جان و دِل سے ہوں میں فدائے حضور بد سہی، ہوں مگر گدائے حضور مرا ذوق ِ طلب ہے سَب سے جدا کچھ نہیں چاہتا سوائے حضور آئیں آنکھوں میں میرے دِل میں رہیں دونوں گھر ہیں مرے برائے حضور اِس سے بڑھ کر نہیں کوئی دَولت مجھ کو مل جائے خاکِ پائے حضور اپنی رودادِ غم کہوں کس سے میرا کوئی نہیں سِوائے حضور لاج رکھ لو مری گدائی کی ! ! ! بے نوا کس کے درپہ جائے حضور جب پکارا کسی نے مشکل میں نا خدا بن کے آپ آئے حضور بخش دے گا حضور کے صدقے مہر باں ہے بہت خدائے حضور بخشیں خاؔلد کو اِذنِ پا بوسِی بار یابی کا دِن بھی آئے حضور۔۔۔
مزیدمیرے لَب پر جب ان کا نام آیا ہر نفس ایک کیف ِ جام آیا تیرے در سے تری عطا کی قسم جوبھی آیا ہو شاد کام آیا روحِ کونین رقص کرتی ہے کس کا میرے لبوں پہ نام آیا اِسی اعزاز پر ہے ناز مجھے تیرے منگتوں میں میرا نام آیا سب سہارے جہاں کے ٹوٹ گئے آپ کا آسرا ہی کام آیا جھوم اُٹھی فضائے عظمت بھی عرش پر جب وہ خوش خرام آیا نام ان کا سنا لبِ دِل پر یا درود آئی، یا سلام آیا اس کی نسبت سلامتی دے گی جس پہ اللہ کا سلام آیا دیکھ کر وہ کہیں گے خاؔلد کو دیکھو دیکھو مرا غلام آیا۔۔۔
مزیدسُرور رہتا ہے کیف ِ دوَام رہتا ہے لبوں پہ میرے دُرود و سلام رہتا ہے بری ہیں نارِ جہنم سے وہ خدا کی قسم وہ جن کو ذِکر محمد سے کام رہتا ہے جو ایک با ر انہیں دیکھ لے مقدر سے تمام عمر انہیں کا غُلام رہتا ہے تمہارے در کی گدائی جسے میسّر ہے اسی کے قبضے میں سارا نِظام رہتا ہے نثار خاک مدینہ پہ یہ نجومِ فلک طوافِ شاہ میں ماہِ تمام رہتا ہے یہ ہے حیاتِ محبت کا ما حصل خاؔلد کہ دِردِ نعتِ نبی صبح و شام رہتا ہے۔۔۔
مزیدکچھ اس ادا سے تصوّر میں آپ آتے ہیں کرم کے سائے میں ہم خود کو بھول جاتے ہیں خیال آتا ہے جب بھی بہار طیبہ کا گلِ امید مرے دِل میں مسکراتے ہیں نبی کے حُسن ِ جہاں تاب کی ضیاء لے کر فلک کے چاند ستارے بھی جگمگاتے ہیں شفیع ِ حشر کی رحمت پہ جان و دل قرباں خطائیں کرتےہیں ہم آپ بخشواتے ہیں ظہور ہوتا ہے بیشک خدا کے جلوؤں کا نقاب ِ رُخ جو حبیب خدا اٹھاتے ہیں فرشتے آ کے لٹاتے ہیں پھول رحمت کے نبی کی یاد میں محفل جو ہم سجاتے ہیں ہے تری یاد بھی رحمت خیال بھی رحمت ترے خیال میں ہر غم کو بھول جاتے ہیں پکارتے ہیں مصیبت میں جب انہیں خاؔلد انہیں قریب بہت ہی قریب پاتے ہیں۔۔۔
مزیداس کی قسمت پر فدافرماں روائی ہو گئی جس کو حاصل کملی والے کی گدائی ہو گئی بے کلی میں وہ سکون بخشا تمہاری یاد نے کھل گئی دل کی کلی غم سے رہائی ہوگئی میں گرفتار ِ بلا تھا۔ آفتوں میں تھا، مگر جب پکارا آپ کو مشکل کشائی ہوگئی منکشف محمد پر ہوئے جلوے خدائے پاک کے جب نبی کےذِکر سے دل کی صفائی ہوگئی شانِ محبوبی کے صدقے قرب کا یہ حال ہے کہہ دیااپنا جسے اس کی خدائی ہو گئی بے سہاروں کو مبارک ہو سہارا مل گیا جلوہ گر دنیا میں ذاتِ مصطفائی ہوگئی نا مرادی مٹ گئی خاؔلد کی بر آئی مراد تیری رحمت سے ترے در تک رسائی ہوگئی۔۔۔
مزیدتیرے خیال نے بخشا ہے یہ قرینہ بھی مری نِگاہ میں کعبہ بھی ہے مدینہ بھی یہ بحرِ عشق محمد میں ڈوب کر یکھا ہر ایک موج میں ساحل بھی سفینہ بھی مرے کریم کرم سے نواز دے مجھ کو! ترے کرم سے ہو سیراب یہ کمینہ بھی وہ جس سےگلشن ِ فردوس بھی معطّر ہے عجیب ہے مرے سرکار کا پسینہ بھی مجال ِ دید کسے ہے مگر جسے چاہیں وہ بخش دیتے ہیں دیدار کا قرینہ بھی متاعِ زیست بنا لو غمِ محمد کو نصیب والوں کو ملتا ہے یہ خزینہ بھی تصوّر رُخ جاناں کی خیر ہو خاؔلد دِکھا دیا مجھے قربِ خدا کا زینہ بھی۔۔۔
مزیدنگاہوں میں ہے سبز گنبد کا منظر تو یاد ان کی دل میں سمائی ہوئی ہے میں قربان اس نسبتِ مصطفی کے یہ نسبت بڑا رنگ لائی ہوئی ہے ہم اہل وفا کا بھرم ہیں تو وہ ہیں عطا ہیں تو وہ ہیں کرم ہیں تو وہ ہیں جِسے لوگ کہتے ہیں ویرانہ دل یہ دنیا انہیں کی بسائی ہوئی ہے خلش قلبِ بیتاب کی کم نہ ہوتی دلیل ِ محبت فراہم نہ ہوتی سلامت رہیں میری آنکھوں کے آنسو یہی زندگی میں کمائی ہوئی ہے گدائے نبی ہے زمانے کا سلطاں فدا اس کی قسمت پہ ہے شانِ شاہاں خدا کی قسم وہ غنی ہے کہ جس نے مدینے میں دھونی رمائی ہوئی ہے کبھی خود کو میں نے مدینے میں پایا کبھی عرش بھی میری آنکھوں میں آیا یہ ان کی محبت نے معراج بخشی مری لامکاں تک رسائی ہوئی ہے یہ نام محمد میں تاثیردیکھی بدلتی ہوئی پل میں تقدیر دیکھی انہیں جب پکارا ہے بیتاب ہو کر مری قید غم سے رہائی ہوئی ہے غلامِ رسولِ مکرّ۔۔۔
مزیدیہ فیض دیکھا ہے سرکار کی نگاہوں کا سکوں میں ڈھل گیا سیلاب غم کی آہوں کا مہک اٹھی ہیں وہ گلیاں جہاں سے وہ گزرے چمک اٹھا ہے ستارا اندھیری راہوں کا ہم آپ کے ہیں سرِ حشر لاج رکھ لینا اِسی پہ ناز ہے سرکار روسیا ہوں کا نقاب اٹھاؤ کہ دیکھیں خدانما صورت قرار آپ ہیں حسرت بھری نگاہوں کا ہے ایک ذرّۂ ناچیز وسعتِ کونین بہت وسیع ہے حلقہ نبی کی باہوں کا زہے نصیب کہ اس کی گلی کا منگتا ہوں گزارا جس کی عطا پر ہے کج کلا ہوں کا گناہ گار ہوں لیکن یہ ناز ہے خاؔلد کہ رحمتوں سےہے رِشتہ مرے گنا ہوں کا۔۔۔
