آپ راجی حامد شاہ کے بیٹے تھے اور اپنے والد کی طرح صاحب کرامت بزرگ تھے، سپاہیانہ لباس پہنتے جس میں اپنے حال اور مشغولی باطن کو چھپائے رکھتے تھے، آپ کا مزار بھی مانک پور میں ہے۔ اللہ آپ پر اپنی رَحَمت نازل فرمائے۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
ابتدائی عمر میں آپ آپ بادشاہوں کی خدمت میں رہا کرتے تھے اور بڑے دولت مند تھےاس کے بعد جذبہ الٰہی میں تمام متاع دنیا کو پائے حقارت سے ٹھکراکر شیخ حسام الدین مانک پوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے پاس رہ کر ذکر اللہ وغیرہ اشغال میں مشغول رہے اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ کہتے ہیں کہ آپ اپنی جوانی میں ایک عورت پر بُری طرح فریفتہ تھے، درویش بننے کے بعد خرقۂ خلافت پہن کر ایک روز اس عورت کے پاس گئے تو اس عورت نے کہا کہ سیدو! اب تو تم الہیہ بن گئے ہو، یعنی گدا اور فقیر، فقیر کو ان کے ہاں الہیہ کہتے تھے، اس کے بعد آپ کا لقب ہی سیدو الہیہ ہوگیا اور وہ عورت بھی مَحَبت کی وجہ سے آپ کی خدمت میں آگئی اور فقیر بن گئی، شاہ سیدو فن شاعری میں بھی دسترس رکھتے تھے چنانچہ آپ کے اشعار میں سے ایک شعریہ ہے دل گویدم سیدد بگو احوال خودیک یک بر او آندم کو خودمی آید او سید و کجا گفتار کو! ایک ۔۔۔
مزید
آپ سرہر پور کے باشندے تھے اور چند ہی واسطوں سے شاہ خضر تک جو قطب الدین بختیار کاکی کے خلیفہ تھے سلسلہ پہنچ جاتا ہے، آپ بہت بلند پایہ درویش تھے کہتے ہیں کہ شیخ عبداللہ شطاری جب اس علاقہ میں تشریف لائے تو ملنےوالوں کا ایک جم غفیر لگ گیا، شاہ داؤد بھی ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر گئے، شیخ عبداللہ کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنے گھر سے بَاہَر ایک دربان اور ایک چوکیدار رکھا کرتے تھے چنانچہ اس دربان نے شاہ داؤد کو داخل ہونے سے روک دیا، شاہ داؤد کو غصہ آیا اور انہوں نے چوکیدار کو زور سے دھکا دیا، جس کی وجہ سے وہ گرگیا اور آپ اس کے سینہ سے گزر کر شیخ تک پہنچ گئے، اور جس تخت اور کرسی پر شیخ رونق افروز تھے اس پر شاہ داؤد بھی جاکر بیٹھ گئے، شیخ نے آپ کی بڑی عزت کی اور نرمی سے پیش آئے۔ اسی دوران شیخ کے خادموں نے شاہ داؤد سے کہا کہ آج تک کوئی بے ادب خدا رسیدہ نہیں ہوا، شاہ داؤد سمجھ گئے کہ یہ خطاب مجھ ہی سے ۔۔۔
مزید
آپ شیخ احمد عبدالحق کے بیتے اور جانشین تھے، تقریباً چالیس برس کی قلیل عمر پائی، ہرگروہ اور مذہب سے پوری واقفیت رکھتے تھے اور تمام لوگ آپ سے خوش رہتے تھے۔ شیخ احمد عبدالحق کا کوئی لڑکا زندہ نہ رہتا تھا، ایک روز آپ کی بیوی نے آپ سے بطور شکایت عرض کیا کہ کیا ہماری قسمت میں ایک بھی بیٹا نہیں؟ جو ہوتا بھی ہے تو اللہ کا فرشتہ آتا ہے اور اسے اللہ کی رَحَمت میں لے جاتا ہے، شیخ نے فرمایا کہ ایک بیٹا ہماری قسمت میں ہے جو تجھے ملے گا، لیکن ابھی وہ پختہ نہیں ہوا ہے، روم کے سفر میں پکا کر ان شاءاللہ تمہارے حوالہ کردیا جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے کچھ کہنا نہیں اور ہمیشہ اس کو خوش رکھنے کی کوشش کرنا، چنانچہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد آپ کے ہاں ایک فرزند پیدا ہوا جس کا نام’’عارف‘‘ رکھا گیا اور عارف سے بھی ایک بیٹا ہوا جس کا نام ’’محمد‘‘ تھا جو شیخ عبدالق۔۔۔
مزید
آپ شیخ صلاح درویش کے مرید تھے اور شیخ احمد عبدالحق کی صحبت سے اودھ میں فیض یاب ہوئے تھے۔ شیخ احمد عبدالحق فرماتے ہیں کہ میں نے بکر سے پنڈوہ تک کا سفر کیا ہے اور اس تمام سفر کے دوران میری کسی مسلمان سے ملاقات نہیں ہوئی البتہ اودھ میں ایک بچّہ (مسلمان) دیکھا تھا اور جمال گوجر کی طرف اشارہ کیا۔ شیخ احمد جب اودھ میں رہتے تھے تو آپ کے پاس ایک کتیا بھی رہتی تھی، جب اُس نے بچےدیے تو شیخ احمد نے اس شہر کے تمام رئیس، حاکم اور عوام کی دعوت کی اور کھانا کھلایا، دوسرے دن شیخ جمال گوجر کی آپ سے ملاقات، ہوئی تو شیخ جمال نے شیخ احمد سے شکایت کی کہ آپ نے تمام شہر والوں کی دعوت کی اور ہمیں نہیں بلایا، آخر یہ کس گناہ کی سزا تھی، تو شیخ احمد نے آپ کو جواب دیا کہ کُتیا کی دعوت میں شہر کے تمام کتوں کو بلایا تھا اس لیے کہ حدیث میں آتا ہے۔ (دنیا ایک مُردار کی مانند ہے اور اس کے طالب کُتے ہیں) اور آپ ۔۔۔
مزید
آپ قصبہ ردولی ضلع بارہ بنکی میں حوض کے اوپر آرام فرمارہے ہیں، شیخ احمد عبدالحق فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر سے جب ردولی واپس آیا تو اگرچہ یہ میرا اصلی وطن تھا لیکن اس کے باوجود میں نے شیخ سے یہاں ٹھہرنے کی اجازت مانگی اس لیے کہ اس علاقے کے صاحب ولایت آپ ہی تھے چنانچہ میں آپ کے روضہ پر گیا اور وہاں فاتحہ پڑھی اور مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر تحفہ درود بھیجا اور بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ مجھے توصرف ایک جائے نماز اور ایک پانی کا گھڑا کافی ہے تاکہ یہاں قیام کرسکوں، اس کے بعد شیخ کی قبر سے آواز آئی کہ عبدالحق! حوض پر آؤ اور جائے نماز و گھڑا لے جاؤ چنانچہ میں حوض پر گیا اور حوض میں ہاتھ ڈالا تو سب سے پہلے میرے ہاتھ میں ایک گھڑا آیا وہ نکال لیا اس کے بعد ہاتھ ڈالا تو ایک پلنگ کا پراناڈھانچہ ملا اس کو بھی نکال لیا کہ شاید میرا مصلیٰ اسی کو قرار دیا گیا ہے۔ اخبار ال۔۔۔
مزید
آپ شیخ فرید بن عبدالعزیز بن شیخ حمیدالدین صوفی ناگوری کی اولاد میں سے تھے۔ بڑے بزرگ اور بلند مرتبہ ولی تھے، علوم ظاہری و باطنی میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ کتاب دہن جو مصباح کی شرح ہے آپ کی ہی تصنیف ہے۔ ناگور سے کافروں کی فرقہ پردازیوں کی وجہ سے ہجرت کر کے گجرات چلے گئے تھے اور وہیں مستقل سکونت اختیات کی۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
آپ ایک ہی واسطہ کے ذریعہ میر سید محمد گیسودراز کے مرید تھے بڑے کامل بزرگ تھے۔ مندو میں اس وقت آپ سے بڑھ کر اور کوئی بزرگ نہ تھا آپ مندو کے علاقہ کے بزرگ تھے۔ آپ کی عمر ایک سو بیس برس کی اور آپ کے شیخ کی ایک سو پچاس برس کی تھی۔ کہتے ہیں کہ آپ رجب کے اوائل میں دسویں محرم الحرام تک اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے اور اپنے کمرے کے دروازے کو پتھروں سے بند کروادیا کرتے تھے اور اس چھ ماہ کے درمیان کچھ نہ کھایا کرتے تھے۔ صرف تھوڑا سا پانی پی کر اسی پر اکتِفا کرلیا کرتے تھے۔ اس چھ ماہ کے اعتکاف کو ختم کر کے جب کمرے سے باہر نکلنے کا اِرادہ فرماتے تو اندر سے بلند آواز سے چیختے تاکہ کوئی آپ کے سامنے نہ رہے ورنہ آپ کی جلالی نظر کی تاب نہ لاسکے گا۔ اتفاق سے اگر کوئی آدمی وہاں رہ جاتا اور آپ کی اس پر نظر پڑجاتی تو دو تین دن تک وہ بے ہوش پڑا رہتا تھا شہر کا قاضی آپ کی ولایت و کرامت کا منکر تھا اور اکثر آپ سے اح۔۔۔
مزید
آپ بڑے دانش مند بزرگ تھے، دنیا اور اہل دنیا سے بالکل الگ تھلگ رہتے تھے کہتے ہیں کہ آپ کے طالب علم آپ کی خانقاہ کی زنجیر پکڑ کر کھڑارہا کرتے تھے تاکہ فاقہ اور ضنعف کی وجہ سے گر نہ جائیں۔ قاضی شہاب الدین نے کافیہ کا حاشیہ لکھ کر آپ کی طرف بھیجا اور درخواست کی کہ اس میں کچھ اضافہ فرمادیں تاکہ اور بھی زیادہ فائدہ رساں ہو جائے۔ آپ نے کثرت مشاغل یا بحث و نزاع کے سد باب کے لیے اس پر سر سری نظر ڈال کر لکھا کہ یہ کتاب آپ نے بہترین لکھی ہے اس میں مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں، آپ کا مزار جونپور میں ہے۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
آپ صوفی اور بڑے موحد عالم تھے۔ علومِ باطنی اور ظاہری میں کامل دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے بہت سی کتابیں بھی لکھی تھیں جو بہت عمدہ اور مفید ہیں آپ کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں۔ ۱۔ شرح فصوص الحکم۔ اس میں آپ نے ظاہر کو باطن کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۲۔ جاولتہ التوحید، اس میں بہت ہی مختصر اور پاکیزہ مضامین ہیں۔ ان کے علاوہ بھی آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔اور رسالہ ’’جاولتہ التوحید میں‘‘ عقلی و نقلی دلائل سے شکوک و شہبات کا محققانہ اندازہ سے احاطہ و ازالہ کیا ہے۔ اس رسالہ کے ابتداء میں بہت سی قرآنی آیات اور احادیث نبوی لکھی ہیں جو نفس مضمون کے لیے کافی موضح اور مبین ہیں اور اس کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ وہ دلائل ہیں جو منکرین توحید کے قلوب سے کفرو شرک کے مہیب پردوں کو دُور کرتے ہیں۔ ۱۔ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہ اِنَّ ال۔۔۔
مزید