/ Thursday, 13 March,2025


ریحانِ ملت حضرت علامہ محمد ریحان رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ   (20)





جس نے دیکھے یورپ کے چال وچلن

جس نے دیکھے یورپ کے چال وچلن ان کو سب کچھ روا ہے بعوان فن جگمگائی ہوئی شب تھر کتے بدن   رقص نغمات میخانہ توبہ شکن   حیف! اس قوم کا قوی کلچر ہے یہ   دوسروں پر رہی قوم کا قوی جو خندہ زن   کس قدر حسن یورپ کا بے باک ہے   بے حیا، بے وفا بے شرم بد چلن   کیرے رقص ہے تو اسڑپ ثیز ہے   نام عورت کی عریانیت کا ہے فن   اس قدر عام جنسی جنوں ہے یہاں   کہ نہیں کرتے تخلیص مرد اور زن   چاہے اگلی ہو پچھلی سب ہی ایک ہے   نسل یورپ کی ساری ہے پراز فتن   ہر طرف آدمیت ہے نوحہ کناں   اور ابلیس ہے جا بجا خندہ زن   بقعہ نور یورپ کے سب شہر ہیں   پر نہیں ان میں ایماں کی نوری کرن   قوم مسلم کو ریحاؔں یہ پیغام دے   اے مسلماں تو یورپ کو اسلام دے  ۔۔۔

مزید

یہ مانا بہت خوبصورت ہے یورپ

یہ مانا بہت خوبصورت ہے یورپ مگر میرا دل اس میں لگتا نہیں ہے حسینوں کی دنیا نگاہوں کی زینت   جسے دیکھ کر دل بہلتا نہیں ہے   ہوا یہ چل گئی کیسی جلی فصل بہار اپنی   گلستان کا یہ عالم دیکھ کے حالت ہے زار اپنی   ہمیں یہ سنگ دل کیوں چین سے جینے نہیں دیتے   ہوئی کس جزم میں خواری مرے پروردگار اپنی   نہ مسلو، ظالمو! کلیاں چمن کے پھول مت توڑو   یہ اپنا ہی گلستاں ہے یہ ہے فصل بہار اپنی   بنام باغبانی پھول تم نے ذبح کرڈالے   بڑے تم مورما ہو روک لو ابتو کنار اپنی   نہ دو الزام گل چیں کو چمن کے باغباں تم ہو   تمہارے دور میں کیسے کئی فصل بہار اپنی   نشاں بھی اب مٹانا چاہنے ہو میرا گلشن سے   یہ میرا ظرف تھا کہ بخش دی تم کو بہار اپنی   میں گلشن میں جہاں چاہوں بناؤں آشیاں اپنا   یہ گل اپنے کلی اپنی چ۔۔۔

مزید

گمناؤں سے فضا مخمور ہے صحن گلستان کی

گمناؤں سے فضا مخمور ہے صحن گلستان کی الٰہی لاج تیرے ہاتھ ہے اب عہد و پیماں کی نظر بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے نگہباں کی   عنادل کیا تمہیں کچھ فکر ہے اپنے گلستان کی   میں ان سے فاصلے پر اس لئے بیٹھا ہوں محفل میں   کہ پگھل جائے نہ میرا دل تپش سے حسن عریاں کی   یہ گل اب پھیکے پھیکے سے مجھے معلوم ہوتے ہیں   تمہارے ساتھ ہی رونق گئی میرے گلستان کی   جو ہیں سیراب پہلے سے انہیں کو جام ملتا ہے   مجھے پھر تشنگی کیسے یہاں رند پریشاں کی   جناب شیخ کا ظاہر بظاہر خوب ہے لیکن   حقیقت جانتا ہوں خوب میں پاکی واماں کی   بمشکل چند تنکے ہی ہمارے ہاتھ آئے ہیں   بہاریں باغباں نے لوٹ لیں سارے گلستان کی   ملا مجھ سا نہ کوئی باوفا تو اب یہ کہتے ہیں   وفا پیکر تو ریحاؔں تھا کہاں وہ بات ریحاؔں کی  ۔۔۔

مزید

یہ میری خوبی قسمت مجھے جس سے محبت ہے

یہ میری خوبی قسمت مجھے جس سے محبت ہے محبت نام ہی سے اس ستم گر کو عداوت ہے نہ تم میرے ہوئے نہ ہو سکو گے یہ قیامت ہے   یہ سب کچھ جانتا ہوں کیا کروں تم سے محبت ہے   تسلی سے ذرا بیٹھو کہ اب ہنگامِ رخصت ہے   لو اب ہم جارہے ہیں اب تمہیں فرصت ہی فرصت ہے   نہ اب ہم تم کو چھیڑیں گے نہ اب تم کو ستائیں گے   نہ اب تم کہہ سکو گے کیا بری یہ تیری عادت ہے   تیرے عارض میرے گل ہیں میری کلیاں تیرے لب ہیں   میرے پہلو میں تو کب ہے میرے پہلو میں جنت ہے   تیری آنکھوں سے پی کر جامِ الفت مست و بے خود ہوں   میں جس دنیا میں رہتا ہوں اسی کا نام جنت ہے   یہ دنیا پوچھتی ہے نام تیرا لے نہیں سکتا   مگر اتنا بتادوں گا اگر تیری اجازت ہے   میرے محبوب کی پہچان کو اتنا ہی کافی ہے   حسینانِ جہاں میں کب کسی کی ایسی صورت ہے   غز۔۔۔

مزید

امیر سنگدل سے یہ ہر اک مزدور کہتا ہے

امیر سنگدل سے یہ ہر اک مزدور کہتا ہے مِرے خون جگر ہی کی ترے ہونٹوں پہ لالی ہے مِرے ساقی بتا کیسا نظام میکدہ ہے یہ   کوئی مدہوش ہے پی کر کسی کا جام خالی ہے  ۔۔۔

مزید

یہ بھی کمال دیکھو اردو کے یہ مخالف

یہ بھی کمال دیکھو اردو کے یہ مخالف جب کوئی گیت گائیں اردو میں گنگنائیں۔۔۔

مزید

چمن کی ڈالی ڈالی پر ہمارا نام لکھا ہے

چمن کی ڈالی ڈالی پر ہمارا نام لکھا ہے ہم ہی باہر نکل جائیں اب اپنے آشیانے سے کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں ہم جاکے رولیں گے   مگر یہ سوچ لے ظالم کہے گا کیا زمانے سے   ہمارے باغبان رحم دل کا فیصلہ یہ ہے   عنادل کچھ نہ رکھیں کام اپنے آشیانے سے۔۔۔

مزید

ادائے مصطفیٰ تم ہو رضائے مصطفیٰ تم ہو

ادائے مصطفیٰ تم ہو رضائے مصطفیٰ تم ہو ہر اک انوار سے اے مقتدا احمد رضا تم ہو شبیہ حضرت غوث الوریٰ ابن رضا تم ہو جہانِ علم کے مفتیِ اعظم مصطفیٰ تم ہو ولی ابن ولی زندہ ولی ہو پارسا تم ہو سراپا زہد ہو اور پیکر صدق و صفا تم ہو تمھارے ظاہر و باطن پہ نازاں پارسائی ہے جو خیر اتقیا تم ہو تو نازِ اصفیا تم ہو پِلادو جامِ نوری اپنی نورانی نگاہوں سے   کہ نوری میکدہ کے میر، میرے ساقیا تم ہو   میری دنیائے دین کا ما حصل الفت تمہاری ہے   قیامت میں میرے ماویٰ و ملجا آسرا تم ہو   کسی کو کیوں سناؤں داستان اپنے مصائب کی   میرے دکھ کی دوا تم ہو میرے مشکل کشا تم ہو   مجھے توفیق صبر و استقامت پیکر صبر و رضا تم ہو   اسی میٹھی نظر سے دیکھ لو پھر اپنے منگتا کو   کہ اس کی آرذو حسرت تمنا مدعا تم ہو   تمہاری ذات میں جلوے رضا حامد رضا کے ہیں &nb۔۔۔

مزید