آپ ’’ملک یار پرآں‘‘ سے مشہور اور کامل درجے کے ولی تھے، آپ کا اصلی وطن لار تھا، وہاں سے اپنے مرشد کی اجازت سے دہلی تشریف لائے تھے، آپ سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانے کے شیخ وقت تھے، خواجہ نظام الدین اولیاء آپ کے مزار پر کبھی کبھی تشریف لایا کرتے تھے، خیال ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی عین حیات میں ملاقات ہوئی ہوگی مگر اس پر کوئی خارجی ثبوت موجود نہیں، سیرالاولیاء میں خواجہ نظام الدین اولیاء سے نقل کیا گیا ہے کہ میں کیلو کہری کی جامع مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے جایا کرتا تھا، چنانچہ میں ایک روز جامع مسجد کو جا رہا تھا اور اتفاق سے اس دن میں روزے سے تھا، سخت گرم لو چل رہی تھی گرمی کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ مجھے چکر آنے لگے اور میں ایک دوکان میں بیٹھ گیا اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ آج اگر میرے پاس سواری ہوتی تو اس پر بیٹھ کر چلا جاتا پھر شیخ سعدی کا یہ شعر مجھے یاد آیا ماقدم ۔۔۔
مزید
مولانا حافظ عبد اللہ ابن مولانا سید چراغ شاہ ۱۲۷۴ھ/۱۵۷ء میںکشمیری محلہ ، سیالکوٹ شہر میںپید ہوئے،قرآن مجید اور کچھ درسی کتب مولانا علم الدین سیالکوٹی سے پڑھیں ۔منبق ،فلسفہ اور ریاضی کی منتہی کتب حضرت خواجہ عبد العلیم ملتانی ایسے فاضل سے پڑھیں ۔آپ کو کتب علمیہ سے بیت حد لگائو تھا چنانچہ آپ نے اس دور کی متعدد و غیر مطبوعہ کتب کی نقل کی تھی ، ان مخطو طات سے آپ کے قابل قدر علمی ذوق کا نشان ملتا ہے ۔ یہ مخطوطات آپ کے خلف رشید مولانا سید نور محمد قادری مد ظہ کے پاس محفوظ ہیں۔ آپ نے سرہٗ آل عمران کی چند آیات کی تفسیر فارسی میں لکھی تھی جو بڑے سائز کے دو سو صفھات پر مشتمل ہے۔ آپ نو جوانی میں ۱۳۰۰ھ/۱۸۸۲ء میں حضرت مولانا قاضی سلطان محمود (آونی) قدس سرہ کے دست اقدس پر سلسلۂ ۔۔۔
مزید
آپ کمال، ورع، تقویٰ اور دیانت داری میں مشہور تھے، شیخ نظام الدین اولیا نے آپ ہی سے ’’مشارق‘‘ کے حصوں کی سند حاصل کی اور ان سے مولانا برہان الدین بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے استفادہ کیا اور ان سے میں نے فیض پایا۔ مولانا کمال الدین زاہد۔۔۔ مشارق کو شیخ نظام الدین اولیا نے سنا تھا آپ نے ان کا اجازت نامہ اپنے ہاتھ سے خود لکھا ہے جو سیرالاولیا میں موجود ہے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کی یہ آرزو تھی کہ مولانا کمال الدین زاہد کو امام مقرر کرکے ان کے پیچھے نماز پڑھا کریں، چنانچہ اسی غرض سے مولانا موصوف کو اپنے ہاں بلایا اور کہا کہ مجھے آپ کے علمی کمالات، دیانت، حفاظت پر پختہ اعتقاد ہے مہربانی فرماکر اگر آپ امامت کا عہدہ قبول فرمالیں تو میں آپ کا رہین منت ہوں گا اور مجھے اپنی نماز کے قبول ہونے پر پورا یقین ہوجائے گا، مولانا نے جواب دیا کہ میرے پاس تو پہلے نماز ہی نماز باقی رہ گئی ہے ا۔۔۔
مزید
فاضل متجر،مرجع الفضلائ، بے مچل تاریخ گو ، مولانا شیخ عبد اللہ ابن مولانا صدر الدین ( م ۱۲۶۹ھ/۲۔۱۸۵۱ئ) سکھوں کے عہد حکومت میںاپنے ننہیال موضع دینہ( ضلع جہم ) میں ۵۰۔۱۲۴۹ھ/۱۸۳۴ء میں پیدا ہوئے ، بچپن کے چند سال اپنے عابد زاہد نانا حافظ نورجی[1] رحمہ اللہ تعالیٰ (م۱۲۷۰ھ/۵۴ ۔ ۱۷۸۳ئ) کے زیر سایہ گزارے ۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں حافظ نور دین ، چک عمر کی خدمت میں حاضر کئے گئے اور حافظ صاحب کی توجہ سے جلد ہی قرآن پاک یاد کر لیا بعد ازاں علوم متادولہ کی تحصیل والد ماجد سے کی جو اپنے دور کینامور اساتذہ میں شمار ہوتے تھے ، ان کے علاوہ مولانا گلام یحیٰ ( میکی ڈھوک )استاذ حضرت خواجہ شمس العارفین قدس سرہ اور اپنے عم محترم مولانا میاں مخدوم عالم سے بھی استفادہ کیا ۔ تکمیل علوم کے بع۔۔۔
مزید
آپ بڑے ولی اللہ اور برگزیدہ آدمی تھے، شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی فرماتے ہیں کہ اودھ میں ایک بزرگ رہتے تھے وہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے اور با نیجا رسید کہ لوگوں نے یقین کرلیا کہ اب ان کا بچنا امرِ محال ہے اور تجہیز و تکفین کے انتظامات مکمل کرلیے گئے، اسی اثناء میں مولانا داؤد پالٰہی اور مولانا رضی الدین منصور ان کے ہاں پہنچے اور ان سے کہا کہ ہم آپ کے پاس آئے ہیں تو گفتگو کیے بغیر واپس نہیں جائیں گے، چنانچہ مولانا رضی الدین نے مولانا داؤد پالٰہی سے فرمایا کہ مریض کو ایک طرف سے آپ سنبھالیں اور دوسری طرف سے میں، مولانا داؤد سرہانے بیٹھ گئے اور مولانا رضی الدین پانتی، اس کے بعد دونوں بزرگوں نے کچھ پڑھنا شروع کیا اور پھر کھڑے ہوکر اس بزرگ کے ہاتھ پکڑے اور کہا اٹھ بیٹھو چنانچہ وہ بیمار بزرگ اسی وقت اٹھ کر بیٹھ گئے اور صحت مند ہوگئے۔سبحان اللہ عزوجل چاہیں تو اِشاروں سے اپنے کایا ہی پ۔۔۔
مزید
فاضل جلیل مولانا محمد عبد الکریم ابن مولانا فضل احمد ابن مولانا حافظ خان محمد رحمہم اللہ تعالیٰ بمقام بستی قلعدار ضلع گجرات مین پیدا ہوئے ، آ قریشی خاندان کے چش م و چراغ تھے۔ آپ کے اکابر ااعن جد علم و فضل اور خدمت دین م یں بلند مقام رکھتے تھ ے ۔مولانا نے اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دور کے اجلہ فضلاء سے اکتساب فیض کیا جن میں سے مولانا کیلم اللہ مچیانوی، مولانا محمد عد اللہ ٹونکی ( محشی حمد اللہ شرح سلم ) مولانا عبد الحکیم کلا نوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ آپ نے السنٔہ شرقیہ کے امتحانات امتیازی پوزیشن میں پاس کئے سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں حضرت خواجہ پیر سید حیدر شا جلالپوری قدس رہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔ تحصیل علوم سے فراغت کے بعد ۱۳۱۴ھ/۱۸۹۶ء میں مشن ہا۔۔۔
مزید
زبدۃ العافین، قدوۃ السالکین حضرت خواجہ محمد عبد الکریم ابن نذر محد قدس سرہما ۱۱ ،اپریل ، رجب المرجب (۱۳۶۴ھ/۱۸۴۸ئ) بروز شنبہ بوقت صبح پیدا ہوئے تین ماہ کی عمر میں عالدہ مجا دہ کا انتقال ہو گیا اور ابھی آپ کی عمر دو برس بھی نہیں ہوئی تھی کہ والد ماجد کا سایۂ شفقت بھی سر سے اٹھ گیا لہٰذا آپ کی پرورش آپ کے چچا میاں پیر بخش اور عادہ و زاہد ہ پھوپھی نے بحسن وخوبی انجام دی۔آپ جب پھوپھی صاحبہ تہجد کے بعد دعا کیا کرتی تھیں کہ اے اللہ اس بچے کو اپنا بندہ بنا اور دین و دنیا میں اس پر برکت نازل فرما! حافظ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اس دعا کی ٹھنڈک اب بھی اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں اور یہ سب اسی دعا کا نتیجہ ہے ۔ جب آپ کی عمر ۸ برس ہوئی تو آپ کو محلہ کی مسجد کے امام قاضی ۔۔۔
مزید