مزیدمٹتے ہیں دو عالم کے آزار مدینے میں مصروفِ نوازش ہیں سرکار مدینے میں یہ کہتی ہوئی آئےجس وقت قضا آئے چل تجھ کو بلاتےہیں سرکار مدینے میں ہو جاتے ہیں جلوؤں سے یہ دیدہ و دل روشن دِن رات برستے ہیں انوار مدینے میں غمخواریء اُمت تک محدود نہیں رحمت ہے ساری خدائی کا مختار مدینے میں سَجدوں کی امانت سے ہونا ہے ہمیں فارغ اک بار سرِ کعبہ سَو بار مدینے میں یہ شانِ عطا دیکھی، یہ ان کا کرم دیکھا سُلطان نظر آئے نارار مدینے میں دِل سَازِ محبت تو بے شک ہے مگر خاؔلد اِس ساز کے بجتے ہیں سَب تار مدینے میں۔۔۔
مزیدمیں بے نیاز ہوں دنیا کے ہر خزانے سے ملی ہے بھیک محمد کے آستانے سے بہت ہی سونی تھی، بے کیف تھی خدا کی قسم سجی ہےمحفلِ کونین تیرے آنے سے مِلاہے منزل قوسین کا نشاں مجھ کو تمہارے نقش کفِ پا پہ سر جھکانے سے پسِ فنا جو ترے در کی خاک ہوجائے مریض ہجر کی مٹی لگے ٹِھکانے سے گدائے بے سروساماں ہوں آل کا صدقہ مجھے بھی دیجئے سرکار کچھ خزانے سے کناہ گار ہوں، نسبت مگر منوّر ہے سنور گیا ہوں ترے در پہ سر جھکانے سے ہمارے سر پہ ہے دامانِ رحمتِ عالم نہ مِٹ سکیں گے زمانے ترے مٹانے سے زہے نصیب بھکاری اُسی کا ہے خاؔلد ملی ہے بھیک دو عالم کو جس گھرانے سے۔۔۔
مزیدسیّدی یا حبیبی مولائی آج فریاد کی ہو شنوائی a منتظر ہے کرم کا سودائی مل گئی راحتِ جناں مجھ کو حق کی رحمت نے دی اماں مجھ کو جب مصیبت میں تیری یاد آئی اس کی قسمت پہ دو جہاں صدقے اس پہ بخشش نثار سوجاں سے تیرے کوچے میں جس کو موت آئی باغِ فردوس کی بہاروں میں ساری دنیا میں چاند تاروں میں حُسن سرکار کی ہے رعنائی بارِ عصیاں سے دب گیا ہوں میں غم کے طوفان میں گھر رہاہوں میں المدد سیّد ی و مولائی لاج رکھ لینا آل کا صدقہ اپنےپیارے بلال کا صدقہ ہو نہ محشر میں میری رُسوائی۔۔۔
مزیدمیری بگڑی بنا ئیے آقا دستگیری کو آئیے آقا سخت مشکل میں ہے تمنّائی حاصل زندگی ہو ہر سجدہ نازشِ بندگی ہو ہر سجدہ گر مدینے میں ہو جبیں سائی من کمینہ سگِ دَیّارِ توام لُطف کن لُطف خواستگار توام کہ تو بندہ نواز آقائی غم کے ماروں کو ہر خوشی بخشی بے نواؤں کو سروری بخشی یوں محمد نے کی مسیحائی آخری وقت جاگ اٹھے قِسمت سامنے ہو حضور کی صورت دیکھوں خاؔلد جمالِ زیبائی۔۔۔
مزید