آپ کا اصل وطن ترکستان تھا وہاں سے آکر نارنول میں سکونت پذیر ہوئے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ آپ خواجہ عثمانی ہارونی کے مرید تھے، ملفوظات مشائخین میں ذکر دیکھنے میں نہیں آیا، نارنول کے رہنے والے لوگ آپ کو پیر ترک اور ترک سلطان کہا کرتے تھے، آپ کا مزار عام و خاص لوگوں کا مرجع ہے، نارنول میں ایک حوض کے کنارے آپ کا مزار تھا، وہ حوض ٹوٹ پھوٹ گیا اور اب اس جگہ شہری آبادی ہے۔ جب آپ نارنول پہنچے تو اس وقت مجرد، متوکل اور عورتوں کی مجلس سے دور رہتے تھے، آپ کے کوئی بال بچہ بھی نہ تھا، آپ بیعت نہیں کرتے تھے اسی لیے آپ کا کوئی شخص مُرید نہیں۔ قبر سے قُرآن پڑھنے کی آواز اسلام کے ابتدائی دور میں نارنول میں کافروں کی بڑی قوت تھی، مسلمان بہت تھوڑی مقدار میں تھے اور ہندو موقع کی تاک میں رہتے، عید کے روز جب تمام مسلمان عید کی نماز پڑھ رہے تھے ہندوؤں نے یکدم اور اچانک حملہ کردیا اور مسلمانوں پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑے،۔۔۔
مزید
آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی ابوالخیر اسعد بلخی رحمۃ اللہ علیہ تھا، آپ شیخ غیاث الدین بلبن کے زمانہ کے بہت بڑے عالم تھے، علم و فہم میں کل اور وجد و سماع کے رسیا تھے، علوم شریعت و طریقت کے جامع اور شعر و شاعری سے بڑا لگاؤ رکھتے تھے،فقیری اور درویشی سے متعلق آپ کے اشعار میں سے ایک یہ شعر ہے۔ گر کرمت عام شد رفت زئرہان عذاب در بعمل حکم شددہ کہ چہاد یدنیست ترجمہ: (اگر آپ کا کرم عام ہوگیا تو بُرہان کو عذاب سے نجات مل گئی، اگر کوئی اور حکم دینا ہے تو دیجیے دیکھنا کیا ہے)۔ شیخ بُرہان الدین محمود وہ بزرگ عالم تھے جنہوں نے ’’مشارق حدیث‘‘ اس کے مولف ہی سے پڑھی تھی۔ صاحب ہدایہ کی بشارت: شیخ برہان الدین محمود فرمایا کرتے تھے کہ جب میری عمر تقریباً چھ، سات برس کی تھی تو ایک مرتبہ میں اپنے والد محترم کے ساتھ کہیں جا رہا تھا، اتفاقاً راستہ میں &rsquo۔۔۔
مزید
ظہیر کے بیٹے ہیں اور ظہیر رافع بن عدی بن زید بن عمرو بن زید بن جشم بن حارثہ بن چارف بن خزرج بن عمرو بن مالک بن اوس کے بیٹیہیں۔ انصاری ہیں اوسی یں ان کا صحابی ہونا ثابت ہے اور ان سے روایت بھی ہے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا نسب ایسا ہی بیان کیا ہے جیسا ہم نے لکھا صرف فرق اس قدر ہے ہ ان دونوں نے کہا ہے عدی بن زید بن جشم زید کو اور مرو کو انھوںنے درمیان سے نکال ڈالا ہے اور ابن کلبی نے اور ابو عمر نے اور ان کے سوا اور لوگوںنے نا کو بیان کیا ہے ور یہی صحیح ہے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے کہ یہ رافع بن خدیج کے چچا ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان کے چچا کے بیٹیہیں کیوںکہ رافع بیٹیہیں خدیج بن رافع بن عدی پس ظہیر ان کے چچا ہوے۔ یہ انس بن ظہیرکے حقیقی بھائی ہیں اور عباد بن بشر کے اخیافی (٭اخیافی ان بھائی بہنوں کو کہتے ہیں جن کے ماں ایک ہوں اور باپ علیحدہ علیحدہ ہوں وار جن کی باپ ایک ۔۔۔
مزید
