آپ قرآن کریم کے حافظ تھے۔ آپ نے تمام زندگی مانکپور ہی میں خلوت نشینی کے ساتھ گزاری تھی۔ بڑی کثرت سے لوگ آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ جو کوئی آپ کو کھانا پیش کرتا تو اس میں سے ایک لقمہ اٹھا کر کھالیتے اور باقی اسی کو واپس کردیتے۔ جب کوئی کاشتکار آپ کے پاس آتا تو اس سے اُس کی کھیتی اور جانوروں کے حالات پوچھتے۔ مُرید کی دلجوئی کرنے کا طریقہ: شیخ حسام الدین مانک پوری فرماتے ہیں کہ میں نے مولانا شیخن سے دریافت کیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔تو آپ نے فرمایا کہ ان بےچاروں کو تصوف اور سلوک سے کیا تعلق، ان سے ان کی متعلقہ چیزوں کی باتیں کرتا ہوں تاکہ یہ لوگ خوش ہوجایا کریں اور اپنے گھر جاکر فخر سے بیان کریں کہ ہمارے پیر نے ہم سے یہ یہ پوچھا اور یوں فرمایا۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
۔ ابن انس بن رافع بن امرء القیس بن زید بن عبد الاشہل انصاری اوسی ثم الاشہلی۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ یہ حارث نہیں ہیں جن کی کنیت ابو الحیسر ہے۔ یہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے ابن اسحاق نے ور کلبی نے بھی انھیں کے موافق لکھا ہے۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔ مگر ابو نعیم نیان حارچ کو مختلف فیہ قرار دی ہ اور کہا ہے کہ ابن اسحاق یعنی ابو معشر نے اس کی مکالفت کی جہاد انھوں نے کہا ہے ہ (ان کا نام) حارث بن اوس اور عروہ نے کہا ہے کہ حارث بن اشیم یہ ابو نعیم کا کلام تھا ابو نعیمنے ان تینوں کو ایک کر دیا اور ابن مندہ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے ان کو دو قرار دیا ہے ایک حارث بن انس جن کو بعض لوگ ابن اوس بن رافع کہتے ہیں اور دوسرے حارث بن اشیم اور ابو عمر نے حارث ابن اوس کو حارث بن انس بن رافع کے علاوہ لکھاہے مگر انھوں نے حارث بن انس بن مالک کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ مجھے ۔۔۔
مزید
۔ ابن انس بن رافع بن امرء القیس بن زید بن عبد الاشہل انصاری اوسی ثم الاشہلی۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ یہ حارث نہیں ہیں جن کی کنیت ابو الحیسر ہے۔ یہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے ابن اسحاق نے ور کلبی نے بھی انھیں کے موافق لکھا ہے۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔ مگر ابو نعیم نیان حارچ کو مختلف فیہ قرار دی ہ اور کہا ہے کہ ابن اسحاق یعنی ابو معشر نے اس کی مکالفت کی جہاد انھوں نے کہا ہے ہ (ان کا نام) حارث بن اوس اور عروہ نے کہا ہے کہ حارث بن اشیم یہ ابو نعیم کا کلام تھا ابو نعیمنے ان تینوں کو ایک کر دیا اور ابن مندہ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے ان کو دو قرار دیا ہے ایک حارث بن انس جن کو بعض لوگ ابن اوس بن رافع کہتے ہیں اور دوسرے حارث بن اشیم اور ابو عمر نے حارث ابن اوس کو حارث بن انس بن رافع کے علاوہ لکھاہے مگر انھوں نے حارث بن انس بن مالک کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ مجھے ۔۔۔
مزید
۔ ابن انس بن رافع بن امرء القیس بن زید بن عبد الاشہل انصاری اوسی ثم الاشہلی۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ یہ حارث نہیں ہیں جن کی کنیت ابو الحیسر ہے۔ یہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے ابن اسحاق نے ور کلبی نے بھی انھیں کے موافق لکھا ہے۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔ مگر ابو نعیم نیان حارچ کو مختلف فیہ قرار دی ہ اور کہا ہے کہ ابن اسحاق یعنی ابو معشر نے اس کی مکالفت کی جہاد انھوں نے کہا ہے ہ (ان کا نام) حارث بن اوس اور عروہ نے کہا ہے کہ حارث بن اشیم یہ ابو نعیم کا کلام تھا ابو نعیمنے ان تینوں کو ایک کر دیا اور ابن مندہ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے ان کو دو قرار دیا ہے ایک حارث بن انس جن کو بعض لوگ ابن اوس بن رافع کہتے ہیں اور دوسرے حارث بن اشیم اور ابو عمر نے حارث ابن اوس کو حارث بن انس بن رافع کے علاوہ لکھاہے مگر انھوں نے حارث بن انس بن مالک کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ مجھے ۔۔۔
مزید
آپ شیخ حسام الدین مانکپوری کے مرید اور خلیفہ تھے۔ آپ کا اصل نام شیخ کمال تھا لیکن آپ کو شیخ کالو سے یاد کیا کرتے تھے۔ بڑے بلند پایہ اور صاحب ریاضت بزرگ تھے۔ آپ کا مزار کڑہ (مانک پور ) میں ہے۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
آپ شیخ حسام الدین مانک پور کے والد محترم تھے۔ بڑے متقی بزرگ تے اکثر اوقات فاقہ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کے ہاں تین روز سے مسلسل فاقہ کی حالت تھی۔ اسی دوران ایک شخص کوئی مسئلہ پوچھنے کے لیے آیا اور ساتھ ہی کچھ نقدی لایا۔ آپ نے فتویٰ اس کے حوالہ کیا اور وہ نقدی بھی واپس کردی جب آپ کے گھر والوں کی اس بات کا علم ہوا تو وہ آپ پر سخت برہم ہوئے۔ مغرب کی نماز کے وقت ملک عین الدین مانک پور آئے وہ ایک دعا پڑھ رہے تھے اس میں کچھ الفاظ مُشکِل آگئے جن کے مفہوم کو وہ نہ سمجھ سکے تو لوگوں سے دریافت کیا کہ اس شہر میں کوئی عالم بھی ہے۔ اس کے ساتھیوں نے مولانا خواجہ کا نام لیا تو اس نے مولانا موصوف کو بلایا اور جو مشکل تھی وہ دریافت کی اور جتنی نقدی پہلے فتویٰ لینے والا لایا تھا اس سے دوچند نقدی اور کپڑے اور کھانے مزید براں مولانا کو دیے، مولانا نے وہ قبول کرلیے اور گھر واپس لوٹ کر اہ۔۔۔
مزید
ابن ناجیہ۔ یا ناجیہ بن جندب۔ محمد بن معمر نے عبید اللہ بن موسی سے انھوں نے موسی بن عبید اللہ سے انھوںنے عبید اللہ ابن عمرو سلمی سے انوں نے ناجیہ بن جندب یا جندب بن ناجیہ سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے جب ہم (مقام) عمیم میں پہنچے تو رسول خدا ﷺ کو خبر ملی کہ قریش نے خالد بن ولید کو چند سواروں کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ رسول خدا ﷺ سے مقابلہ کریں تو رسول خدا ﷺ نے ان کے مقابلہ کو پسند نہ کیا آپ ان لوگوں پر بہت مہربان تھے آپ نے فرمایا کہ کوئی ہے جو ہم کو دوسرے راستہ سے لے چلے میں نے عرض کیا کہ میرا باپ آپ پر فدا ہو جائے میں (ایسا کرسکتا ہوں) چنانچہ میں نے سب لوگوں کو ایک راستے پر لگا دیا پس ہم برابر چلتے رہے یہاں تک کہ (مقام) حدیبیہ میں جاکے اترے وہاں کا چشمہ بالکل خشک تھا حضرت نے اس میں ایک تیر یا دو تیر اپنے ترکش سے ڈالے بعد اس کے اس میں لعاب دہن ڈال دیا اور دعا کی تو اس کے چش۔۔۔
مزید
آپ شیخ حسام الدین مانک پوری کے جدِّ امجد تھے۔ بڑے عالم، عابِد، صابِر متقی بزرگ تھے۔نماز عشاء پڑھنے کے بعد آپ اس وقت تک آرام کیا کرتے جب تک عام طور لوگ جاگتے رہتے ہیں۔ جب لوگ سوجاتے تو آپ کھڑے ہوجاتے اور فجر کی نماز تک عبادت کرتے رہتے۔ روزانہ اِکتالیس مرتبہ آپ سورۂ یٰسین پڑھا کرتے تھے اور نماز چاشت کے بعد لوگوں کو مسائل شرعیہ کا درس دیا کرتے تھے اور آپ کا ذریعہ معاش کِتابت تھی۔ قرآن کریم لکھتے اور دہلی بھیج دیتے جس کا ہدیہ پانچ سو روپے ہوتا اور بلا وضو کبھی آپ قلم کو ہاتھ نہ لگایا کرتے جن دنوں چوروں اور ڈاکوؤں کا شہر میں دَور دورہ ہوتا تو آپ اس خطرے سے گوشت کھانا ترک کردیتے تھے کہ کہیں یہ جانور چوری کا نہ ہو۔ آپ خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ شیخ محمد کے ارادت مند تھے۔ شیخ محمد بادشاہوں جیسے بہترین لباس زیب تن فرمایاکرتے تھے۔ امیر دل کے مثل زندگی بسر کرتے اور بادشاہوں کے پاس آمدورفت رکھتے۔۔۔
مزید
یاء موحدہ سے پہلینون ہے اور آخر میں ذال معجمہ ہے۔ امیر ابو نصر نے کہا ہے کہ یہ جنبذ بیٹے ہیں سبع کے وہ کہتے تھے کہ میں نے صبح کو تو رسول خدا ﷺ سے بحالت کفر جنگ کی اور شام کو مسلمان ہو کر آپ کی طرف سے (کافروں سے) لڑا اس حدیث کو ابو سعید مولی بنی ہاسم نے حجر یعنی ابو خلف سے انھوں نے عبداللہ بن عوف سے رویت کیا ہے وہ کہتے تھے میں نے جنبذ سے سنا ہے خطیب ابوبکر کہتے تھے میں نے اس حدیث کو ابن انصرات کی کتابم یں انھیں کے خط سے لکھا ہوا دیکھا ہے انھوں نیابو الفتح ازدی سے انھوں نے ابو یعلی سے انھوں نے محمد بن عباد سے انھوںنے جنبذ سے روایت کی ہے اسی طرح لکھا ہوا ہے اور وہ قوی الحافظہ اور حجت فی النقل ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
آپ مانک پور میں مقیم تھے اور شیخ نورالدین قطب عالم کے مرید و خلیفہ اور اپنے وقت کے بڑے بزرگوں میں سے تھے، علمِ شریعت اور طریقت کے ماہر عالم تھے۔ آپ کے ملفوظات کو آپ کے مریدوں نے جمع کرکے ’’رفیق العارفین‘‘ نام رکھا ہے اس میں آپ فرماتے ہیں کہ مریدوں کی اپنے مشائخ سے متعلق مثال ہے جیسے کپڑے میں پیوند، اور صادق و پختہ کار مرید کی مثال اس پیوند کی طرح ہے جو کپڑے کے دھلنے کے ساتھ خود بھی دُھل کر پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جو فیض پیر کو ملتا ہے اس سے مرید بھی بہرہ ور ہوتا ہے اور جو مرید اپنے پیر کے حکم پر عمل نہیں کرتا وہ رسمی مرید ہے۔ یعنی اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سفید کپڑے میں سیاہ پیوند، اگرچہ شیخ کا فیض اس کے عاصی مرید پر بھی ہوتا ہے، لیکن اس کو اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا منقاد اور فرمانبردار ہونے کی حیثیت میں ہوتا۔ یہ دولت کوئی معمولی نہیں۔ فرمایا کہ ایک مجل۔۔۔
مزید