جمعہ , 28 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 19 December,2025

حضرت سید علی

ارباب کمال اور صاحبان سکروجدووحال سے آپ کے گہرے تعلقات تھے ہمیشہ حال اور  سرگرمی کی حالت میں رہتے اور مجذوبانہ باتیں کرتے تھے، ہمیشہ کسی خاص لباس میں نہ رہتے بلکہ کبھی تو مشائخین کا لباس پہنتے اور کبھی سپاہیانہ لباس  زیب تن کرتے، دراصل سوانہ کے سادات میں سے تھے، طلب حق کے لیے سوانہ سے چل کر جونپور آئے جہاں درویشوں کی خدمت کی اور پھر شیخ بہاؤالدین جونپوری کے مرید ہوگئے، مخصوص مقبولیت اور مخصوص حالت نصیب ہوگئی، رزق کے دروازے آپ پر کھل گئے۔ آپ کی چار بیویاں تھیں، اور اکثر لوگوں کو وظیفے دیا کرتے تھے، اپنی آمدنی میں سے نصف اپنی بیویوں کو دیتے، اور باقی نصف کو غریبوں محتاجوں پر خرچ کردیا کرتے، آپ کی آمدنی مسلسل جاری رہی کبھی بند نہیں ہوئی۔ آپ نے چالیس برس تک کسی خادِم سے کام کرنے کو نہیں کہا، ایک رات آپ سوگئے تھے کہ یکایک آنکھ کھلی پیاس کا غلبہ تھا، جو آدمی ہمیشہ آپ کے لیے پانی رکھا ک۔۔۔

مزید

حضرت سید علاءالدین

آپ عالی نسب سید اور صاحب ذوق و حال بزرگ تھے، فن موسیقی میں بھی ماہر تھے، شاعری بھی کرتے تھے، ندا نم آں گل خنداں چہ رنگ و بودارد کہ مرغ ہر چمنے گفتگوئے اودارد ترجمہ (نہ معلوم اس گل خنداں کی کیسی رنگ و بو ہے کہ ہر باغیچہ کا مرغ اس کی گفتگو میں مصروف ہے) بجستجوئے نیابد کسے مراد دلی! کسے مراد بباید کہ جستجو دارد ترجمہ (محض جستجو سے کوئی اپنے دل کا مقصد حاصل نہیں کرسکتا کہ مگر وہ جو اس تلاش میں ہوں) نشاط بادہ پرستاں بامنتہی برسید ہنوز ساقی ما بادہ در سبو دارد ترجمہ (سرمستان شراب اپنے عروج پر پہنچ گئے حالانکہ اب تک ساقی کے پاس سبو میں شراب موجود ہے) حدیث عشق تو تنہا نہ من ہمی گویم کہ ہر ہست ازیں گو نہ گفتگو دارد ترجمہ (آپ کے عشق کی باتیں صرف میں نہیں کرتا بلکہ ہر شخص اس گفتگو میں حصہ لے رہا ہے) متاع دل بکف دلبرے بدہ توعلاء کہ ایں متاع  گرا نمایہ و انکو  دارد ترجمہ (سامانِ دل کو کس۔۔۔

مزید

حضرت سید سلطان بھڑائچی

والد بزرگوار فرماتے تھے کہ سید سلطان بھڑائچی اہل دل، خاکسار اور صاحب ہمت درویش تھے، شیخ علاؤالدین کے مرید تھے مگر تلقین و ارشاد کا تعلق مشرب شطاریہ سے رکھتے تھے، لباس میں صرف ستر عورت پر اکتفا کرتے اور  عام طور پر ننگے سر رہا کرتے کبھی درویشوں کے ساتھ رہتے اور کبھی عالم تنہائی میں رہتے، دنیوی رسوم سے آزاد  رہا  کرتے تھے، ذکر بالجہر زیادہ کرتے تھے، دَوران ذکر میں آپ اپنے دل پر  اس زور  سے ضرب لگاتے تھے کہ جس طرح صنوبر کی لکڑی چیرتے وقت کثر کثر کی آوازیں نکلتی ہیں اسی طرح آپ کے دل سے آوازیں نکلتی تھیں۔ اللہ اللہ میرے والد صاحب نے فرمایا کہ میں پہلے طلب حق کے سلسلہ میں سلطان بھڑائچی کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت کتابت میں مشغول تھے میں بیٹھے بیٹھے سر نیچا کیے چپکے چپکے ذکر کرنے لگا، تھوڑی دیر کے بعد سر اُٹھا کر میری طرف غصہ سے دیکھنے لگے اور بعد میں تبسم فرمایا اور م۔۔۔

