آپ کے آباء و اجداد نے مشہد سے آکر ملتان میں سکونت اختیار کی، سلطان فیروز کے زمانہ میں آپ ایک فوجی کی حیثیت سے ملتان سے دہلی تشریف لائے۔ آپ فوج ہی میں تھے کہ سلطان فیروز نے آپ کی بزرگی اور علمی کارناموں کے پیش نظر آپ کو اپنے اس مدرسہ میں جہاں اس نے حوض خاص علائی اور اپنا مقبرہ بنوایا تھا مدرس مقرر کردیا، آپ نے برسوں تک اس مدرسہ میں تعلیم دی اور لوگوں کو علم سے نوازا، آپ جمعرات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کیا کرتے تھے، آپ نے قاضی نصیرالدین بیضاوی کی مشہور کتاب ’’لب اللبا ب فی علم الاعراب‘‘ کی ایک مفصل شرح بھی لکھی ہے جو ’’یوسفی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ ’’لب اللباب‘‘ ایک مختصر اور مفید کتاب ہے جو ہمارے ہاں دہلی میں بہت مشہور ہے، نیز آپ نے مشہور کتاب منار کی بھی ایک شرح لکھی ہے جو ’&rsq۔۔۔
مزید
آپ بہت بڑے عقلمند تھے، سلطان محمد تغلق کے زمانے میں دہلی سے نارنول میں تشریف لے گئے تھے، ابتدائی زمانہ میں شادی سے پہلے آپ حج کے اِرادہ سے نکلے راستہ میں جب گجرات پہنچے تو ایک مسجد میں دیکھا کہ ایک معتزلی منبر پر اپنے مذہب معتزلہ کے پیش نظر بندوں کے خالق افعال ہونے پر تقریر کر رہا ہے، اس نے اپنی تقریر کے دوران لوگوں سے کہا کہ دیکھو یہ میرا ہاتھ ہے، اگر میں اسے کھولنا چاہتا ہوں تو یہ کھلتا ہے اور اگر مٹھی بند کرنا چاہتا ہوں تو بند ہوجاتی ہے۔ قاضی شمس الدین صاحب کھڑے ہوئے اور آپ نے اس معتزلی سے فرمایا کہ اگر آپ اپنے تمام افعال کے خالق ہیں اور اپنے وجود کے متعلق سب کچھ کرسکتے ہیں تو پھر اپنے ہاتھ کو اپنی پیٹھ پر لے جا کر کیوں نہیں ملا سکے؟ قاضی شمس الدین کا یہ اعتراض حاکم گجرات کو بہت پسند آیا اور اس پسندیدگی کا اظہار اس طرح کیا کہ دارالحرب سے جو لونڈیاں آئی تھیں ان میں سے ایک لون۔۔۔
مزید
آپ کا مزار نار نول میں ہے، آپ شیخ قطب الدین ہانسوی کے مریدوں میں سے تھے، آپ نے نازنول کے جنگلوں اور پہاڑوں میں اتنی کثرت سے ریاضت کی کہ چرند و پرند بھی آپ کے فرمانبردار ہوگئے اور درندے اور چڑیاں آپ سے محبت کرنے لگے۔ شیر کی سواری سانپ کا کوڑا مشہور ہے کہ جب آپ اپنے مرشد کے پاس ہانسی جانا چاہتے تو جنگل سے ایک شیر پکڑتے اور اس پر سوار ہوتے اور سانپ کو پکڑ کر اس کا ہنٹر بنالیا کرتے، ایسی حالت میں اپنے مرشد کی ملاقات کے لیے روانہ ہوتے اور جب شہر ہانسی کے قریب پہنچتے تو شیر اور سانپ کو باہر چھوڑ کر پیدل مرشد کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دن شیخ قطب الدین منور ایک دیوار پر بیٹھے تھے، سید قطب الدین پر وجد کی کیفیت طاری ہوئی اور وہ شیر پر سوار ہونے کی حالت میں اپنے پیر صاحب کے پاس پہنچے، آپ کے پیر صاحب نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ سید یہ تو حیوان ہے، اللہ والے اگر دیوار کو حکم دیں جو بے جان ہے تو وہ بھی چلن۔۔۔
مزید
