ابن سلمہ بن خلف بن عمرو بن احب بن مقیاس بن جتر بن عدی بن سلول بن کعب بن عمرو بن ربیعہ۔ ربیعہ کا نام لحی بن حارثہ خزاعی سلولی۔ ان بدیل کی والدہ کا ام ام اصرم ہے جو بیٹی ہیں احجم بن دندنہ بن عمرو بن قین بن زواج بن عمرو ابن سعد بن کعب بن عمرو بن ربیعہ کے وہ بھی خزاعی ہیں ور ان کے والدہ کی والدہ حیہ بنت ہاشم بن عبد مناف بن قصی ہیں۔ بدیل اپی والدہ کے نسب ے زیادہ مشہور ہیں۔ ان کا نسب ہشام بن کلبی نے اسی طرح بیان کیا ہے۔یہ بدیل اور ان کی والدہ کعب بن عمرو میں جاکے مل جاتے ہیں۔ بدیل کی والدہ ابو مالک یعنی اسید بن عبداللہ بن احجم کی پھوپھی ہیں یہ بدیل اور عمرو بن حمق بن کلہن بن حبیب بن عمرو بن قین عمرو میں جاکے مل جاتے ہیں۔ یہ بدیل وہی ہیں جنھیں نبی ﷺ نے قبیلہ بی کعب کی طرف بھیجا تھا اور ان کے ہمراہ بشر بن سفیان کو بھیجا تھا تاکہ انھیں جہاد مکہ کے لئے طلب کریں۔ ان کا تذکرہ ابو عمر نے لکھا ہے۔۔۔
مزید
کنیت ان کی ابو عبداللہ۔ نبی ﷺ کے غلام تھے۔ ہمیں محمد بن ابی بکر بن ابی عیسی نے کتابۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے اسمعیل بن فضل بن احمد نے خبر دی وہ کہتے تھے میں نے اسے جعفر بن عبدالواجد کے سامنے پڑھا یہ دونوں کہتے تھے ہمیں ابو طاہر بن عبدالرحیم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبدالہ بن محمد یعنی حافظ ابو الشیخ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں بن اعین نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں اسحاق بن اسرائیل نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن جابر نے عبداللہ بن بدر سے انھوں نے اپنے والد سے جو رسول خدا ھ کے غلام تھے نقل کر کے خبر دی کہ وہ ہتے تھے رسول خدا ﷺ نے وصیت س یپہلے قرض کے ادا کنے کا حکم دیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ حقیقی بھائی وارث ہوتے ہیں نہ علاتی۔ اس حدیث کو اسحاق بن طباع نے روایت کیا ہے اور نیز س کو ابن جرح نے محمد بن جابر سے انھوں نے عبداللہ بن بدر سے انھوں نے ابن عمر سے روایت کیا ہے۔ ان کا تذکرہ ابو ۔۔۔
مزید
ابن عبداللہ مزنی۔ ان سے بکر بن عبداللہ مزنی نے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں ایک پیشہ ور شخص ہوں میرے مال میں ترقی نہیں ہوتی حضرت نے فرمایاکہ اے بدر بن عبد اللہ صبح کو تم یہ کہہ لیا کرو بسم اللہ علی نفسی بسم اللہ علی اہلی و مالی افلہم رضنی بما قضیت لی و عافنی فیما ابقیت حتی لا حب تعجیل ما اخرت ولا تاخیر ما عجلت (٭ترجمہ۔ میں اپنی جان پر اور اپنے گھر والوںپر اور اپنے مال پر بسم اللہ پڑھتا ہوں اسے اللہ جو کچھ تو میرے لئے مقدر کیا ہے اس پر مجھے راضی کر دے اور جو کچھ تو میرے پاس باقی رکھے اس میں مجھے عافیت دے تاکہ جو کچھ تو دیر میں دینے والا جو اس کی میں جلدی نہ کروں اور جو کچھ تو جلد دنے والا ہے میں اس کی تاخیر نہ چاہوں) چنانچہ ان الفاظ کو کہہ لیے کرتا تھا اللہ میرے مال میں برکت دی اور میرا قرض ادا کرا دیا اور مجھے اور میرے گھر والوںکو مالدار کر دیا۔ ان ک۔۔۔
مزید
ابن عبداللہ خطمی۔ بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام بربر ہے یہ دادا ہیں ملیح بن عبداللہ بن بدر کے۔ ملیح نے اپنے والد سے انوں نے ان کے دادا سے رویت کی ہے ہ یہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا پانچ باتیں پیغمربوںکی سنت ہیں۔ حیا، بردباری، پچھنے لگانا، مسواک کرنا، عطر لگانا۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے مگر ابن مندہ نے ان کو سعدی لکھاہے اور ابو نعیم نے ان کو خطمی لکھا ہے اور ابن مندہکو وہم ہوگیا ہے انھوں نے ملیح بن عبداللہ کو سعدی لکھاہوا دیکھا اور انھوں نے سمجھا کہ یہ بدر کے پوتے ہیں لہذا انھوں ن بدر کو سعدی لکھ دیا مگر حق وہی ہے جو ابو نعیم نے لکھا ہے ان دونوں کو ابو نصر بن ماکولا نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔
مزید
