آپ کا اسم گرامی ابواسحاق تھا بغداد کے مشائخ میں ممتاز مقام رکھتے تھے حضرت شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض یافتہ تھے، حضرت ابوعبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے گزارش کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے، فرمایا ایسا کوئی کام نہ کرتا جس سے تمہیں پشیمان ہونا پڑے۔ آپ ۳۶۹ھ میں فوت ہوئے۔ رفت ابراہیم چوں از دار دہر رحلتش ولی گفت حق بینِ حق نما ۳۶۹ھ روح اوبر عرش شد از خاکباز نیز ابراہیم عابد پاک باز ۳۶۹ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ کا نام محمد بن سلیمان صعلوکی الفقیر تھا نیشا پور کے رہنے والے تھے شریعت و طریقت کے امام اور یگانۂ روزگار تھے وقت کے تمام مشائخ آپ کی ولایت پر متفق اللفظ تھے، حضرت ابوبکر شبلی مرتعش، علی سقفی، رافق، ابوالحسن قوشنجی اور ابا نصر نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی مجالس میں رہ کر فیضان صحبت حاصل کیا، سماع کے بڑے رسیا تھے دوران سماع وجد اور حال کی کیفیت میں مستغرق رہتے تھے ایک بار آپ سے حکم سماع کے بارے میں دریافت کیا گیا آپ نے فرمایا: اہل حقائق کے لیے مستحب ہے اہل علم کے لیے مباح ہے اہل نفس کے لیے مکروہ ہے اور فسق و فجور کے خوگر حضرات کے لیے حرام ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے میں نے ساری عمر اپنی جیب سے روپیہ جمع کرنے کے لیے نہیں ڈالا اور کبھی روپے پیسے کو کسی گانٹھ میں نہیں باندھا اور کبھی کسی چیز پر تالا نہیں لگایا۔ آپ کی وفات ۳۶۹ھ یا ۳۶۸ھ میں ہوئی، آپ کا مزار نیشاپور میں ہے۔ بج۔۔۔
مزید
اس گرامی احمد بن مقری تھا، حضرت ابویوسف حسین، عبداللہ خراز مظفر کرمان شاہی سے صحبت رکھتے تھے حضرت رویم، حریری اور حضرت ابن عطا سے فیض حاصل کیا والد محترم سے پچاس ہزار کا ورثہ پایا تھا، تمام ورثہ فقرا اور مساکین میں تقسیم کردیا حرم پاک میں مجاور بن گئے، آپ ۳۶۶ھ میں فوت ہوئے ایک تذکرہ نگار نے ۳۶۸ھ بھی لکھا ہے۔ شیخ عبداللہ پیر دستگیر میر حسن آمد وصالِ پاک او ۳۶۸ھ شد چو از دنیا بفردوس بریں عارف زاہد دگر کردم یقین ۳۶۸ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ کا اسم گرامی محمد بن احمد بن ابراہیم تھا، جر جر آباد کے رہنے والے تھے کا ملیں مشائخ اور اساتذہ میں سے تھے ظاہری اور باطنی علوم کے جامع تھے۔ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی کے مصاحب تھے، ابویوسف حسین سے صحبت رکھتے تھے بڑی لمبی عمر پائی تھی،مستقیم الحال اور صاحب حال بزرگ تھے بڑی تصانیف یادگار چھوڑیں۔ سفینہ الاولیاء کے مولف نے آپ کی وفات ۳۶۵ھ لکھی ہے۔ نفحات الانس اور تذکرہ العاشقین نے ۳۶۴ھ سالِ وفات لکھا ہے۔ حضرت ابوبکر چوں از دارِ دہر نور حق سال وصال او بگو ۳۶۴ھ رفت در قرب خدائے ذوالجلال ہم امام اصفیا اہل جلال ۳۶۴ھ اہل دین سالک مقید(۳۶۵ھ)۔ پارسائے کامل(۳۶۵ھ)۔ طالب کامل ابوبکر(۳۶۴ھ) سے بھی تواریخ وصال نکلتی ہیں۔ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ اپنے وقت کے فقیہِ محدث اور مفسر بے مثال تھے معجم کبیر، معجم صغیر، معجم اوسط اور دلائل النبوت آپ ہی کی تصانیف ہیں، احادیث کی ان کتابوں میں آپ نے ایک ہزار اساتذہ حدیث سے احادیث جمع کیں اور روایت کی ہیں آپ ۳۱۰ھ میں فوت ہوئے۔ سلیمان ابن احمد شیخ دین پیر وصالش طرفہ مہدی الکریم است ۳۶۰ھ کہ علم از ذات پاک او ہویدا سلیمان بندہ حق نیز پیدا ۳۶۰ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ کا اس گرامی محمد بن داؤد دمشقی تھا ، دنیور کے رہنے والے تھے، مگر شام میں سکونت اختیار کرلی آپ حضرت شیخ دقاق کبیر کے مرید تھے، حضرت ابوبکر مصری اور سید الطائفہ جنید بغدادی کی مجالس میں شرفِ صحبت حاصل کرتے تھے، حضرت ابن جلا نے آپ سے روحانی نسبت قائم کی اور آپ کی مجلس میں مشائخ کا مجمع ہوتا۔ ایک بار آپ ایک وادی سے گزر رہے تھے کہ آپ کے دل میں خیال آیا اے اللہ مجھے اپنے اسرار میں سے کسی راز سے آگاہ فرما، اسی وقت نور کا ایک شعلہ نمودار ہوا حضرت شیخ رونے لگے اور روتے روتے جاں بلب ہوگئے، آپ نے فریاد کی اے اللہ مجھے قوت برداشت نہیں اپنے راز کو واپس لے لے، اسی وقت آپ اصل کیفیت پر آگئے اور آپ کو سکوں ملا۔ آپ شام میں ۳۵۹ھ میں فوت ہوئے، آپ کی عمر ایک سو سال تھی۔ ابوبکر چوں شد در جہاں شہ مقیم یکے صبر بان ولی آگاہ کو بتاریخ آن شاہ عالی حق دوبارہ ابوبکر ہادی حق ۳۵۹ھ ۔۔۔
مزید
آپ کا اسم گرامی ابو عمر واصل تھا آپ گارذدن فارس میں سے تھے، وقت کے مستجاب الدعوات تھے، آپ جو کچھ مانگتے پالیتے تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ آپ ابدالوں میں سے تھے، اور آپ کی صحبت بھی ابدالوں سے رہتی، آپ ۳۵۸ھ بروز سہ شنبہ ۲۶ ماہ ذوالحجہ کو واصل بحق ہوئے۔ شہِ عبدالملک شیخ معظم رقم شد صدر دین تاریخ وصلش ۳۵۸ھ مکمل راہنمائے جملہ عالم عیاں شد ہم ز محبوب مکرم ۳۵۸ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید