/ Friday, 14 March,2025


مفتی اعظم حضرت محمد مصطفٰی رضا خاں نوری بریلوی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ   (47)





مرض عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے

ان کا ارشاد خداوند جہاں مرض عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہےجتنی کرتا ہے دوا درد سوا ہوتا ہے کیوں عبث خوف سے دل اپنا ہوا ہوتا ہےجب کرم آپ کا عاصی پہ شہا ہوتا ہے جس کا حامی وہ شہ ہر دوسرا ہوتا ہےقید و بند دو جہاں سے وہ رہا ہوتا ہے ان کا ارشاد ہے ارشاد خداوند جہاںیہ وہی کہتے ہیں جو رب کا کہا ہوتا ہے بادشاہان جہاں ہوتے ہیں منگتا اس کےآپ کے کو چے کا شاہا جو گدا ہوتا ہے پلہ نیکی کا اشارے سے بڑھا دیتے ہیںجب کرم بندہ نوازی پہ تلا ہوتا ہے سارا عالم ہے رضا جوئے خداوند جہاںاور خدا آپ کا جو یائے رضا ہوتا ہے ہم نے یوں شمع رسالت سے لگائی ہے لوسب کی جھولی میں انہیں کا تو دیا ہوتا ہے از شہا تا بگدایان جہاں اک عالمآپ کے در پہ شہا عرض رسا ہوتا ہے ایسی سرکار ہے بھرپور جہاں سے لینےروز ایک میلہ نیا در پہ لگا ہوتا ہے دونوں ہاتھوں سے لٹاتے ہیں خزانہ لیکنجتنا خالی کریں اتنا ہی بھرا ہوتا ہے کردہ نا کردہ۔۔۔

مزید

کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے

و ہ حسیں کیا جو فتنے اٹھا کر چلے کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلےکب کسی سے نگاہیں بچا کر چلے کون ان سے نگاہیں لڑا کر چلےکس کی طاقت جو آنکھیں ملا کر چلے وہ حسیں کیا جو فتنے اٹھا کر چلےہاں حسیں تم ہو فتنے مٹا کر چلے ان کے کوچہ میں منگتا صدا کر چلےرحمت حق ہو ہر دم دعا کر چلے قصۂ غم سنایا سنا کر چلےجان عیسیٰ دوا دو دعا کر چلے رب کے بندوں کو رب سے ملا کر چلےجلوۂ حق وہ ہم کو دکھا کر چلے مَنْ رَاٰنِیْ رَأَالْحَق سنا کر چلےمیرا جلوہ ہے حق کا جتا کر چلے جز بشر اور کیا دیکھیں خیرہ نظراَیُّکُمْ مِثْلِیْ گو وہ سنا کر چلے جگمگا ڈالیں گلیاں جدھر آئے وہجب چلے وہ تو کو چے بسا کر چلے کیسا تاریک دنیا کو چمکا دیاسارے عالم میں کیسی ضیا کر چلے کوئی مانے نہ مانے یہ وہ جان لےسیدھا رستہ وہ سب کو بتا کر چلے کوڑیوں کوڑھیوں کے لئے کوڑھ دوراچھا چنگا وہ خاصہ بھلا کر چلے یاد دامن سے مرجھائی کلیاں کھلیںفیض ۔۔۔

مزید

پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سے

چلو ہمیشہ کی لے لو بقا مدینے سے پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سےمریض عشق کی لائی دوا مدینے سے سنو تو غور سے آئی صدا مدینے سےقریں ہے رحمت و فضل خدا مدینے سے ملے ہمارے بھی دل کو جلا مدینے سے کہ مہر و ماہ نے پائی ضیا مدینے سے تمہاری ایک جھلک نے کیا اسے دلکشفروغ حسن نے پایا شہا مدینے سے تمام شاہ و گدا پل رہے ہیں اس در سےملی جہان کو روزی سدا مدینے سے جو آیا لے کے گیا کون لوٹا خالی ہاتھبتادے کوئی سنا ہو جو ’’لا‘‘ مدینے سے بتادے کوئی کسی اور سے بھی کچھ پایاجسے ملا جو ملا وہ ملا مدینے سے وہ آیا خلد میں جو آگیا مدینے میںگیا وہ خلد سے جو چل دیا مدینے سے نہ چین پائے گا یہ غم زدہ کسی صورتمریض غم کو ملے گی شفاعت مدینے سے لگاؤ دل کو نہ دنیا میں ہر کسی شے سےتعلق اپنا ہو کعبے سے یا مدینے سے گدا کی راہ جہاں دیکھیں پھر نور کیوں ہونوا سے پہلے ملے بے نوا مدینے سے چمن کے پھو۔۔۔

مزید

نگاہ مہر جو اس مہر کی ادھر ہو جائے

جدھر نگاہ کرم ہو خدا ادھر ہو جائے نگاہ مہر جو اس مہر کی ادھر ہو جائےگنہ کے داغ مٹیں دل مرا قمر ہو جائے جو قلب تیرہ پہ تیری کبھی نظر ہو جائےتو ایک نور کا بقعہ وہ سر بسر ہو جائے ہماری کشت امل میں کبھی تو پھل آئےکبھی تو شجرۂ امید بار ور ہو جائے کبھی تو ایسا ہو یا رب وہ در ہو اور یہ سرکبھی تو ان کی گلی میں مرا گزر ہو جائے ہمارا سر ہو خدایا حبیب کا در ہوہماری عمر الہٰی یونہی بسر ہو جائے جو سچے دل سے کہے کوئی یا رسول اللہمصیبتیں بھی ٹلیں ہر مہم بھی سر ہو جائے مری مصیبتوں کا سلسلہ ابھی کٹ جائےاشارہ ابروئے خم دار کا اگر ہو جائے تڑپ رہے ہیں فراق حبیب میں عاشقالہٰی! راہ مدینہ کی بے خطر ہو جائے ترے غضب سے ہوں غارت یہ دہر کے شیطاںبنے غلام ہر اک ان میں در بدر ہو جائے جو آپ چاہیں تو ہیزم کو دم میں سبز کریںکرم جو آپ کا ہو خلد کا شجر ہو جائے خدا کے فضل سے ہر خشک و تر پہ قدرت ہےجو چاہو تر ہو ا۔۔۔

مزید

فوج غم کی برابر چڑھائی ہے

شربت دید میری دوائی ہے فوج غم کی برابر چڑھائی ہےدافع غم تمہاری دہائی ہے عمر کھیلوں میں ہم نے گنوائی ہےعمر بھر کی یہی تو کمائی ہے تم نے کب بات کوئی نہ برائی ہےتم سے جو آرزو کی برآئی ہے تم سے ہر دم امید بھلائی ہےمیٹ دیجے جو ہم میں برائی ہے تم نے کب آنکھ ہم کو دکھائ ہےتم نے کب آنکھ ہم سے پھرائ ہے تم کو عالم کا مالک کیا اس نےجس کی مملوک ساری خدائی ہے کس کے قبضے میں ہیں یہ زمین و زماںکس کے قبضے میں پیارے خدائی ہے تو خدا کا ہوا اور خدا تیراتیرے قبضے میں ساری خدائی ہے جب خدا خود تمہارا ہوا تو پھرکون سی چیز ہے جو پرائی ہے سب صفات خدا کے ہو تم مظہرایک قابو سے باہر خدائی ہے تاج رکھا ترے سر رَفَعْنَا کاکس قدر تیری عزت بڑھائی ہے انبیا کو رسائی ملی تم تکبس تمہاری خدا تک رسائی ہے از زمیں تا فلک جن و انس و ملکجس کو دیکھو تمہارا فدائی ہے رشک سلطان ہے وہ گدا جس نےتیرے کوچہ میں دھونی رمائی ہ۔۔۔

