(۸۴۶ھ/ ۱۴۴۴ء/ ۹۷۰ھ/ ۱۵۶۲ء) اسفزار (ماوراء النہر) ترکی قطعۂ تاریخ وصال مصروف رہا کرتے تھے وہ ذکر خدا میں صاؔبر سنِ وصال ہے اُس فخرِ ملک کا مست کمال تھے شہرِ درویش محمد ’’یوسف جمال تھے شہِ درویش محمد‘‘ ۱۵۶۲ء (صاؔبر براری، کراچی) آپ کی ولادت ۱۶؍شوال ۸۴۶ھ مطابق ۶؍فروری ۱۴۴۴ء کو ہوئی۔ آپ کو اپنے ماموں محمد زاہد قدس سرہ سے اجازت و خلافت ہے۔ بیعت سے پندرہ سال پہلے زہد و ریاضت میں مشغول رہا کرتے تھے اور تجرید وتفرید (خلوت، تنہائی، گوشہ نشینی) کی حالت میں بے خور و خواب (بغیر کھانے پینے کے) ویرانوں میں بسر اوقات کرتے تھے۔ ایک روز بھوک کی شدت میں آسمان کی طرف منہ اٹھایا تو اُسی وقت حضرت خضر علیہ السلام حاضر ہوئے اور فرمایا کہ اگر صبر و قناعت مطلوب ہے تو خواجہ محمد زاہد کی خدمت میں قدمبوسی کرو، وہ تم کو صبر و قن۔۔۔
مزید
عارف کامل حضرت علامہ مولانا غلام دستگیر قصوری قدس سرہ مولانا دستگیر ہاشمی قریشی صدیقی ابن مولانا حسن بخش صدیقی محلہ چلہ بیبیاں ادرون موچی دروازہ ،لاہور میں پیدا ہوئے اور حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر علوم و معارف کے دریاد امن مراد میںسمیٹے ۔ مولانا غلام دستگیر کو حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری کا شاگرد ،خواہر زادہ ، داما، مرید با صفا اور خلیفہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔۱۸۹۰ء میںحج و زیارت سے مشرف ہوئے تبلیغ اسلام اور مخالفین اسلام کی سر کوبی میںآپ کے خدمات نا قابل فراموش ہیں، بر صغیر پاک و ہند میں کوء مناظر آپ کا ہمسر نہ تھا۔ مناظرئہ بہاولپور وہ یادگار مناظرہ ہے جس میںآپ کو مولوی خلیل احمد انبھیٹوی کے مقابلہ میں زبر دست کامیابی ہوئی۔  ۔۔۔
مزید
آپ بابا محمد صدق کبروی کشمیری قدس سرہ کے خلف الصدق تھے۔ وقت کے عظیم مشایخ میں سے تھے۔ عبادت زہد۔ ورع اور تقویٰ میں بلند مرتبہ رکھتے تھے اپنے والد مکرم کی وفات کے بعد چھوٹی عمر میں ہی سجادۂ ارشاد پر جلوہ فرما ہوئے اور خواجہ شاہ حسین بہکھیلی کی صحبت سے تربیت و تکمیل پائی جوانی کے عالم میں سفر پر نکلے اور حضرت خواجہ میر ہمدانی قدس سرہ کی قبر کی زیارت کے لیے ختلان کو روانہ ہوئے چونکہ ان دنوں اس علاقہ میں سیاسی ابتری اور فسادات کا دَور دورہ تھا۔ کابل سے واپس ہندوستان آگئے اور وہاں سے حرمین الشریفین کی زیارت کو جا پہنچے۔ اس طرح مدینہ پاک کی زیارت کے بعد مختلف اسلامی ممالک سے ہوتے ہوئے سال سال کے بعد واپس آئے۔ اور کشمیر میں قیام پذیر ہوکر ہدایت خلق میں مشغول ہوگئے۔ صاحب تواریخ اعظمی نے آپ کی سالِ وصال ۱۱۵۷ھ لکھا ہے آپ کا مزار بابا ولی کشمیری کے روضہ کے متصل سری نگر میں ہے اور زیارت گاہ خو۔۔۔
مزید
حضرت میاں میر جلیل القدر مرید و خلیفہ تھے۔ فقہ، حدیث اور تفسیرِ قرآن کے جیّد عالم ہونے کے علاوہ واقفِ اسرارِ ربانی بھی تھے۔ شہر حاجی پورہ میں مقیم تھے جو قصبہ گواپور(بہار) میں واقع تھا۔ آپ چھوٹی عمر ہی میں علم حاصل کرنے کے لیے اپنے وطن سے نکلے۔ کچھ مدت تک قصبہ کورا میں شیخ جمال اولیاء کے پاس رہے، ان سے فیض حاصل کر کے لاہور آئے اور ملّا فضل لاہوری سے علومِ ظاہری کی تکمیل کی۔ ملّا اپنے ہو نہار شاگرد سے اس قدر خوش تھے کہ انہیں اپنے گھر ہی میں رہنے کی اجازت دے دی۔ ان ایّام میں حضرت شیخ میاں میر کا باطنی فیض عام تھا۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علومِ باطنی کی تکمیل کی۔ وفاتِ مرشد کے بعد مرجع خلائق تھے۔ آپ نے تمام عمر ہدایتِ خلق اور درس و تدریس میں گزاری۔ آپ کامدرسہ دہلی دروازے کے اندر واقع تھا۔ جو بہت مشہور تھا۔ نواب سعداللہ خاں اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے۔ کسبِ علوم کے لیے دور دور سے طلب۔۔۔
