حدیثِ چہلم از مشکوٰۃ ،بابِ اثبات عذاب القبر عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالکٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ: ’’اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِهٖ وَتَوَلّٰى عَنْهُ اَصْحَابُهٗٓ إِنَّهٗ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، اَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهٖ، فَيَقُوْلَانِ لَہٗ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَاَمَّا الْمُؤْمِنُ، فَيَقُوْلُ: اَشْهَدُ اَنَّهٗ عَبْدُ اللہِ وَرَسُوْلُهٗ، فَيُقَالُ لَهٗ: اُنْظُرْ اِلٰى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ اَبْدَلَكَ اللہُ بِهٖ مَقْعَدًا مِّنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعًا - وَاَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهٗ: مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: لَآ اَدْرِیْ كُنْتُ اَق۔۔۔
مزید
تاریخِ اِتمامِ نسیمِ جنّت از مصنّف اِتمام ہُوئی نسیمِ جنّت یہ جادۂ مستقیمِ جنّت سیرابیِ گلستانِ جاں ہے جو طالبِ روئے مصطفیٰﷺ ہے اُس عاشقِ زار کی دوا ہے یہ ہے عرق بہار، کاؔفی آرام دلِ ہزار، کاؔفی تاریخ بھی خوب ہائی آئی ’’بوئے گُلِ باغِ اِصطفائی‘‘ ۱۲۶۲ھ تمام شد بتاریخ چہار دہم ذی الحجہ ۱۲۹۵ھ باختتام رسید۔ ۔۔۔
مزید
دردماں درد کا کیا بنا کربلا سارے عالم پہ بس چھا گیا کربلا مشکلیں ہو کے حل ساتھ دینے لگیں میں نے جب دے دیا واسطہ کربلا خونِ آلِ نبی سے وہ سینچا گیا زندگی موت کو دے گیا کربلا مشکلوں پر بھی میں نے تبسُّم کیا جب نظر اشک میں آگیا کربلا جبلِ غم مجھ کو سُرمے کے مانند لگے عقل کے مرغ کو جب ملا کربلا تیری آغوش میں سو گئے مہر و ماہ مرحبا مرحبا واہ واہ کربلا عشق کو صبر کا درس تجھ سے ملا رہبرِراہِ اُلفت بنا کربلا حشر میں پیرہن کا دِکھا دبدبہ بخششیں یوں لُٹاتا گیا کربلا صدقِ صدیق کو عدلِ فاروق کو شارحینِ کُتب نے لکھا کربلا خون شاہ شہیداں میں وہ جود تھا دیکھ کر دیکھتا رہ گیا کربلا ڈھونڈتا ہے ابھی تک نواسے کو وہ حاصلِ دید کی التجا کربلا تیری فاران بخشش ہوئی ذکر سے کر گیا کربلا کربلا کربلا ۔۔۔
مزید
عزیزوں یہ وصیت ہے یہی پیغام لکھ دینا کفن پر تم میرے مرشد مشاہد نام لکھ دینا پلا کر ہی ہزاروں کو صراطِ حق چلا ڈالا ہمارے واسطے بھی ساقیا وہ جام لکھ دینا جو فہرست ہو مرتب مشربِ شاہِ مشاہد کی نِکمّا ہی سہی لیکن ہمارا نام لکھ دینا پرندوں کی حفاظت میکدے کی شاخ پر ہی ہے زمینوں کی کشش پر تم شکاری دام لکھ دینا صلح کُل کے قفس گر پھنسیں یہ بلبلیں ساری ہزاروں چہچہاہٹ میں سُکُوتِ شام لکھ دینا تمہیں مُرشد ہو شاہد ہو مشاہِد ہو مشاہَد ہو سرِ محشر گواہی تم سرِ انجام لکھ دینا تصلب جانِ بلبل تو صلح کل موتِ بلبل ہے نمائش کے تصلب پر فریبی دام لکھ دینا اگر فاراں طلب ہو کچھ نگاہِ مرشدی ڈھونڈو بغیر اس واسطے کے تم خیالِ خام لکھ دینا ۔۔۔
مزید
تمہارے اعمال نے تمہیں ہی بہت ستایا تو کیا کروگے دلی تصلب تمہیں ابھی بھی نہ ہاتھ آیا تو کیا کروگے ابھی تو زندگی ہے جی لو ، شرابِ نفرت کو خوب پی لو جو موت نے آکے پچھلے گھر کا حساب مانگا تو کیا کروگے نبی کا رب سے کِیَا تقابُل ، پھنسا یوں شرکِ جلی میں جاہل حمایت اسکی کرِی ہے تم نے، لحد میں پوچھا تو کیا کروگے میری کُتُب میں تو سب تھا ظاہر، ہٹا کیوں اس سے بتا تو زاجر رضا نے بھی حشر میں جھڑک کر ، اسی کو پوچھا تو کیا کروگے صحابہ کو کہہ رہا ہے خاطی، پھر اُس کو تم نے پناہ کیوں دی نبی کے اصحاب و آل نے بھی ، جو ساتھ چھوڑا تو کیا کروگے قبولِ حق میں انا گر آئے ، لو ہم ہی ہارے تمہی تو جیتے خدا نہ کردہ حسد کے اندر ، یہ دین کھویا تو کیا کروگے تم اپنی منزل کی راہ لے لو ، نہ اتنا ڈھونڈو کہ خود ہی بہکو صبح کا بھولا وہ شام کو بھی اگر نہ لوٹا تو کیا کروگے ------------------------------- ہماری غرب۔۔۔
مزید
تیری اوقات ہی کیا ہے کرے جو بات رفعت کی سنی ہے میں نے قرآں سے حکایت ان کی مدحت کی ابھی جی بھر کے دیکھا ہی کہاں دیوارِ روضہ کو صدائے جاں بلب کس نے سنائی پھر سے رحلت کی امن کی جستجو تھی تو حرم کو چھوڑ کیوں آئے شکایت کیا کریں خود سے خریدارِ ہلاکت کی بگڑتے گرتے پڑتے دل میں وہ جوشِ بلا دیکھا ذرا سی چار باتیں کیا سنائیں ہم نے الفت کی میرے ذوقِ جنوں پر ہنسنے والو کیا خبر تم کو کہ مٹنے سے سیکھائی ہے رضانے بات شہرت کی چلے تحت الثریٰ آؤ ترفُّع کے طلبگارو ! یہ سعدی نے گلستاں میں نکالی راہ رفعت کی الٰہی صدقۂ موسیٰ وہ سامانِ نظر دینا ملائک بات چھیڑیں جب عدالت میں زیارت کی نہیں کچھ شور و غوغہ اور لٹانا جاں صحابہ کا کہ پروانوں نے سیکھی ہے یہاں سے شان حکمت کی مدد کی بھیک مانگے پھر رہے ہیں وہ بھی محشر میں کہ جن کو استعانت پر عداوت تھی قیامت کی یہ بھولا صبح کا بھٹکا مگر نہ شام کو لوٹا و۔۔۔
مزید