آں دلیل سالکان بادیہ وجود، و حجتِ واصلان ناصیہ مقصود، وسلیمان ملک لایزالی وسر حلقۂ شاہدان لاوبالی، وفائز کمالات الفقر فخری، غوثدوران حضرت خواجہ ہبیرہ البصری قدس سرہٗ علماء واولیاء وقت کے پیشوا تھے۔ آپ معرفت حق میں مشائخ کبار کے درمیان مشہور و معروف تھے۔ آپ کےدرجات رفیع اور مقامات اعلیٰ تھے۔ آپ حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی قدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ تھے۔ آپ بڑے مرقاض وعبادت گزار تھے۔ تربیت مریدین میں آپ کی نسبت بہت قوی تھی۔ آپ مقبولیت تامہ رکھتے تھے اور اسرار ور موز کی محافظت میں میں اس قدر پختہ تھے کہ آپ کا لقب امین الدین ہوگیا تھا۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ ہبیرہ البصری صاحب الطائفہ تھے اور آپ کے مریدین ہبیریان کہلاتے ہیں۔ آپ کا اور آپ کے مریدین کا طریق یہ تھا کہ ہمیشہ باوضو رہتے تھے، نماز حضور دل کے ساتھ گزارتے تھے۔ اور ان کی مجالس میں غیر کا ذکر ہر گز نہیں ۔۔۔
مزید
آپ کے والد بزرگوار کا نام عالم اور دادا کا نام قوام الدین تھا، آپ شیخ زین الدین الخونی کے اصحاب اور خلفاء میں سے تھے، علوم ظاہری اور باطنی میں اپنے زمانے کے ماہر و کامل عالم تھے، اگرچہ آپ کے آباء و اجداد ملتان کے رہنے والے تھے مگر آپ کی پرورش ہرات میں ہوئی، شیخ زین الدین الخوانی کے انتقال کے بعد مرشد کی وصیت کے مطابق لوگوں نے آپ کو پیر صاحب کا جانشین مقرر کردیا تھا، چنانچہ آپ اپنے پیر صاحب کے مسلک کو زندہ رکھنے کے لیے ہرات ہی میں مستقل رہائش پذیر ہوگئے اور وہیں عبادت میں مشغول رہنے لگے۔ شیخ زین الدین الخوانی نے ایک بار فرمایا کہ ہزاروں لوگ میرے مرید ہوئے مگر سوائے سراج الدین کے کسی نے میری خوشنودی کو ملحوظ نہیں رکھا، اور انہوں نے برسوں میری خدمت کی اور کبھی میری رضا کے خلاف کام نہیں کیا، مشائخ ہرات کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ جن اولیاء اللہ کو میں جانتا ہوں ان میں سے ۔۔۔
مزید
آپ شیخ نصیرالدین محمود کے اجلاء خلفاء میں سے تھے علاوہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے منظور نظر تھے، آپ کے والد بزرگوار ایک بڑے تاجر تھے، اور خواجہ صاحب کے معتقدین میں سے تھے، ان کی عمر تقریباً بڑھاپے تک پہنچ چکی تھی اور اس عرصہ میں ان کے کوئی اولاد نہ ہوئی (جیسے عموماً لوگوں کو اولاد کے نہ ہونے کا قلق ہوتا ہے) ان کو بھی اس کا قلق اور افسوس تھا، ایک دن خواجہ نظام الدین پر حال کی کیفیت طاری ہوئی تو اسی عالم میں خواجہ صاحب نے اپنی پیٹھ ان کے والد بزرگوار کی پیٹھ سے رگڑی اور فرمایا کہ جاؤ تمہارے لڑکا ہوگا آپ نے چونکہ خواجہ صاحب کے نہایت ہی عقیدت مند تھے اس لیے بچے کی خواہش میں اپنی بیوی کے پاس گئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ عزوجل کے حکم سے ان کی بیوی کو حمل ہوگیا، جب صدرالدین پیدا ہوئے تو ان کے والد ان کو خواجہ صاحب کے پاس لے گئے چنانچہ شیخ نے انہیں اپنی گود میں لے۔۔۔
مزید
آپ تھانیسر کے رہنے والے اور شیخ نصیرالدین محمود دہلوی کے مریدوں میں سے تھے، علوم ظاہری کے علاوہ بڑے فضل و کمال کے مالک تھے، اگرچہ مولانا خواجگی کے ساتھ آپ کے برادرانہ تعلقات تھے مگر جب انہوں نے دہلی کو ترک کیا تو آپ نے ان کا ساتھ نہیں دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ امیر تیمور گورگانی کی بڑی عظیم الشان فوج نے دہلی پر حملہ کرکے لوٹ مار کا بازار خوب گرم کیا، اس کس مپرسی کے عالم میں مولانا احمد کے متعلقین کو امیر تیمور گورگانی کے لشکریوں نے گرفتار کیا بعد میں جب فتنہ فساد ختم ہوا تو آپ گورگانی کے درباری مقرر ہوگئے، امیر تیمور کے دربار میں مولانا برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ کے پوتے شیخ الاسلام اور آپ کے درمیان میں ادھر اُدھر کی گفتگو ہوا کرتی تھی، ایک دن امیر تیمور نے شیخ الاسلام کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے مولانا احمد سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ مولانا برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ کے ۔۔۔
مزید
آپ بہت بڑے عالم دین اور شہر بھر کے استاد تھے، آپ کی مشہور تصانیف حاشیہ کنزالدقائق، حسامی اور مفتاح ہیں، لوگوں میں مشہور ہے کہ سلطان محمد تغلق نے جب عضد کو اس غرض سے ہندوستان بلانا چاہا کہ وہ شرح مواقف لکھ کر سلطان کے نام سے موسوم کردیں تو مولانا معین الدین کو ایک قاصد اور فرستادہ کی حیثیت سے روانہ کیا کہ وہ قاضی عضد کو بلا لائیں، مولانا عمرانی جب قاضی صاحب کے گھر اور شہر میں پہنچے تو آپ سے بلا قصد و ارادہ کچھ کمالات ظاہر ہوگئے ان چیزوں کو دیکھ کر قاضی عضد نے ہندوستان آنے کا ارادہ ترک کردیا (اس غرض سے کہ جب ہندوستان میں ایسے ایسے باکمال بزرگ موجود ہیں تو مجھے وہاں کیا سمجھا جائے گا) جب بادشاہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے اپنے تمام کاروبار چھوڑ دیے اور فوراً قاضی عضد کے پاس گیا اور کہا کہ آپ تختِ سلطنت پر تشریف رکھیں میں آپ کی ہر ممکن خدمت کروں گا، اور میری بیوی کے علاوہ جو کچھ بھی ۔۔۔
مزید
آپ شیخ نصیرالدین محمود دہلوی کے خلیفہ اور مولانا معین الدین عمرانی کے تلمیذ رشید اور قاضی شہاب الدین کے استاد محترم تھے، منقول ہے کہ جس زمانے میں مولانا خواجگی دہلی میں پڑھا کرتے تھے۔ اس وقت اپنے استاد سے سبق پڑھنے کے بعد شیخ نصیرالدین کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔ مولانا معین الدین کا بھی شیخ نصیرالدین کے بارے میں وہی نظریہ تھا جو عام علماء کو فقروں سے ہوتا ہے اس لیے کبھی ان سے ملاقات نہ کی تھی۔ ایک مرتبہ مولانا معین الدین کو اتنی سخت کھانسی ہوئی کہ طبیبوں سے علاج کرانے کے باوجود بھی افاقہ نہ ہوا اور اس میں اتنی شدت ہوگئی کہ مولانا اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ مولانا خواجگی نے اپنے استاد سے بصد ادب و احترام عرض کیا کہ حضرت اگر اس میں کوئی مضائقہ نہ سمجھیں تو شیخ نصیرالدین کے پاس چلیں اور ان سے صحت کی دعا کروائیں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ صحت عطا فرمادے یہ مشورہ ابتداء تو مولانا معین الدین نے ق۔۔۔
مزید
آپ کے دوسرے خلیفہ حضرت شیخ ابراہم رام پوری ہیں۔ جو غایت فقر و فنا سے متصف تھے۔ اور بڑے عبادت گذار اور مجامد تھے۔ آپکا ذات بے کیف کا شغل ہوا[1] کے ذریعے حاصل ہوا تھا۔ چنانچہ آپ ہمیشہ فنائے احدیت میں مستغرق رہتے تھے۔ اس فقیر کو م علوم ہوا ہے کہ حضرت شیخ ابراہیم لاہوری اہل بیت کی محبت میں بے اختیار تھے۔ چنانچہ جن ایام میں آپ سیدہپورہ میں رہتے تھے۔ جو کرنال کے نواح میں ہے تو آپ ہمیشہ زمین پر سوتے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ کتنے سادات ہیں کہ جنکو چارپائی میسر نہیں ہے۔ آداب کے خلاف ہے کہ میں چار پائی پر سوجاؤں اور سادات زمین پر سوئیں اس سے ظاہر ہے کہ آپکو فنافی الرسول بدرجۂ کمال حاصل تھا۔ سیدپورہ میں آپ دن کے وقت ایک باغ میںجامن کے درخ کےنیچے شغل باطن میں مشغول رہتے تھے۔ اور رات کےوقت اپنے گھرمیں مشغول بحق رہتے تھے۔ جب درختوں کو پ۔۔۔
مزید