اپنے زمانہ کی نیک عورتوں میں سے تھیں، کہتے ہیں کہ چلہ کھینچنے کے لیے آپ چالیس دن تک حجرے میں رہتیں اور ان کے دروازے بند کرلیا کرتیں تھیں اور اپنے ساتھ چالیس لونگیں بھی لے جایا کرتی تھیں اور جب چلہ سے باہر نکلتیں تو لوگ دیکھتے کہ آپ نے صرف چند لونگیں کھائی ہیں اور باقی ویسی ہی بچی ہوئی موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ سلطان محمد تغلق بادشاہ آپ کا معتقد تھا باقی حال اللہ ہی جانتا ہے۔ آپ کا مزار دہلی میں قلعہ علائی کے باہر واقع ہے آپ کی بکثرت اولاد ہے جن میں سے ہر ایک عورت کا نام اولیا ہی ہے۔ نیز آپ کی اولاد میں سے ایک شخص شیخ احمد نہایت پختہ کار تھے جو اکثر و بیشتر مشائخین کے صحبت یافتہ تھے۔ اللہ آپ دونوں اور سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے آمین۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
شیخ نظام الدین اولیاء کی والدہ ماجدہ تھیں شیخ فرمایا کرتے تھے کہ میری والدہ کو اللہ سے خاص تعلق تھا، جب ان کو کوئی ضرورت درپیش ہوتی تو وہ پہلے ہی اس کام کے متعلق خواب دیکھ لیا کرتیں تھیں اور اس کام کو انجام دینے میں انہیں اختیار حاصل ہوجاتا تھا میری خود یہ حالت ہے کہ جب کوئی ضرورت پڑتی ہے تو میں والدہ ماجدہ کے مزار پر جا کر عرض کرتا ہوں اور میرا وہ کام تقریباً ایک ہفتہ کے اندر ہی ہو جاتا ہے اور ایسا بہت کم اتفاق ہوتا ہے کہ اس کے پورا ہونے مین ایک مہینہ لگے۔ میری والدہ ماجدہ کو ان کی زندگی میں جب کوئی ضرورت ہوتی تو وہ پانچ سو مرتبہ درود شریف پڑھ کر اپنا دامن پھیلا کر دعا مانگتی تھیں اور جو چاہتی تھیں مل جاتا تھا۔ میری والدہ ماجدہ اتنی مقبول بارگاہ تھیں کہ جب ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو فرماتیں آج ہم اللہ کے مہمان ہیں۔ ان کی اس بات سے مجھے ایک خاص ذوق حاصل ہوا ہی تھا کہ اچانک کوئی ۔۔۔
مزید
آپ بہت ہی بزرگ اور بڑی مستجاب الدعوات تھیں۔ شیخ فرید الدین نے جب اجودھن میں سکونت اختیار کرلی تو شیخ نجیب الدین متوکل سے کہا جاؤ ہماری والدہ محترمہ کو دہلی سے لے آؤ شیخ نجیب الدین دہلی روانہ ہوگئے چنانچہ شیخ گنج شکر کی والدہ کو لارہے تھے کہ راستہ میں پیاس لگی، آپ ان کو کسی درخت کے سایہ میں بٹھا کر خود پانی کی جستجومیں نکلے، واپس جب آئے تو دیکھا والدہ موجود نہیں ہیں، پریشان ہوگئے اور تمام واقعہ شیخ فرید الدین سے جاکر بیان کردیا۔ شیخ فرید الدین نے ایصال ثواب کے لیے کھانا پکوانے کا حکم دے دیا کچھ عرصہ بعد شیخ نجیب الدین کا اس راستہ سے گزر ہوا جب اس درخت کے پاس آئے تو خیال آیا کہ شاید والدہ کا کچھ پتہ ملے لیکن اس درخت کے نیچے ان کو کچھ ہڈیاں ملیں جو آدمی کی معلوم ہوتی تھیں انہوں نے ان ہڈیوں کو اٹھا کر اپنے تھیلہ میں ڈال لیا اور دل میں کہا والدہ ماجدہ کو شاید کسی شیر نے مار ڈالا غرض کہ وہ ہڈیوں۔۔۔
مزید
اپنے زمانہ کی صالحہ، عابِدہ اور صبر و شکر کرنے والی بی بی تھیں، بی بی فاطمہ کا تذکرہ شیخ نظام الدین اولیا اور آپکے خلفاء کے ملفوظات میں بکثرث موجود ہے۔ شیخ نظام الدین اکثر بی بی فاطمہ کے مقبرہ میں مشغول عبادت رہتے تھے۔ شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بی بی فاطمہ سام ایک مرد تھے جن کو اللہ نے عورتوں کی شکل میں بھیجا تھا۔ شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شیر جب اپنے کچھار سے نکلتا ہے تو کوئی یہ نہیں پُوچھتا کہ نر ہے یا مادہ انسانوں کو ان سے خوفزدہ ہونا ضروری ہے خواہ وہ نر ہو یا مادہ، پھر اس کے بعد بی بی فاطمہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا وہ نہایت بوڑھی اور صالح بی بی تھیں، میں نے خود ان کو دیکھا ہے۔ بڑی پیاری بی بی تھیں، شیخ فرید الدین گنج شکر اور شیخ نجیب الدین متوکل اور بی بی فاطمہ، منہ بولے بھائی بہن تھے، ہر چیز کے متعلق حسب حال شعر کہا کرتی تھ۔۔۔
مزید
شیخ نظام الدین ابوالموید کی والدہ تھیں اور متقدمین میں بڑی بزرگ بی بی تھیں۔ ایک مرتبہ خشک سالی ہوئی، سب لوگوں نے دعا کی مگر بارِش نہیں ہوئی، شیخ نظام الدین ابوالموید نے اپنی والدہ کے دامن کا دھاگہ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا، اے اللہ یہ بزرگ خاتون کے دامن کا دھاگہ ہے جس پر کبھی کسی نا محرم کی نظر نہیں پڑی، اس کے طفیل میں پانی برسادے، آپ نے یہ جملہ کہا ہی تھا کہ پانی برسنا شروع ہوا، بی بی سارہ کا مزار پُرانی عیدگاہ کے کنارے پر ہے جس کے سرہانے کی جانب خواجہ قطب الدین کا مزار ہے۔ اللہ آپ پر رحمتیں نازل کرے۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
صاحب حال و تصرف ایک مستانہ تھے۔ قوم کے کوری تھے اور مسلمان ہونے کے بعد مجذوب ہو گئے تھے۔ شیخ علاؤالدین اجودھنی کی خدمت میں رہے اور عرصہ تک قطب صاحب میں عادت کرتے رہے، کبھی عرصہ دراز تک فاقہ کشی کرتے تھے اور کبھی منوں کھاکر پوری مشک پانی پی لیتے، کبھی دیکھا گیا کہ چونے کی بھٹی میں پڑے ہوئے چونا کھا رہے ہیں لوگوں نے کہا، آپ یہ کیا کھا رہے ہیں یہ کھانا نہیں ہے تو جواب دیا کیا کروں اس بدقسمت کو کھانے کی بے انتہا حرص ہے اور خاک کے سوائے کسی چیز سے سیر نہیں ہوتا، اللہ آپ پر رحمت کرے۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
لاہور کے ایک مجذوب تھے۔ بلند قامت، فربہ جسامت، باہیبت اور صاحب عظمت پابند اوقات تھے۔ سر پر بڑا صافہ باندھتے اور سر منڈاتے تھے۔ صاحب کشف اور کشادہ باطن تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دن میں نے شیخ یوسف کو دیکھا جو لاہور کے نخاس میں کھڑے اونچی باتیں اور عجیب اَسرار ورموز بیان کر رہے ہیں، میری بہت سی پوشیدہ باتیں بیان کیں جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرا نہیں جانتا دوسرے دن پھر میں نے ان کے پاس جانے کا اِرادہ کیا تاکہ اپنے سفر کے لیے نیک فال لے لوں، تلاش کرنے پر اپنی جگہ نہ ملے چنانچہ میں لوٹ آیا اور میں اپنا پورا ماجرا اپنے ساتھیوں سے بیان ہی کر رہا تھا کہ اچانک وہ وہاں آگئے اور میری طرف رُخ کرکے کہا ہر گز سفر نہ کرنا، مبارک نہیں ہے۔ وہاں کے آدمیوں نے کہا بارہ سال کے بعد آج یہاں شیخ یوسف آئے ہیں، اس سے پہلے وہ کبھی اس جگہ سے نہیں گزرے، اللہ عزوجل کی آپ پر رحمتیں ہوں۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید