جمعرات , 27 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Thursday, 18 December,2025

شیخ عبدالسُبحان سہارنپوری

  شیخ عبدالسبحان سہارنپوری کی بیعت بھ ی حضرت رسالت پناہﷺ کے حکم کےمطابق حضرت شیخ محمد صادق سے ہوئی۔  واقعہ یوں ہے کہ حضرت شیخ عبدالسبحان بڑے لطیف طبع تھے۔ آپ سہارنپور میں رہتے تھے لیکن فقراء کے ساتھ آپکو زیادہ اعتقاد نہ تھا۔ بلکہ طریقۂ درویشی کو پسند ہی نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک رات  کواب دیکھا کہ انکا بخت بیدار ہوا ہے اور رسولﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ہے۔آنحضرتﷺ اپنے اصحاب سمیت تشریف لائے ہیں  اور حضرت شیخ محمد صادق بھی ساتھ ہیں۔ آنحضرتﷺ نے شیخ عبدالسبحان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہارے پیر یہ ہیں۔ اسکے ساتھ ہی شیخ محمد صادق  کی طرف اشارہ بھی فرمایا۔ آنحضرتﷺ نے  یہ بھی فرمایا کہ گنگوہ جاکر اُن سے بیعت کرواور مطلوب حقیقی تک رسائی حاصل کرو۔ اُن  سے رہانہ گیا اور اُسی وقت روتے ہوئے گنگوہ کی طرف روانہ  ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر  حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ۔۔۔

مزید

حضرت شیخ ابراہیم مراد آبادی

  ان میں سے ایک حضرت شیخ  ابراہیم مراد آ﷜ادی ہیں جو حضرت شیخ کے اکابر خلفا میں سے ہیں اور انہوں نے شغل  سہ پایہ کو اس حد تک پہنچایا تھا کہ  تین مرتبہ ذکر اسم ذات یعنی اللہ اللہ کر کے  ایک تسبیح کا دانہ گراتے تھے اور اس طرح آپ چار  سوتسبیح کرتے تھے (یعنی ایک سانس میں چار سو تسبیح) آپ پٹھان تھے اور ولایت درہ کے رہنے والے تھے۔ آپ تلاش شیخ میں پھرتے  پھراتے قصبۂ بنور پہنچے۔ اس وقت حضرت شیخ آدم بنوری وہاں موجود تھے اور مدینہ منورہ نہیں گئے تے۔ شیخ ابراہم نے ان کی خدمت میں رہ کر ایک مدت تک ریاضت و مجاہدہ کیا لیکن   جو کچھ انکا دل چاہتا تھا میسر ہو  نہ ہوا۔ حضرت شیخ آدم بنوری انکی بڑی عزت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ انہیں خلافت دیں کہ ناگاہ  ان کا سویا ہوا بخت بیدار ہوا ایک رات نیند اور بیداری کی کیفیت م یں جمال جہاں آرائے سرورِ کونینﷺ کی زیار۔۔۔

مزید

حضرت ملک زین الدین اور وزیرالدین

یہ دونوں بھائی شریف خصلت اورصالح تھے ان کے باپ دادا بطور وراثت بادشاہان دہلی کے ملازم تھے ان کے اخلاق کریمہ اور اوصاف حمیدہ لکھنے کے لیے دفاتر درکار ہیں، سلطان سکندر کے چچا زاد بھائی سے کچھ کدورت سی پیدا ہوئی اس نے زمانہ سازی اور برادرانہ تعلق کی بنا پر ظاہر نہیں فرمایا، بارہ ہزار سوار فوج اور حکومت و گورنری وغیرہ انہی کے تفویض میں رہنے دی البتہ ان کے وکیل ملک زین الدین کو خود خفیہ طور سے کہا اور اپنے ہاتھ سے ایک حکم نامہ لکھا کہ خان جہاں کے مال و دولت پر قبضہ کرکے جس طرح چاہو خرچ کرو لیکن خان جہاں کو بالکل خبر نہ ہو اور یہ بھی حکم لکھ بھیجا کہ وکیل زین الدین سے حساب لیا گیا ہے کسی کو اس سے تعرض کا حق نہیں ہے جوکچھ اس سعادت مند کے اختیار میں تھا صدقات و میراث وغیرہ سب کو نیک مقاصد میں صرف کیا کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر علما و صلحا آپ کو دوست رکھتے تھے اور آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، وزیرالدین آپ ۔۔۔

مزید

خواجہ ضیاء الدین رحمۃ اللہ علیہ

  لطافت طبع میں بے نظر دنیا کے اہل دلوں کے نزدیک پسندیدہ و دلپذیر خواجہ ضیاء الملۃ والدین برنی رحمۃ اللہ علیہ خاص و عام میں قبولیت عام رکھتے اور بے حد لطافت بے اندازہ ظرافت کے ساتھ مشہور  تھے جس مجلس میں آپ رونق افروز ہوتے تمام حضار جلسہ آپ  کی  روح افزا لطائف پر کان لگائے رہتے۔ آپ مجمع الطائف اور جوامع الحکایت تھے اور علماء مشائخ و شعرا کی صحبت سے کافی حصہ رکھتے تھے علاوہ ازیں ہمت بلند اور حوصلہ فراخ رکھتے تھے اور یہ نتیجہ اس کا تھا کہ ابتدائی زمانہ  سے اپنے والد بزرگوار کی شفقت و مہربانی کی وجہ سے جو اپنے سارے خاندان میں ایک نہایت محترم و معزز بزرگ تھے سلطان المشائخ کی سعادت ارادت سے مشرف ہوئے تھے اور اخلاص کا سر آپ  کے آستانہ مبارک پر رکھا تھا۔ سلطان المشائخ  کی الفت و محبت میں غیاث پور میں رہنا اختیار کیا اور آپ کے حضور میں مرتبۂ قربت تمام و کمال حاصل۔۔۔

مزید

خواجہ تاج الدّین رحمۃ اللہ علیہ

  صوفیوں کے جمال متقیوں کے شرف خواجہ تاج الملۃ والدین رحمۃ اللہ علیہ وادری زہد و تقویٰ کی مجسم تصویر تھے۔ آپ شروع شروع میں دنیا اور اہل دنیا کے ساتھ تعلق رکھتے تھے لیکن جب سعادت ابدی نصیب ہوئی تو آپ نے اس ذلت و خواری کو یک لخت ترک کر دیا اور سلطان المشائخ کی دولت ارادت سے مشرف و ممتاز ہوئے۔ سلطان المشائخ کی الفت و  محبت آپ کے دل مبارک میں اس  طرح متمکن اور جاگیر ہوئی کہ تمام دنیاوی تعلقات یکبارگی قطع  کر دئیے اور فقر  و مجاہدہ اور فاقہ  کو اپنی دولت و ثروت جان لیا شیخ  سعدی نے کیا  خوب فرمایا ہے۔ بپائے سر در افتادہ چو لالۂ و گل کہ او  شمائل قد نگار من دارد (سرو کے قدموں میں مثال لالۂ و کل پڑا ہوا ہوں کہ وہ میرے نگار سے قد میں مماثلت رکھتا ہے۔) اے سرو بتو شادم شکلت بفلان ماند اے گل زتو خوشنو دم تو بوے کسے داری (اے سرو میں تجھے دیکھ کر شاد کام ۔۔۔

مزید

خواجہ مؤید  الدّین رحمۃ اللہ علیہ

  مالک دنیا، طالب عقبی خواجہ مؤید الدین رحمۃ اللہ علیہ جن کا ظاہر صفا سے آراستہ اور باطن وفا سے پیراستہ تھا زہد و تقوی میں معروف اور اعتقاد خوب میں مشہور تھے۔ آپ ابتدا میں دنیاوی کاموں میں مصروف تھے امور سلطنت کی بجا آوری کو فرض منصبی سمجھتے اور بادشاہ زادہ معظم کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے جس زمانہ میں سلطان علاؤ الدین ولی عہدی کے منصب پر ممتاز تھا اسے شاہ وقت کی طرف سے جاگیر ملی تھی تو خواجہ مؤید الدین اس کی پیشی میں نہایت اہم اور عظیم الشان امور کو انجام دیتے۔ چونکہ سعادت ابدی روز ازل سے آپ کی قسمت میں لکھی جا چکی تھی لہذا آپ سلطان المشائخ کے غلاموں کی سلک میں داخل ہوئے اور بالا ختیار دنیاوی تجملات سے ہاتھ اٹھا لیا۔ جب سلطان علاؤ الدین تخت شاہی پر جلوہ آرا ہوا اور مستقل طور پر سلطنت کی باگ اس کے ہاتھ میں دی گئی تو اس نے خواجہ  کو یاد کیا اور جب سنا کہ وہ تارک دنیا ہوگئے ہیں اور ۔۔۔

مزید

خواجہ مبارک رحمۃ اللہ علیہ

  صوفی با صفا۔ زاہد با وفا۔ شیخ مبارک گوپا موی رحمۃ اللہ علیہ بذل و ایثار اور امر المعروف و نہی عن المنکر میں تمام یاران اعلی میں مشہور تھے آپ  کو امیر داد بھی کہا جاتا تھا سینۂ مصفا اور ہئیت دلکشا رکھتے تھے آپ جمال ولایت پیر کے عاشق اور جناب سلطان المشائخ کے سابق مریدوں میں سے تھے سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز نے پورے سو رقعے اپنے خط  مبارک سے مزین و آراستہ کر کے اور  طرح طرح کے کرم و بخشش کا اظہار کر کے آپ کی طرف بھیجے ہیں۔ جب یارانِ اودھ جیسے مولانا شمس الدین یحییٰ اور شیخ نصیر الدین محمود اور مولانا علاؤ الدین نیلی اور دوسرے عزیز  سلطان المشائخ کی خدمت واپس جاتے تو ان کی نسبت حضور کی درگاہ سے حکم صادر ہوتا کہ جب تم گو پاؤ میں پہنچو تو خواجہ مبارک سے ضرور ملنا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کاتب حروف شیخ نصیر الدین محمود کی خدمت میں حاضر تھا اتنے میں خواجہ مبارک تشر۔۔۔

مزید

مولانا بہاؤ الدّین علیہ الرحمۃ

  عابد اہل طریقت۔ افضل اہل حقیقت مولانا بہاؤ الملۃ والدین ادہمی رحمۃ اللہ علیہ کو اس زمانہ کے لوگ دار الامانی بھی کہتے تھے علم میں کافی حصہ رکھتے تھے اور تقوی کامل سے آراستہ تھے۔ دنیائے غدار میں بہت دن تک زندہ رہے اگرچہ آپ عالمانہ تزک و احتشام رکھتے تھے لیکن حقیقت میں اہل تصوف کی صفت سے موصوف تھے جب آپ اپنے قدیم وطن ملتان سے شہر دہلی میں تشریف لائے تو سلطان المشائخ کی سلک ارادت میں منسلک ہوئے اور  صرف جناب سلطان المشائخ کی محبت و عشق کی وجہ سے شہر میں سکونت اختیار کی۔ اس کے بعد آپ کا ہمیشہ یہ دستور رہا کہ جب سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو دن کو وہاں رہتے اور شب  کو کاتب حروف کے والد بزرگوار کے مکان پر رونق افروز ہوتے اور وہیں سوتے۔ آپ انتہا درجہ کے تقوی و ورع کے سبب ہر روز غسل کرتے اور ترک و تجرید میں انتہا سے زیادہ  کوشش کرتے۔ آخر الامر چند روز بیمار رہ کر کر ا۔۔۔

مزید

قاضی شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ

  قاضی شرف الدین مولانا حسام الدین ملتانی کے یار تھے جو سلف کی سیرت و صورت رکھتے اور فخر خلف تھے آپ کو قاضی شرف الدین فیروز گہی بھی کہتے تھے۔ آپ وفور علم اور زہد و تقوی کے ساتھ آراستہ اور ترک تکلف سے پیراستہ تھے قرآن مجید کے حافظ اور درگاہ سبحانی کے عاشق تھے۔ اگر کوئی شخص آپ کو دیکھتا تو بے ساختہ بول اٹھتا کہ یہ کوئی مقرب فرشتہ ہے جو اس ہئیت سے زمین پر چلتا ہے یہ بزرگوار علوم کا کافی حصہ رکھتے اور فضل و بزرگی میں ایک آیت تھے۔ کاتب حروف نے دیوانِ احسن حسن بزرگ کے سامنے رکھا ہے ار اس کے دقائق و حقائق دریافت کیے ہیں۔ آپ کا دستور تھا کہ اپنے گھر کی ضروری اور مایحتاج چیزیں مثلاً غلہ لکڑی وغیرہ خود اٹھا کر گھر میں لاتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ کھچڑی اور لکڑیاں ہاتھ میں لیے ہوئے رستہ میں چلے آ رہے تھے کہ سامنے سے قاضی کمال الدین صدر جہان مرحوم نے آپ کو دیکھا باوجود اس کروفر اور حشمت و شوکت ۔۔۔

مزید

امیر حسین سنجری رحمۃ اللہ علیہ

  فضلاء کے ملک و الملوک لطافت طبع میں دریا امیر حسین علاء سنجری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کی جگر سوز غزلیات عاشقوں کے دلوں کی چقماق سے محبت کی آگ نکالتی تھیں اور دلپذیر اشعار سخنوروں کے دلوں کو راحت پہنچاتے تھے۔ آپ کے روح افزا لطائف اہل ذوق کا مایہ تھا اور آپ کا کلام شیخ سعدی کی چاشتی رکھتا تھا چنانچہ آپ نے ایک بیت اسی بارہ میں کہی ہے فرماتے ہیں۔ حسن گلے ز گلستان سعدی آور دہ است کہ اھل معنی گلچین آن گلستان اند (حسن یہ پھول گلستان سعدی سے لائے ہیں کہ اہل معنی اسی گلستان کے گلچین ہیں۔) مولانا حسن ہمیشہ نامدار شاعروں میں نہایت وقعت و عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور کوئی شخص لطیفہ اور نظم بالبداہتہ آپ سے بہتر نہ کہہ سکتا تھا اس عہد کے بادشاہ اور  شہزادے آپ کے لطائف و ظرائف گوش ہوش سے سننے کی رغبت رکھتے تھے اور ان تمام سعادتوں کے حصول کا سبب یہ تھا کہ آپ سلطان المشائخ کے غلاموں کی سلک ۔۔۔

مزید