پیر میل ابروئے تو ام پشت دوتا عشق را طرفہ مگر بنیاد است برلب دوست ازو فریاد است کہ تنم ہمچو دلم برباد است سرمن غرقہ بخوں افتاد است تافتاد ست ز تیغِ تو جُدا مے بہ مینا ست مگر ساقی نیست رقیہ موجود مگر راقی نیست جز تو از درد مرا واقی نیست بے تو باجاں و گرم باقی نیست جاں اگر رفت ترا یادِ بقا نرود نزدِ اطباء نرود فکر دارو و مداوا نکند منت ناز طبیباں کشد ہر کجا درد دوا نیز بود چو تو بے درد فتاوی چہ دوا یلحق الضیر باصحاب ولا مابہ الحظ لاھل الاھوا چ۔۔۔
مزید
منقبت در شانِ شہزادۂ عالی جاہ حضرتِ امام علی اکبر رضی اللہ عنہٗ نُورِ نگاہِ فاطمہ آسماں جناب صبرِ دلِ خدیجہ پاک ارم قباب لختِ دلِ امام حسین ابنِ بو تراب شیرِ خدا کا شیر وہ شیروں میں انتخاب صورت تھی انتخاب تو قامت تھا لا جواب گیسو تھے مشک ناب تو چہرہ تھا آفتاب چہرہ سے شاہزادہ کے اٹھا ہی تھا نقاب مہرِ سپہر ہوگیا خجلت سے آب آب کاکل کی شام رُخ کی سحر موسمِ شباب سنبل نثار شام فدائے سحر موسمِ شباب شہزادۂ جلیل علی اکبرِ جمیل بستانِ حُسن میں گلِ خوش منظرِ شباب پالا تھا اہلِ بیت نے آغوشِ ناز میں شرمندہ اس کی نازگی سے شیشہ حباب صحرائے کوفہ عالمِ انوار بن گیا چمکا جو رَن میں فاطمہ زہرہ کا ماہتاب خورشید جلوہ گر ہوا پشتِ مند پر یا ہاشمی جو ان کے رُخ سے اٹھا نقاب صولت نے مرحبا کہا شوکت تھی رجز خواں جرأت نے باگ تھامی شجاعت نے لی رکاب چہرہ کو اس کے دیکھ کے آنکھیں جھپک گئیں دل کانپ اٹھے ہو۔۔۔
مزید
ترکِ عصیاں کن اعتذار چہ سُود توبہ کن توبہ انتظار چہ سُود ہوش کن ہوش فکرِ عقبٰی کن مستی بادۂ خمار چہ سُود راہ در دل بجوئی سُوئے حبیب سجدۂ خاکِ رہ گزار چہ سُود روحِ اعمالِ بندہ اخلاص است زاہدا صومِ افتخار چہ سُود چوں نماند ست التفات بغیر پس نظر سوئے گلعذارچہ سُود ترک کن ایں و آن و ما و من قصد مقصد کن از غبار چہ سُود گوشہ گیر چوں نعیم الدین صوفیا گردشِ ریار چہ سُود۔۔۔
مزید
اے دل از انتظار چہ سُود و زغمِ ہجر بے قرار چہ سُود گر نباشد مکانِ دوست بدل نالہ و آۃ و چشمِ زار چہ سُود ور تو در دل بہارہا داری پس ترا سیرِ لالہ زار چہ سُود چوں نباشد بہار در باطن فصلِ گل موسمِ بہار چہ سُود داغ در سینہ یار اندر دل سیر گلزار و لالہ زار چہ سُود خانۂ دل ز غیر خالی کن بر رُخِ آئینہ غبار چہ سُود دل کہ اسرار گاہ دلدار ست غیر را اذن دخلِ یار چہ سُود فکرِ دنیا خس است آتش زن خار و خس در مقام یار چہ سُود ہمچو ویرانہ نعیم الدین خانہ دل خراب و خار چہ سُود۔۔۔
مزید
تکتے رہتے ہیں عجب طرح سے راہِ اُمید حسرت دید تماشائے نگاہِ اُمید بند کس واسطے کی آپ نےراہ اُمید یہ تو فرمائیے کیا دیکھا گناہِ اُمید بے نیازی نے تری مار ہی ڈالا ہوتا خیر سے پانچ گئے ہم پا کے پناہ اُمید روزِ غم بھی ہیں شبِ ہجر کی صورت تاریک ہیں خوش آیند مگر شام و پگاہِ اُمید ہم سے کھنچتے ہو مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کبھی کھینچ ہی لائے گی حضرت کو سپاہِ اُمید آپ اتنا تو سمجھئے کہ لگی رہتی ہے آپ کے لطف پہ سرکار نگاہِ اُمید آپ جات ہیں مرے گھر سے تو یہ یاد رہے چھوڑ کر آئے ہیں منعم کو تباہِ اُمید۔۔۔
مزید