شیخ المشائخ حضرت کواجہ معظم دین مرولوی قدس سرہ العزیز ۱۲۴۷ھ؍ ۱۸۳۲ء میں تحصیل بھلوال کے ایک گائوں مرولہ میں پیدا ہوئے جسے بعد میں آپ کی فضیلت و شرافت کی نست سے مرولہ شریف کہا جانے لگا۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، قرآن کریم تجوید احفظ کیا،تیرہ سال کی عمر میں حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رضی اللہ عنہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے پھر تحصیل علم کے بعد کچھ عرصہ لاہور اور زیادہ عرصہ بمبئی میں قیام کیا،وہاں سے علوم متداولہ کی تحصیل و تکمیل کی اعلیٰ سندلے کر زیارت مقدسہاور سیاحت عالم کے لئے روانہ ہوئے ترکی میں علماء سے ماحث میں شریک ہوئے ترکی کے علماء آپ کی جلالت علمی سے بیجد متاثر ہوئے اور حکومت وقت کو آپ کی طرف متوجہ کرایا چنانچہ سرکاری طورپر ایک با وقار تقریب میں آپ کو حکومت کی طرف سے شمس العلماء کا خطاب اور اعزازی ڈگری پیش کی گئی۔۔۔
مزید
حضرت مولانا مشیت اللہ قادری ابن مولانا رحیم بخش قادری ابن مولاا حکیم سعید اللہ قادری ابن اشرف الحکماء مولانا حافظ حکیم عطیم اللہ قادری (رحمہم اللہ تعالیٰ) اپنے وطن مالوف آنولہ (ضلع بریلی،یوپی) میں ۷۔۱۳۹۶ھ؍۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم خلفہ ضیاء علی سے حاصل کی،فارسی کی کتابیں اپنے والد ماجد مولوی رحیم بخش اور مولوی اسد علی سے پڑھیں،عربی کتب متو سطات تکی اپنے جد امجد مولانا حکیم سعید اللہ قادری سے پڑھیں،پھر کچھ کتابیں مولانا سید سراج الدین شاہجہانپوری سے پڑھیں،مولانا مفتی حافظ بخش گد ایونی قدس سرہ سے تکمیل کی۔ ہندی منشی چو کھے لال سے سبقا پڑھی اور بعض دیگر فنون بھی حاصل کئے، فن شاہسواری میں کمال رکھتے تے،تاریخ و ادب کے ماہر تھے خاص طور پر تاریخ روہیل کھنڈ پر وسیع نظر رکھت۔۔۔
مزید
آپ اودھ کے بڑے عالموں میں شمار کیے جاتے تھے، بڑے ولی اللہ، پاکیزہ روش اور معاملے میں صاف تھے، اودھ کے شیخ الاسلام مولانا فریدالدین سے جب آپ تفسیر کشاف پڑھتے تھے تو اودھ کے دیگر علماء مثل مولانا شمس الدین یحییٰ سماع کیا کرتے تھے، آپ کا لباس علماء کی مانند ہوتا تھا مگر حقیقتاً آپ تصوف کے اوصاف سے موصوف تھے، آپ اگرچہ اپنے شیخ خواجہ نظام الدین اولیاء کے باقاعدہ خلیفہ مجاز تھے مگر پھر بھی لوگوں کو بیعت نہیں فرمایا کرتے تھے اور اکثر و بیشتر یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر خواجہ نظام الدین اولیاء حیات ہوتے تو میں آپ کا عطا کردہ خلافت نامہ آپ کو واپس کرکے عرض کرتا کہ یہ دینی کام میں نہیں سرانجام دے سکتا، آپ کو اپنے شیخ خواجہ نظام الدین اولیاء سے بے حد عقیدت و محبت تھی، نیز یہ بات بھی مشہور ہے کہ آپ نے اپنے مرشد کے ملفوظات فوائد الفواد کو آخری عمر میں خود نقل فرمایا تھا، وہی اپنے ۔۔۔
مزید
آپ بڑے ولی اللہ ، ذی علم، متقی، صاحب ذوق و عشق اور خواجہ نظام الدین کے خلیفہ تھے، امور شرعیہ میں بڑے مضبوط تھے، اوائل عمر میں مولانا فخر الدین ہانسوی سے دہلی میں تعلیم حاصل کی، اپنی ذہانت اور فصاحت بیانی کی وجہ سے اہل شہر کےممتاز لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے، آخر کار خواجہ نظام الدین اولیاء کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے اور سر منڈوادیا، طالب علموں کے زمرہ سے نکل کر درویشوں کی جماعت میں داخل ہوگئے اور غیاث پور میں رہنے لگے، اپنے مُرشد کے انتقال کے بعد دریائے جمنا کے کنارے ایک محلہ میں مقیم ہوئے، جسے اب فیروز آباد دہلی کہتے ہیں، کچھ دنوں تک حوض علائی پر ٹھہرے رہے اور ایک مدت تک بسنا بند میں عبادت الٰہی کرتے رہے جو پہاڑوں کے وسط میں ہے اور آپ کے زمانہ میں وہ علاقہ جنگل و بیابان اور شیروں کی آماجگاہ تھا، اس کے بعد خواجہ معین الدین چشتی کی زیارت کے لیے اجمیر تشریف لے گئے، وہاں سے ہوتے ۔۔۔
مزید
