سنبھل جا اے دل مضطر مدینہ آنے والا ہے لُٹا اے چشمِ تر گوھر مدینہ آنے والا ہے قدم بن جائے میرا سر مدینہ آنے والا ہے بچھوں رہ میں نظر بن کر مدینہ آنے والا ہے جو دیکھے ان کا نقش پا خدا سے وہ نظر مانگوں چراغِ دل چلوں لے کر مدینہ آنے والا ہے کرم ان کا چلا یوں دل سے کہتا راہِ طیبہ میں دلِ مضطر تسلی کر مدینہ آنے والا ہے مدینہ کی نچھاور ہیں یہ میرا دل مری آنکھیں نچھاور ہوں مدینہ پر مدینہ آنے والا ہے الٰہی میں طلب گارِ فنا ہوں خاک طیبہ میں الٰہی کر نثارِ در مدینہ آنے والا ہے مدینہ کو چلا میں بے نیازِ رہبرِ منزل رہِ طیبہ ہے خود رہبر مدینہ آنے والا ہے مجھے کھینچے لئے جاتا ہے شوقِ کوچۂ جاناں کھنچا جاتا ہوں میں یکسر مدینہ آنے والا ہے وہ چمکا گنبد خضریٰ وہ شہر پُر ضیاء آیا ڈھلے اب نور میں پیکر مدینہ آنے والا ہے ۔۔۔
مزیدپی کے جو مست ہوگیا بادۂ عشق مصطفیٰ اس کی خدائی ہوگئی اور وہ خدا کا ہوگیا کہہ دیا قَاسِمٌ اَنَا دونوں جہاں کے شاہ نے یعنی درِ حضور پہ بٹتی ہے نعمت خدا عرصۂ حشر میں کھلی انکی وہ زلفِ عنبریں مینہ وہ جھوم کر گرا چھائی وہ دیکھئے گھٹا گردشِ چشم ناز میں صدقے ترے یہ کہہ تو دے لے چلو اس کو خلد میں یہ تو ہمارا ہوگیا۔۔۔
مزیدباغِ تسلیم و رضا میں گل کھلاتے ہیں حسین یعنی ہنگامِ مصیبت مسکراتے ہیں حسین برقِ عالم سوز کا عالم دکھاتے ہیں حسین مسکرا کر قلعہ باطل کا گراتے ہیں حسین مرضیٔ مولیٰ کی خاطر ہر ستم کو سہہ لیا کس خوشی سے بارِ غم دل پر اٹھاتے ہیں حسین ٭…٭…٭۔۔۔
مزیدپیروں کے آپ پیر ہیں یا غوث المدد اہل صفا کے میر ہیں یا غوث المدد رنج و الم کثیر ہیں یا غوث المدد ہم عاجز و اسیر ہیں یا غوث المدد ہم کیسے جی رہے ہیں یہ تم سے کیا کہیں ہم ہیں الم کے تیر ہیں یا غوث المدد تیرِ نظر سے پھیر دو سارے الم کے تیر کیا یہ الم کے تیر ہیں یا غوث المدد تیرے ہی ہاتھ لاج ہے یا پیر دستگیر ہم تجھ سے دستگیر ہیں یا غوث المدد اِدْفَعْ شَرَارَ الشَرْ یَا غَوْثَنَا الْاَبَرْ شر کے شرر خطیر ہیں یا غوث المدد کس دل سے ہو بیانِ بے داد ظالماں ظالم بڑے شریر ہیں یا غوث المدد اہلِ صفا نے پائی ہے تم سے رہِ صفا سب تم سے مستنیر ہیں یا غوث المدد صدقہ رسولِ پاک کا جھولی میں ڈال دو ہم قادری فقیر ہیں یا غوث المدد دل کی سنائے اخترؔؔ دل کی زبان میں کہتے یہ بہتے نیر ہیں یا غوث المدد ٭…٭…٭۔۔۔
مزیدمنقبت در مدح حضرت سید سالار مسعود غازی علیہ الرحمہ ٓ--------------------------- حضرتِ مسعود غازی اختر برج ھدیٰ بے کسوں کا ہمنوا وہ سالکوں کا مقتدا ساقیٔ صہبائے الفت راز دانِ معرفت بادشہ ایسا وہ جس کی ایک دنیا ہے گدا آسمانِ نور کا ایسا درخشندہ قمر جس کی تابش سے منور سارا عالم ہوگیا نائب شاہِ شہیداں وہ محافظ نور کا جس نے سینچا ہے لہو سے گلشن دین خدا استقامت کا وہ کوہِ محکم و بالا تریں جس کے آگے کوہِ آفات و مصائب جھک گیا سادگی میں بھی ہے وہ سردارِ خوباں دیکھئے کیا مقدس ذات ہے جس کی نرالی ہر ادا نوشۂ بزمِ جناں وہ بندۂ ربِ جہاں حور و غلماں جس کی خدمت پر مقرر ہیں سدا تیرے نورِ فیض سے خیرات دنیا کو ملی ہم کو بھی جَدِّ معظم کا ملے صدقہ شہا یا الٰہی تیرے بندے کے درِ پر نور پر گردشِ ایام کا میں تجھ سے کرتا ہوں گلہ۔۔۔
مزیدمنقبت در شانِ مفتیٔ اعظم ہند قبلہ دامت برکاتہم العالیہ ------------------------- مفتیٔ اعظمِ دینِ خیر الوریٰ جلوۂ شانِ عرفانِ احمد رضا دیدِ احمد رضا ہے تمہیں دیکھنا ذاتِ احمد رضا کا ہو تم آئینہ کیا کہوں حق کے ہو کیسے تم مقتدیٰ مقتدایانِ حق کرتے ہیں اقتدا ان کی مدحت کو میں کس سے مانگوں زباں کیا مقامِ ثریا بتائے ثرا احمدِ نوریؔ کے ہیں یہ مظہرِ تمام یہ ہیں نوریؔ میاں نوری ہر ہر ادا نور کی مے پلاتے ہیں یہ روز و شب جس کو پینا ہو آئے ہے میخانہ وا ہیں بہت علم والے بھی اور پیر بھی آنکھوں دیکھا نہ ان سا نہ کانوں سنا ان کا سایہ سروں پر سلامت رہے منھ سڑاتے رہیں یونہی دشمن سدا ان کے حاسد پہ وہ دیکھو بجلی گری وہ جلا دیکھ کر وہ جلا وہ جلا وہ جلیں گے ہمیشہ جو تجھ سے جلیں مرکے بھی دل جلوں کو نہ چین آئے گا &nbs۔۔۔
مزیدتمہیں جس نے بھی دیکھا کہہ اٹھا احمد رضا تم ہو جمالِ حضرتِ احمد رضا کا آئینہ تم ہو نہیں حامد رضا ہم میں مگر وجہِ شکیبائی خدا رکھے تمہیں زندہ مرے حامد نما تم ہو تمہارے نام میں تم کو بزرگی کی سند حاصل رضا وجہِ بزرگی ہے رضائے مصطفی تم ہو تمہارے نام میں یوں ہیں رضا و مصطفی دو جز رضا والے یقینا مصطفٰی کے مصطفی تم ہو تمہاری رفعتوں کی ابتدا بھی پا نہیں سکتا کہ افتادہ زمیں ہوں میں بلندی کا سما تم ہو حیات و موت وابستہ تمہارے دم سے ہیں دونوں ہماری زندگی ہو اور دشمن کی قضا تم ہو یہ نوری چہرہ یہ نوری ادائیں سب یہ کہتے ہیں شبیہِ غوث ہو نوری میاں ہو اور رضا تم ہو رضا جویانِ رب تھامے ہوئے ہیں اس لئے دامن رضا سے کام پڑتا ہے رضائے کبریا تم ہو جناب مفتیٔ اعظم کے فیضانِ تجلی سے شبستانِ رضا میں خیر سے اخترؔ رضا تم ہو ٭…٭۔۔۔
مزیدمست مئے الست ہے وہ بادشاہِ وقت ہے بندۂ در جو ہے ترا وہ بے نیازِ تخت ہے صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ ان کی گدائی کے طفیل ہم کو ملی سکندری رنگ یہ لائی بندگی اوج پہ اپنا بخت ہے صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ گردشِ دور یانبی ویران دل کو کر گئی تاب نہ مجھ میں اب رہی دل مرا لخت لخت ہے صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ غنچۂ دل کھلائیے جلوۂ رخ دکھائیے جام نظر پلائیے تشنگی مجھ کو سخت ہے صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ اخترِؔ خستہ طیبہ کو سب چلے تم بھی اب چلو جذب سے دل کے کام لو اٹھو کہ وقتِ رفت ہے صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ ٭…٭…٭۔۔۔