مزید

تیری آمد ہے موت آئی ہے

میں نے مر کے حیات پائی ہے تیری آمد ہے موت آئی ہےجان عیسیٰ تری دہائی ہے کیوں وطن اپنا چھوڑ آئی ہےکیوں سفر کی مصیبت اٹھائی ہے سیکڑوں آفتوں میں پھنسنے کوکیوں بدن میں یہ جان آئ ہے ان کے جلوے ہیں میری آنکھوں میںاچھی ساعت سے موت آئی ہیں تم کو دیکھا تو دم میں دم آیاآپ آئے کہ جان آئی ہے مر رہا تھا تم آئے جی اٹھاموت کیا آئی جان آئی ہے اب تو آؤ کہ دم لبوں پر ہےچہرے پر مردنی بھی چھائی ہے آیئے وقت ہے یہ آنے کادیکھ لیں سب کی جاں پھر آئی ہے زندگی میں نے پائی مر مر کےمیں نے جی جی کے موت پائی ہے زندگی کیا تھی جس میں موت آئیزندگی بعد مرگ پائی ہے موت کا اب نہیں ذرا کھٹکازندگی شبھ گھڑی سے پائی ہے مرتے ہی زندگی ملی مجھ کوموت کے ساتھ جان آئی ہے حسرت دید یار میں ہم نےآج مرمر کے موت پائی ہے جو حسیں دیکھا مر مٹا اس پرمیں نے مر کے حیات پائی ہے چین کی نیند آج سویا ہوںموت آرام کی سلائی ہے شامتوں نے۔۔۔

مزید

بخّطِ نور اُس در پر لکھا ہے

جہاں سے فیض کا دریا بہا ہے بخّطِ نور اُس در پر لکھا ہےیہ باب رحمت رب علا ہے سر خیرہ جو اب در پر جھکا ہےادا ہے عمر بھر کی جو قضا ہے مقابل در کے یوں کعبہ بنا ہےیہ قبلہ ہے تو تو قبلہ نما ہے در والا پہ اک میلا لگا ہےعجب اس در کے ٹکڑوں میں مزا ہے یہاں سے کب کوئی خالی پھرا ہےسخی داتا کی یہ دولت سرا ہے گدا تو ہے گدا جو بادشاہ ہےاسے بھی تو اسی در سے ملا ہے جسے جو کچھ ملا جس سے ملا ہےحقیقت میں وہ اس در کی عطا ہے اسی سرکار کا منگتا ہے عالمگدا اس در کا ہر شاہ و گدا ہے یہاں سے بھیک پاتے ہیں سلاطیںاسی در سے انہیں ٹکڑا ملا ہے اسی در سے پلے گا پل رہا ہےاسی گھر سے زمانہ پل چکا ہے شب معراج سے ظاہر ہوا ہےرسل ہیں مقتدی تو مقتدا ہے خدائی کو خدا نے جو دیا ہےاسی گھر سے اسی در سے ملا ہے خدائے پاک تو گھر در سے ہے پاکمگر یہ در در پاک خدا ہے یہاں وہ باخدا ہے جلوہ فرماجو کشتی کا جہاں کی ناخدا ہے شہ ۔۔۔

مزید

مے محبوب سے سرشار کردے

ثنا جس کی ثنائے کبریا ہے مے محبوب سے سرشار کر دےاویس قرنی کو جیسا کیا ہے گمادے اپنی الفت میں کچھ ایسانہ پاؤں میں میں جو بے بقا ہے پلادے مے کہ غفلت دور کردےمجھے دنیا نے غافل کر دیا ہے عطا فرما دے ساقی جام نوریلبالب جو چہیتوں کو دیا ہے ثنا لکھنی ہے محبوب خدا کیخدا ہی جن کی عظمت جانتا ہے میں تیرے فیض سے کچھ کہہ سکوں گامیں کیا ہوں اور مرا یارا ہی کیا ہے سنا اے بلبل باغ مدینہترانہ اور دل یہ چاہتا ہے سنا نوریؔ غزل اس کی ثنا میںثنا جس کی ثنائے کبریا ہے سامانِ بخشش۔۔۔