(بانی نوری کتجانہ ،دربار حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ لاہور) مولانا سید محمد معصول شاہ ابن حضرت فضل شاہ (سجادہ نشین) چک شادہ شریف،ضلع گجرات،تقریباً ۱۳۱۶ھ؍۱۸۹۸ء میں پیدا ہوئے دینی تعلیم حضرت مولانا امام دین رحمہ اللہ تعالیٰ سے حاسل کی،بعدہ لاہور میں حجرت داتا صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزا پر انوار پر حاضر ہو کر حضرت بابا فضل نور قادری نوشاہی رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور خلافت سے نوازے گئے،حضور داتا صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے آپ کو خاص عقیدت تھی۔آپ نے اپنی زندگی کے اکثر اوقات مزار حضرت داتا صاحب پر گزارے آکر ۱۹۵۷ء میں حضرت کے قریب مستقل سکونت اختیار کرلی۔حضرت شیخ الحدیث لائل پوری ہر ماہ حضرت داتا گنج بخش کے دربار میں حاضری کے لئے آتے تو حضرت پیر صاحب سے ضرور ملاقات کرتے اور سنی رضوی کتب خانہ کے لئے بہت سی کتابیں ۔۔۔
مزید
آپ کا پایۂ علمی بہت بلند ہے،اپنے دور کے اکابر فضلاء میں ستے تھے، نرڑہ (کیمبلپور) میں پیدا ہوئے۔علامہ محمد غازی صاحب استاد زمن مولانا احمد حسن کانپوری کے اجلہ تلامذہ میں سے تھے،ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے اورمدرسہ صولتیہ میں آٹھ سال تک درس دیتے رہے حضرت شیخ الاسلام پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ جب حج کے لئے تشریف لے گے تو مولانا علامہ محمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ آپ کے علوم و معارف سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ کے ساتھ ہی گولڑہ شریف چلے آئے اور تمام عمر آستانۂ عالیہ بسر کی اور مسلک اہل سنت و جماعت کے تحفظ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔افسوس کہ آپ کے تفصیلی حالات معلوم نہیں ہو سکے، ۱۳۵۸ھ؍۱۹۳۹ء کو دار آخرت کا سفر کیا اور گولڑہ شریف کی مسجد کے شمالی جانب حضور اعلیٰ گولڑوی کے۔۔۔
مزید
آپ شیخ قطب الدین کے فرزند تھے (جیسا کہ شیخ کے حالات مذکورہ میں ذکر ہوا) منقول ہے کہ جب سلطان محمد تغلق بادشاہ نے شیخ قطب الدین منور کو اپنے دربار میں بلایا تو آپ بھی چپکے چپکے پیچھے چلے گئے، چونکہ اس وقت بہت کمسن تھے اس لیے وہاں کی سطوت و رعب وغیرہ سے گھبرا گئے اوربےہوش ہوگئے جب شیخ قطب الدین منور کو معلوم ہوا تو فرمایا نور الدین سنو! بزرگی اور کبریائی تو خاصہ خداوندی ہے، شیخ نور الدین فرمایا کرتے تھے کہ والد محترم کی اِتنی بات سننے کے بعد میرا دل اتنا مضبوط اور قوی ہوگیا کہ پھر وہ تمام شاہی رعب میرے دل سے رفو چکر ہوگیا، آپ کا مزار اپنے آبا و اجداد کے گُنبد میں ہے۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
آپ کے بارے میں صاحبِ فوائدالفواد تحریر فرماتے ہیں کہ آپ ایک دانشمند صاحب حال بزرگ تھے، جب آپ کے ہاں کوئی پڑھنے کی غرض سے آتا تو آپ فرماتے پہلے میری تین شرطیں قبول کرنا ہوں گی اس کے بعد پڑھاؤں گا۔ (1) شرط یہ ہے کہ ایک وقت کھانا، تاکہ علم کے لیے گنجائش رہے (2)پڑھنے میں ناغہ نہ کرنا، اگر ایک دن بھی ناغہ ہوگیا تو اس سلسلہ کو ختم کردوں گا اور دوسرے دن ہرگز نہ پڑھاؤں گا (3) جب کبھی مجھے راستہ میں ملنا تو سلام کرکے فوراً ہی چلے جانا، اور راستہ میں میری زیادہ تعظیم نہ کرنا، آپ کی تاریخ وفات بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے۔یعنی 786ہجری اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
آپ کے متعلق شیخ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ آپ صاحب حال بزرگ تھے ، ہمیشہ مراقبہ اور ذکرُ اللہ میں مستغرق رہتے تھے، آپ کو یہ بھی پتہ نہ ہوتا تھا کہ آج کون سا دن اور کون سا مہینہ ہے، ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک شخص آپ کے پاس کاغذ لے کر آیا، اور عرض کیا کہ آپ اس پر اپنا نام تحریر فرمادیں آپ نے اس آدمی سے کاغذ لے لیا اور قلم اٹھایا، لیکن حیران تھے، خادِم سمجھ گیا کہ آپ اس وقت اپنا نام بھول گئے ہیں، اس نے فوراً کہا کہ حضور کا نام محمد ہے اس کے بعد شیخ نے اس کاغذ پر اپنا نام لکھ دیا، اسی طرح ایک دن آپ نماز جمعہ پڑھنے کے لیے جا رہے تھے جب مسجد کے دروازے تک پہنچے تو حیران ہوکر کھڑے ہوگئے خادم نے اندازہ کرلیا کہ شیخ کو اس وقت یہ یاد نہیں رہا کہ میرا دایاں پاؤں کون سا ہے، اس لیے اس نے اپنا ہاتھ شیخ کے داہنے پاؤں پر رکھا اور عرض کیا کہ شیخ کا سیدھا پاؤں یہ ہے تب آپ نے اپنا دایاں پاؤں مسجد میں رکھا۔۔۔۔
مزید