مزیدنہاں جس دل میں سرکارِ دو عالم کی محبت ہے وہ خلوت خانۂ مولیٰ ہے وہ دل رشک جنت ہے خلائق پر ہوئی روشن ازل سے یہ حقیقت ہے دو عالم میں تمہاری سلطنت ہے بادشاہت ہے خدا نے یاد فرمائی قسم خاکِ کفِ پا کی ہوا معلوم طیبہ کی دو عالم پر فضیلت ہے سوائے میرے آقا کے سبھی کے رشتے ہیں فانی وہ قسمت کا سکندر ہے جسے آقا سے نسبت ہے یہی کہتی ہے رندوں سے نگاہِ مست ساقی کی درِ میخانہ وا ہے میکشوں کی عام دعوت ہے غم شاہِ دنیٰ میں مرنے والے تیرا کیا کہنا تجھے لَا یَحْزَنُوْا کی تیرے مولیٰ سے بشارت ہے اٹھے شورِ مبارکباد ان سے جا ملا اخترؔ غم جاناں میں کس درجہ حسیں انجام فرقت ہے۔۔۔
مزیددر منقبت حضور مفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ -------------- چل دیئے تم آنکھ میں اشکوں کا دریا چھوڑ کر رنج فرقت کا ہر اک سینہ میں شعلہ چھوڑ کر لذت مے لے گیا وہ جام و مینا چھوڑ کر میرا ساقی چل دیا خود مے کو تشنہ چھوڑ کر ہر جگر میں درد اپنا میٹھا میٹھا چھوڑ کر چل دیئے وہ دل میں اپنا نقش والا چھوڑ کر جامۂ مشکیں لئے عرشِ معلی چھوڑ کر فرش پر آئے فرشتے بزمِ بالا چھوڑ کر عالمِ بالا میں ہر سو مرحبا کی گونج تھی چل دیئے جب تم زمانے بھر کو سونا چھوڑ کر موتِ عالِم سے بندھی ہے موتِ عالَم بے گماں روحِ عالَم چل دیا عالَم کو مردہ چھوڑ کر متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی ایک میرے مفتیٔ اعظم کا تقویٰ چھوڑ کر خواب میں آکر دکھائو ہم کو بھی اے جاں کبھی کون سی دنیا بسائی تم نے دنیا چھوڑ کر ایک تم دنیا میں رہ کر تارک دنیا رہے رہ کے د۔۔۔
مزیددر منقبت حضور مفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ ------------------ زینتِ سجادہ و بزم قضا ملتا نہیں لعلِ یکتائے شہ احمد رضا ملتا نہیں وہ جو اپنے دور کا صدیق تھا ملتا نہیں محرمِ راز محمد مصطفی ملتا نہیں اب چراغِ دل جلا کر ہوسکے تو ڈھونڈیئے پَر توِ غوث و رضا و مصطفیٰ ملتا نہیں عالمِ سوزِدروں کس سے کہوں کس سے کہوں چارہ سازِ دردِ دل درد آشنا ملتا نہیں عالموں کا معتبر وہ پیشوا ملتا نہیں جو مجسم علم تھا وہ کیا ہوا ملتا نہیں زاہدوں کا وہ مسلم مقتدا ملتا نہیں جس پہ نازاں زہد تھا وہ پارسا ملتا نہیں فردِ افرادِ زماں وہ شیخ اشیاخِ جہاں کاملانِ دہر کا وہ منتہا ملتا نہیں استقامت کا وہ کوہِ محکم و بالا تریں جس کے جانے سے زمانہ ہل گیا ملتا نہیں چار یاروں کی ادائیں جس میں تھیں جلوہ نما چار یاروں کا وہ روشن آئینہ ملتا نہیں ای۔۔۔
مزیدشہنشاہِ دو عالم کا کرم ہے مرے دل کو میسر اُن کا غم ہے یہیں رہتے ہیں وہ جانِ بہاراں یہ دنیا دل کی رشک صد ارم ہے بھلا دعوے ہیں ان سے ہمسری کے سر عرشِ بریں جن کا قدم ہے یہ دربارِ نبی ہے جس کے آگے نہ جانے عرشِ اعظم کب سے خم ہے ترس کھائو میری تشنہ لبی پر مری پیاس اور اک جام؟ کم ہے دلِ بیتاب کو بہلائوں کیسے بڑھے گی اور بے تابی ستم ہے یہاں قابو میں رکھیے دل کو اخترؔ یہ دربار شہنشاہِ امم ہے۔۔۔
مزید