مزید

حقیقت آپ کی حق جانتا ہے

خدا بھاتی تری ہر ہر ادا ہے حقیقت آپ کی حق جانتا ہےوہ وہم و فہم سے آقا ورا ہے کچھ ایسا آپ کو حق نے کیا ہےکہ خود وہ آپ کا طالب ہوا ہے بلند اتنا تجھے حق نے کیا ہےکہ عرش حق بھی تیرے زیر پا ہے جو اوروں کے علو کی انتہا ہےوہ سرکاری علو کی ابتدا ہے خدا کی ذات تک تو ہی رسا ہےکسی کا بھی یہ عالی مرتبہ ہے نہ ہے تم سا نہ کوئی ہوگا آگےنہ اے آقا کوئی تم سا ہوا ہو ملائک میں رسل میں انبیا میںکوئی عرش علا تک بھی گیا ہے تعالی اللہ تیری شان عالیجلالت شان کی کیا انتہا ہے نکالی زورق خورشید ڈوبیاشارے سے قمر ٹکڑے کیا ہے تمہیں ہو دوسرا میں سب سے بالابس اک اللہ ہی تم سے سوا ہے تری صورت سے ہے حق آشکاراخدا بھاتی تری ہر ہر ادا ہے نہیں ہو سکتا تجھ سے کوئی باہرکہ تو ہی مبتدا و منتہا ہے تو ہے نور خدا پھر سایہ کیساکہیں بھی نور کا سایہ پڑا ہے تو ہے ظل خدا واللہ باللہکہیں سائے کا بھی سایہ پڑا ہے زمیں پر تیر۔۔۔

مزید

دلوں کو یہی زندگی بخشتا ہے

یہ پھل پھول لگنا تمہاری عطا ہے دلوں کو یہی زندگی بخشتا ہےترا درد الفت ہی دل کی دوا ہے گلستان دنیا کا کیا ذکر آقاکہ طوطی ترا سدرہ پر بولتا ہے مریض معاصی کو لے چل مدینہمدینہ ہی عصیاں کا دارالشفا ہے جو واصل ہے تم تک تو واصل ہے حق تکجو تم سے پھرا ہے وہ حق سے پھرا ہے نماز اور روزے، زکوٰۃ اور حج سبہیں مقبول سب جب تمہاری ولا ہے عمل سب اکارت تمہارے عدو کےکہ ارشاد ربی جَعَلْنَا ھَبَا ہے محبت تمہاری محبت خدا کیعداوت تمہاری خدا سے دغا ہے وہ کیسی ہی جھیلے مشقت ادا میں ادا کچھ نہیں ہے وہ سب کچھ قضا ہے محبت تمہاری ہے ایمان کی جاںاگر یہ نہیں ہے تو ایماں ہوا ہے کرے لاکھ دعوائے ایمان دشمنمنافق کا دعوائے ایماں دغا ہے خدا پر بھی ایماں اسی کو ہے حاصلجسے جان ایمان تجھ سے ولا ہے خدا کے یہاں ہے سر افراز اتناتری بارگہ میں جو جتنا جھکا ہے اَغِثْنَا حَبِیْبَ الْاِلٰہِ اَغِثْنَاتباہی میں بیڑا ہمارا پھ۔۔۔

مزید

کفش پا ان کی رکھوں سر پہ تو پاؤں عزت

رباعیات کفش پا ان کی رکھوں سر پہ تو پاؤں عزتخاک پا ان کی ملوں منہ پہ تو پاؤں طلعت طیبہ کی ٹھنڈی ہوا آئے تو پاؤں فرحتقلب بے چین کو چین آئے تو جاں کو راحت منظور نظر ہے بس ثنائے سرکارجان دو جہاں کی جو ہیں سر ہر کار نورؔی کافی ہے دو جہاں میں مجھ کومقبول اگر ہوں ان کو مرے افکار گل ہائے ثنا سے مہکتے ہوئے ہارسقم شرعی سے ہیں منزہ اشعار دشمن کی نظر میں یہ نہ کھٹکیں کیونکرہیں پھول مگر ہیں چشم اعدا میں خار حد بھر کا زیاں کار سیہ کار ہوں میںامت میں بڑا سب سے گنہگار ہوں میں پر دل کو ہے اپنے اس سے ڈھارسفرماتا ہے اللہ کہ غفار ہوں میں بدکار ہوں مجرم ہوں سیہ کار ہوں میںاقرار ہے اس کا کہ گنہگار ہوں میں بایں ہمہ ناری نہیں نوری ہوں حضورمومن ہوں تو فردوس کا حقدار ہوں میں ظالم ہوں جفا کار و ستم گر ہوں میںعاصی و خطا کار بھی حد بھر ہوں میں یہ سب ہے مگر پیارے تری رحمت سےسنی ہوں مسلمان مقرر ہوں میں دنی۔۔۔

مزید