مزید
خواجہ بہاری: عالم علومِ فقہ و حدیث و تفسیر اور واقفِ اسرار حقانی تھے۔ اوائل میں اپنےشہر حاجی پورے نکل کر واسطے تحصیل علوم کے قصبۂ کودہ پور میں آئے اور شیخ جمال الاولیاء سے عرصہ تک پڑھتے رہے،پھر لاہور میں آکر ملا محمد فاضل لاہور سے مخصلیت کی دستار باندھی اور انہی کے گھر میں سکونت اختیار کی۔ آخر کو حضرت میاں میرے کے مرید ہوکر ان کے اعظم خلفاء میں سے ہوئے۔ وفات آپ کی ۱۰۶۰ھ میں ہوئی اور لاہور میں دفن کیے گئے۔’’معدن فیوض‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مولاناحکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اسمِ گرامی: آپ کا اسمِ گرامی مرزا غلام قادر بیگ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت خواجہ عبداﷲ احرار علیہ الرحمہ سے ملتا ہے۔ حضرت احرار رحمتہ اﷲ علیہ نسلاً" فاروقی "تھے۔ اس طرح آپ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے ملتا ہے۔ تاریخ ومقامِ ولادت: حضرت مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ لکھنوی رحمتہ اﷲ علیہ یکم محرم الحرام 1243ھ/1827ء کو محلہ جھوائی، ٹولہ لکھنؤ (یوپی، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد نے لکھنؤ سے ترک سکونت کرکے بریلی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ سیرت وخصائص: حضرت مرزا غلام قادر بیگ رحمۃ اللہ علیہ مایہ ناز عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ومشفق استاد بھی تھے۔ اپنی خدا دادصلاحیتوں کی وجہ طالبِ علم کو دیکھتے کے ساتھ ہی اس کی قابلیت کا اندازہ لگالیتے۔ آپ نے مولانا نقی علی خان اور ان کے والد رحمۃ اللہ علیہما کے ساتھ۔۔۔
مزید
احمد پاشا بن خضر بیگ بن جلال الدین رومی: علم اصول و فروع میں بڑے ماہر متجر اور پرہیز گار و متواضع بھی کامل درجہ کے تھے۔جب سلطان محمد خاں بن سلطان مراد خاں نے قسطنطیہ میں آٹھ مدارس بنوائے تو ایک مدرسہ آپ کو بھی تدریس کے لیے دیا گیا مگر جب آپ کے بھائی سنان پاشا یوسف دعہدۂ قزارت سے معزول ہوئے توآپ کو شہر اسکوب کے مدرسہ پر تبدیل کیا گیا۔پھر جب سلطان با یزید خاں بن محمد خاں تخت نشین ہوا تو اس نے آپ کو ادرنہ کے مدرسہ پر مقرر کیا، بعد ازاں آپ کو بوسا کا قاضی بنایا گیا اور باقی عمروہیں رہے یہاں تک ۹۲۷ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے اکابر خلفأ سے تھے۔ بارگاہِ مرشد سے نور محمّد نوری کے خطاب[1] سے ممتاز تھے۔ پہلے علم ظاہری میں حضرت نوشاہ عالی جاہ کے شاگرد تھے بعد ازاں مرید ہوکر کمال کو پہنچے۔ بڑے بذرگ، صاحبِ علم و عمل اور زاہد و عابد تھے۔ نقل ہے ایک روز موضع نوشہرہ کا یک معلّم بلاول نام حضرت نوشہ گنج بخش کی خدمت میں حاضر ہوا اور نذرانہ دیا اور عرض کیا کہ حضرت توجہ فرمایئے اور دُعا کیجئے کہ میری حالت شیخ احمد بیگ کی سی ہوجائے۔ آپ نے متبسّم ہو کر فرمایا: ہر ایک کو مرتبہ اس کے حوصلے اور ظرف کے مطابق دیا جاتا ہے، تو اچھا اگر تیری یہی مرضی ہے تو ایسا ہی ہوجائے گا۔ معلّم اسی وقت بے ہوش ہوکر گِر پڑا اور تڑپنے لگا۔ حتیٰ کہ تڑپتے تڑپتے مکان کی ایک منزل سے نیچے صحن میں آگِرا اور کئی روز کے بعد ہوش میں آیا۔ اس پر ایسی حالت وارد ہوئی کہ اپنے گھر میں بیٹھا ہوتا یک لخت انتہائے اضطراب و بے چینی میں اُٹھ۔۔۔
مزید