حافط ابو موسی نے ابن مندہ پر اتدراک کرنے کی غرض سے لکھا ہے کہ ان کا تذکرہ عبدان نے لکھا ہے اور انوں نے اپنی سند سے عبدان بن محمد سے انھوں نے عباس بن محمد سے انھوں نے ابو نعیم سے انھوں نیعبدالسلام بن حربس ے انھوں نے ابو خالہ ابن یزید بن عبدالرحمن سے انھوں نے محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے انھوں نے بہینہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا نبی ﷺ کا میری طرف سے گذر ہوا۔ طلوع فجر کے بعد میں کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا تھا آپنے فرمایا کہ جس طرح ظہر سے پہلے یعنی ٹھیک دوپہر کے وقت) اور بعد اس کے (یعنی غروب آفتاب کے وقت) نماز پڑھنا ممنوع ے اسی طرح یہ نامز بھی نہ پڑھا کرو ان (٭معلوم ہوا کہ طلوع فجر کے بعد سوا دو رکعت سنت فجر اور دو رکعت فرض فجر کے اور کوئی نماز پڑھنا چاہئے یہی مذہب حنفیہ کا ہے) دونوں کے درمیان میں فصل کر دیا کرو ابن مندہ نے کہا ہے کہ عبدان نے اس کا ذکر اسی طرح کیا ہے ور صحیح وہ ہے جو ہم۔۔۔
مزید
ابو ربیعہ کے بیٹِہیں۔ انکا نام عمرو بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم ہے۔ قرشی ہیں مخزومی یں ان کا نام بحیر تھا مگر نبی ﷺ نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔ عمرو بن عبداللہ ابن ابی ربیعہ شاعر مشہور کے والد ہیں اور خالد بن ولید اور ابوجہل بن ہشام کے چچازاد بھائی ہیں۔ ابن مندہ نے ان کا تذکرہ بحیر کے نام میں لکھاہے اور ان تینوں نے ان کا تذکرہ عبدلالہ بن ابی ربیعہ میں لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔
مزید
بگیر الف کے۔ یہ انماری ہیں۔ ابن ماکولا نے لکھا ہے کہ ان کا صہابی ہونا چابت ہے اور ان کی روایت بھی نبی ﷺ سے ہے کنیت ان کی ابو سعید الخیر ہے ان کا ذکر انشاء اللہ کنیت کے باب میں آئے گا۔ ابن سمیع نے ان کا تذکرہ طبقات میں کیا ہے۔ ان سے قیس بن حجر کندی نے اور ابن لہیعہ اور بکر بن مضرس نے رویت کی ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔
مزید
) ان کا تذکرہ ابو موسی نیابن مندہ پر استدراک کرنیکے لئے لکھا ہے مقاتل وغیرہسے نقل کیا ہے کہ جعفر بن ابی طالبکے ہمراہ بتیس آدمی حبش کے نبی ﷺ کے حضور میں آئے تھے اور آٹھ آدمی شام کے۔ بحیر، ابرہہ، اشرف، تمام، ادریس، ایمن، نافع، تمیم۔ پس معلوم ہوتاہے کہ ابن مندہ کے نزدیک یہ اور کوئی شخص ہیں اور نہ وہ ان کا تذکرہ بطور استدراک کے کیوں لکھتے کیونکہ بحیرا راہبکا تزکرہ ابن مندہ نے بھی لکھا ہے اور بحیرا راہباس وقت تک غالبا زندہ بھی نہیں ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔
مزید
راہب۔ انھوں نے نبی ﷺ کو قبل آپ کی نبوت کے دیکھا تھا اور آپ پر ایمان لائے تھے۔ ابن عباس نے روایت کی ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اٹھارہ برس کی عمر سے نبی ﷺ کے ہمراہ رہتے تھے اس وقت نبی ﷺ کی عمر بیس برس کی تھی وہ دونوں تجارت کی غرض سے شام جارہے تھے یہاں تک کہ جب ایک منزل میں قیام کیا تو وہاں ایک درخت بیریکا تھا نبیﷺ اس کے سایہ میں بیٹھ گئے اور ابوبکر صدیق اس راہبکے پاس گئے اس سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے راہب نے ان سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہیں جو بیری کے سایے میں بیٹھے ہیں حضرت ابوبکر نے کہا کہ یہ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں راہب نے کہا خدا کی قسم یہ نبی ہیں (ہمارے یہاں لکھا ہوا ہے کہ) اس درخت کے سایہ میں عیسی بن مریم علیہ السلامکے بعد سوا محمد ﷺ کے کوئی نہ بیٹھے گا اسی وقت سے حضرت ابوبکر کے دل میں یقین اور تصدیق آگئی تھی چنانچہ جب آنحضرت ﷺ نبی ہوئے تو ابوبکر صدیق رضیاللہ عنہ نے (فورا۔۔۔
مزید
ابن صبع بن اتتہ رعینی۔ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور فتح مصر میں شریک ہوئے تھے وہاں انھوں نے کچھ زمیں بھی لی تھی ان کا خطہ رعین کے نام سے مشہور ہے۔ابوبکر سمیں بن محمد بن بحر ان کی اولاد میں ہیں جو سلسلہ میں عمر بن عبدالزیز کی خلافت میں وسیاط کے حاکمت ھے۔ مردان بن جعفر بن خلیفہ بن بحر بھی ان کی اولاد میں ہیں جو بڑے فصیح شاعر تھے انھوں نے اپنے دادا کی مدح میں یہ اشعار کہے تھے۔ وجدی الذی عاطی الرسول یمیںہ وخبت الیہ من بعید رواکبہ بدر لنا بیت اقامت ماصولہ علی المجد ینی حلوہ و اسافکہ (٭ترجمہ۔ میرے دادا وہ ہیں جنھوں نے (بیعت کے لئے) رسول اللہ کو اپنا داہنا ہاتھ دیا۔ اور بہت در سے ان کی سواری کے جانور رسول کے پاس آئے۔ بدر میں ہمارا ایک گھر ہے جس کی بنیادیں درست ہیں اس کے اوپر اور نیچے کا تمام حصہ بزرگی پر بنا ہے) ابو ع۔۔۔
مزید