مزید

حضرت شیخ علاءالدین

آپ شیخ نورالدین اجودھنی کے فرزند ہیں جو شیخ فریدالدین گنج شکر کی اولاد میں سے تھے، آپ یکتائے زمانہ، فرشتہ صفت اور ذی اخلاق بزرگ تھے، فطری طور پر آپ مہذب اور مودب پیدا ہوئے تھے، درویشوں کے اخلاق وکملات آپ کی طبیعت میں داخل ہوگئے تھے، بردباری و کرم سخاوت و درگذر کرنے کی صفات آپ میں بدرجہ اتم موجود تھیں، تن پروری اور  نفس پرستی سے پرہیز کرتے تھے، اپنے زمانہ میں فرید ثانی کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ کو خواجہ قطب الدین کی روحانیت سے خاص رابطہ اور تعلق تھا۔ حکایت ہے کہ ایک دن ایک درویش نے آکر کہا کہ میرے پاس تریاق ہے آپ نے جواب میں فرمایا کہ میرے پاس بھی ہے، بعد میں فرمایا اچھا امتحان کریں، چنانچہ ایک چڑیا کو پکڑکر اس کے حلق میں ایک قطرہ زہر ٹپکایا گیا اس کے بعد شیخ علاؤالدین نے لنگر خانے میں سے کیک کا ٹکڑا پانی میں بھگویا اور وہ پانی اس چڑیا کے حلق کے ڈالا گیا، اسی وقت وہ چڑیا زندہ ہوگئی، آپ 8۔۔۔

مزید

حضرت شیخ خانو گوالیری

آپ اپنے وقت کے مشہور مشائخ میں سے تھے، خواجہ حسین ناگوری کے مرید تھے اور شیخ اسماعیل ابن شیخ حسین سرمست سے خرقہ حاصل کیا، حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی محبت روحانی میں غرق تھے، بڑھاپے اور کمزوری اعضاء کے سبب لوگوں کی تعظیم کے لیے کھڑے نہ ہوتے تھے، ایک مرتبہ آپ کے والد صاحب آپ کے پاس گئے ہوئے تھے تو والد صاحب نے دریافت کیا کہ آپ کسی کی تعظیم کے لیے کھڑے نہیں ہوتے اس کا کیا سبب ہے تو آپ نے جواب دیا کہ میں بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہوں اس لیے ہر آنے جانے والے کی تعظیم کے لیے نہیں کھڑا ہوسکتا، بعض کے لیے قیام کرنا اور بعض کے لیے نہ کرنا فقیروں کے شایان شان نہیں ہے اس لیے میں معذور ہوں۔ شیخ نظام نارنولی آپ کے مریدوں میں سے تھے انہوں نے بھی اپنے پیرومرشد کے اتباع میں بغرض تعظیم کھڑا ہونا ترک کردیا تھا، اس کے باوجود مقبول عام و خاص اور  شہرت کے مالک  تھے۔ شیخ نظام کے بھائی شیخ اسماٰعیل بھی ۔۔۔

مزید

حضرت شیخ یوسف چریا کوٹی

مشرب شطاریہ کے درویش تھے آپ کا حلقہ ذکر عجیب و غریب تھا، دوران ذکر عشقیہ  اشعار پڑھتے تھے اور وجد میں آتے تھے بڑی شان کے بزرگ تھے، دو واسطوں کے ذریعہ شیخ عبداللہ شطر تک آپ کا سلسلہ ہے، آپ کے والد بزرگوار نے شیخ شطار سے فیض حاصل کیا تھا، اس وقت بھی آپ کی اولاد علاقہ دوآبہ کے درمیان بعض مواقعات میں موجود ہے، اللہ آپ پر رحمتیں نازل کرے۔ اخبار الاخیار۔۔۔

مزید

حضرت سید حسین پائے میناری

آپ بڑے جہاندیدہ اور صاحب صحبت درویش تھے ، سلطان سکندر کے زمانے میں مشہد مقدس طوس سے آکر دہلی میں سکونت پذیر ہوگئے، سلطان کی صحبت خوشگوار نہ آئی تو اس لیے قلعہ دہلی میں پائے منار کی مسجد میں گوشہ گیر ہوگئے، سلطان کی بعض رئیس زادیاں آپ کی معتقد ہوگئی تھیں اس لیے ضروری اسباب معیشت کا انتظام ہوگیا اس کے علاوہ اندرون قلعہ کی کچھ زمین پر خود کاشت کرتے تھے اور اس کی آمدنی فقراء پر خرچ کرتے تھے، آپ کے اور شیخ جمالی کے درمیان کچھ نا خوشگواری تھی، شیخ جمالی آپ سے مزاح کرتے اور آپ کی طرف ناشائستہ باتیں منسوب کرتے تھے، ایک دن آپ نے غصہ میں اپنا عضو مخصوص کاٹ کر شیخ جمالی کے پاس بھیج دیا، بعض لوگ اس واقعہ کی تردید بھی کرتے ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ آپ کو استسقاء کی بیماری تھی، چنانچہ بمشورہ اطباء آپ نے آپریشن کرایا اور لوگوں میں یہ بات اس طرح مشہور ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ آپ کی ایذا رسانی کے مد نظر شیخ جمالی ۔۔۔

مزید

حضرت مولانا شعیب

آپ عالم باعمل تھے، سیرت و صورت کے لحاظ سے فرشتہ خصلت تھے اور وعظ و نصیحت میں بے مثال تھے، جب وعظ کہتے اور قرآن شریف کی تلاوت کرتے تو کسی کو طاقت نہ تھی کہ وہاں سے چلا جائے اگرچہ اس کے سر پر بوجھ ہی کیوں نہ ہو وہ برابر کھڑے ہوکر آپ کی تلاوت اور وعظ کو سنتا رہتا، دوران وعظ میں خوشخبری اور عذاب کے مختلف مقامات پر آپ کی حالت خود بخود غیر ہوجاتی، شہر کے بلند پایہ علما اور مشائخ آپ کے وعظ میں شریک ہوتے تھے شہر کے اکثر و بیشتر باشندے آپ کے شاگرد تھے۔ آپ کے والد مولانا منہاج اپنے بچپن میں لاہور سے حصول علم کی غرض سے دہلی آئے اور زمانہ طالب علمی میں بے حد تکالیف برداشت کرتے رہے، بعدازفراغت سلطان بہلول کے زمانہ میں مفتی شہر مقرر ہوئے اور یہیں دہلی میں سکونت پذیر ہوگئے۔ حکایت ہے کہ مولانا منہاج بعض اوقات دکانوں سے آٹا اور گھی مانگ لاتے اور اسی کا چراغ بناکرمطالعہ کرتے اور صبح کو اسی کی روٹی پکاکر کھا۔۔۔

مزید

حضرت شیخ ادھن دہلوی

مصنف کتاب (شیخ عبدالحق محدث دہلوی) کے نانا تھے، آپ کا اصلی نام زین العابدین تھا، اور عرف شیخ ادھن تھا، بڑے دانش مند اور عابد و زاہد تھے، بے حد خشوع و خضوع، خاکساری و ادب و تہذہب اور وقار و دبدبہ کے بزرگ تھے، شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے والد بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کوئی شخص ایسا نہ دیکھا جس کا ظاہروباطن یکساں ہو، البتہ شیخ ادھن جس آداب سے باہر رہتے وہی طریقے گھر میں بھی برتتےتھے، ہمیشہ ذکر الٰہی سے رطب اللسان رہتے تھے چہرۂ مبارک نہایت خوبصورت تھا، علم و تقویٰ کے انور پیشانی پر چمکتے تھے، اکثر و بیشتر روزے سے رہتے تھے اور کھانے میں بہت احتیاط کرتے تھے، سلطان لودھی نے آپ کو اپنا نگراں مقرر کرنا چاہا لیکن آپ نے انکار فرمادیا، آپ مولانا سماع الدین کے مرید تھے اور میاں عبداللہ طبنی سے شرف تلمذ حاصل کیا، آپ کی وفات934ھ میں ہوئی، حوض شمسی کے مغرب میں آپ کا مقبرہ ہے، اللہ آپ سب پر رحمتیں نا۔۔۔

مزید

حضرت شیخ امجد دہلوی

آپ سلطان بہلول کے زمانہ میں خواجہ قطب الدین والحق کےملازم اور صحبت یافتہ تھے نیز آپ سے روحانی استفادہ کرتے تھے، ایک مرتبہ کسی ضروری کام کے لیے اپنے وطن سے روانہ ہوئے راستے میں دریا پڑا جب اس کی گہرائی میں پہنچے تو ہلاکت کے قریب ہوگئے، اسی لمحہ دریا میں سے ایک آدمی نمودار ہوا جس نے آپ کو ڈوبنے سے بچالیا، وہاں سے گھر واپس ہوئے، پھر کبھی باہر قدم نہیں نکالا اور بلاواسطہ خواجہ قطب الدین سے استفادہ کی نسبت قائم کرلی اور دوسرے لوگوں کو مُرید کرنے لگے، آپ کا مقبرہ حوض شمسی پر ہے، اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ اخبار الاخیار۔۔۔

مزید