ابوالدرداء ،ان کانام عویمربن مالک بن زید بن قیس بن امیہ بن عامر بن عدی بن کعب بن خزرج بن حارث بن خذرج تھا،ایک روایت کے رُو سے ان کا نام عامر بن مالک تھا،اورعویمرلقب ،اورعویمر کے ترجمے میں ہم تفصیل سے لکھ آئے ہیں،ان کی والدہ کا نام محبہ دخترواقدبن عمرو بن اطنابہ تھا، انہوں نے قبولِ اسلام میں ذرادیرکی تھی،جبکہ ان کے گھرکے سب لوگ اسلام قبول کرچکے تھے، انہوں نے حسنِ عمل سے اسلام کی خدمت کی،یہ فقیہہ،دانش اور حکیم تھے،رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں اور سلمان فارسی میں مواخات قائم کرد ی تھی،حضورِاکرم نے فرمایاتھا، ابوالدرداء میری امت کا فلسفی ہے،غزوۂ ِاحد کے بعد تمام غزوات میں شریک رہے،البتہ غزوۂ احد میں ان کی شمولیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ عبداللہ بن احمد خطیب نے جعفر بن ابومحمد قاری سے،انہوں نے ابوالقاسم علی بن حسین بن محمد بن عبدالرحیم سے،انہوں نے محمد بن حسن بن عبدان سے،انہ۔۔۔
مزید
ابوقیس صرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوانس بن عدی بن عامربن غنم بن عدی بن نجار،یہ ابنِ اسحاق کا قول ہےاورقتاوہ کے مطابق ابوقیس بن مالک بن صفرہ ہے اورایک روایت میں مالک بن حارث ہے، لیکن ابنِ اسحاق کاقول درست ہے۔ ابنِ اسحاق کا قول ہے کہ ابوقیس نے رہبانیت اختیارکرلی تھی،اوروہ اون کے کپڑے پہنتے تھے،بتوں کے قریب نہیں جاتے تھے،اورجنابت کے بعد غسل کرتے تھے،عیسائی ہونے کا ارادہ کیاتھا، مگر پھر رُک گئے تھے،اپنے گھر میں ایک کمرے کو مسجد بنایاہواتھا،جس میں حائضہ اورجنبی کو گھسنے نہیں دیتے تھےاورکہتے تھے،کہ وہ ربّ ابراہیم کی عبادت رکتے ہیں،جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،توانہوں نے اسلام قبول کرلیا،اوراچھے مسلمان ثابت ہوئے،وہ اس وقت کافی بوڑھے ہوچکے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی حق اور صداقت کے زبردست حامی تھے،چنانچہ اس باب میں انہوں نے عمدہ عمدہ اشعارکہے۔ (۱)بقول ابوقیس واصبح ناصحاً الاماستطعتم من و صا۔۔۔
مزید
ابوصفرہ،ان کا نام ظالم بن سراق تھا،اورایک روایت میں سارق بن صبیح بن کندی بن عمرو بن عدی بن وائل بن حارث بن عتیک بن عمران بن عمرو مزیقیابن عامربن ماء السماءبن حارثہ بن امراءالقیس بن ثعلبہ بن مازن بن ازدلازدی العتکی ہے،اوروہ مہلب بن ابوصفرہ کے والد تھے،بصرے میں سکونت تھی،حضورکے عہد میں مُسلمان ہوگئے تھے،لیکن درباررسالت میں حاضرنہ ہوسکے، البتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں دس ۱۰ بیٹوں کے ہمراہ جن میں ان کے چھوٹے بیٹے مہلب بھی شامل تھے حاضرہوئے تھے،حضرت عمر انہیں دیکھتے رہے،اورعلامات کا اندازہ لگاتے رہے،پھرابوصفرہ سے کہنے لگے،تمہارایہ بیٹاسب کا سردارہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوصفرہ نے اپنے مال کی زکوۃ حضورِاکرم کو اداکی،مگرزیارت سے محروم رہے ایک اورروایت میں ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ حضرت صدیق کے دربارمیں حاضرہوئے تھے،تینوں نے انکاذکرکیاہے۔ ۔۔۔
مزید
ابوصفوان مالک بن عمیرہ،ایک روایت میں مالک بن عمیر،ایک میں سویدبن قیس سلمی بروایتے ربیعہ بن نزار سے تھے،ابواحمد عسکری نے انہیں بنواسد بن خزیمہ میں شمارکیا ہےاوران کا نام ابوصفوان مالک بن عمیر اسدی لکھاہے۔ عمروبن مرزوق نے شعبہ سے ،انہوں،سماک بن حرب سے،انہوں نے ابوصفوان مالک بن عمیر سے روایت کی،کہ میں نے حضورِاکرم کے لئے اس شخص سے شلوارکاکپڑا تین روپے کا خریدا،اس نے کپڑاماپا،اورتھوڑاسازیادہ دیاابوفطن عمروبن ہیشم نے شعبہ سے ،انہوں نےسماک سے،انہوں نے ابوصفوان سے اسی طرح روایت کی۔ اورثوری نے اسے سماک سے،انہوں نے سوید بن قیس سے روایت کی،کہ انہوں نے اورمحزفتہ الہجری نے ہجرسے بچنے کے لئے کچھ گندم خریدا،اتنے میں حضورِاکرم وہاں تشریف لے آئے اور مجھ سے ایک آدمی نے شلوار کے لئے کپڑاخریدا،آپ نے اپنے والد سے فرمایا،کپڑاقیمتاً ماپ کر دو،اور تھوڑا سے زیادہ دے دیاکرو،تینوں ذکرکیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
ابوسیف القین،ام سیف(جوحضوراکرم کے صاحبزادے ابراہیم کودودھ پلاتی تھیں)کے خاوند تھے،ثابت نے بواسطہ انس حضورِاکرم سے روایت کی،آپ نے فرمایا،میرے یہاں رات کو ایک بچہ پیداہوا،جس کانام میں نے اپنے ابوالاباء کے نام پر رکھا،اوربچے کو ابوسیف کی بیوی ام سیف کے حوالے کرناچاہا،کہ وہ اسکی پرورش کرے حضوربچے کو لے کران کے گھرگئے،ابوسیف دھونکنی دھونک رہے تھےاورگھر دھوئیں سے بھراہواتھا،انس کہتے ہیں،میں بھاگ کر ابوسیف کی پاس گیا، اورکہا،رک جاؤ،کہ حضورِاکرم تشریف لائے ہیں،چنانچہ وہ رُک گئے،ابوموسیٰ اورابونعیم نے ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
ابوصخرعقیلی،بصری تھے،مسلم بن حجاج نے انہیں صحابی لکھاہے،بقول ابوعمران کانام عبداللہ بن قدامہ تھا،ان سے عبداللہ بن شفیق نے ایک حدیث حسن دربارہ علاماتِ نبوت بیان کی ہے،سالم بن نوح نے سعید الجریری سے،انہوں نے عبداللہ بن شفیق سے،انہوں نے ابوصخرعقیلی سے روایت کی کہ وہ حضورِاکرم کے زمانے میں ایک بارمدینے میں ایک شیراوراونٹنی بیچنے آئے،جب وہ بک گئی، تو خیال آیاکہ کیوں نہ حضورِاکرم کی زیارت کرلوں،اتفاقاًمجھےراستےمیں سرکارمل گئے،ابوبکراورعمر ساتھ تھے،میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل دیا،اتنے میں ایک یہودی وہاں سے گزرا،جوتوریت پڑھ رہاتھا،اوراپنے قریب المرگ بیٹے پرآنسوبہارہاتھا،حضورِاکرم اس کی طرف چلے،تومیں بھی ادھرکو ہولیا،حضورنے اس سے فرمایا،اے یہودی،میں تجھے اس خداکی قسم دیتاہوں،جس نے توریت اتاری اورجس نے بنی اسرائیل کے لئے بحیرۂ احمرمیں راستہ بنادیا،میں تجھے زبردست قسم دیتاہوں، کیاتوریت میں میر۔۔۔
مزید
ابوالبشربن حارث از بنو عبدالدار،یہ وہ صاحب ہیں،جنہوں نے سبیعہ اسلمیہ کو نکاح کا پیغام بھیجاتھا، جسےسبیعہ نے قبول کرلیاتھا،یہ عبداللہ بن وضاح کا قول ہے جسے ابن الدباغ نے ابومحمد بن عقاب سے روایت کیا۔ ۔۔۔
مزید
ابوبزہ،عبداللہ بن سائب کے مولیٰ،اور مکے کے مشہور مقری خاندان کے دادا تھے،ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے،ابوالحسن احمد بن محمد بن قاسم بن ابوبزہ نے اپنے والدمحمد سے اس نے اپنے والد قاسم سے،ا س نے اپنے والدابوبرزہ سے روایت کی،کہ وہ اپنے مولیٰ عبداللہ بن سائب کے ساتھ حضورِاکرم کے خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضورِ اکر م کے ہاتھوں،پاؤں اور سر کو بوسہ دیا،ابوبکرمقری نے ابوالشیخ سے روایت کی،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
ابوصعیر،ثعلبہ بن ابوصعیربن زیدبن سنان بن مہتجن بن سلامان بن عدی بن صعیربن حرازبن کاہل بن عذرہ بن سعد بن ہذیم العذری کے والد تھے،ان کی حدیث کے راوی ان کے بیٹے ثعلبہ ہیں۔ خالد بن ابوخداش نے عمادبن زید سے ،انہوں نے نعمان بن راشدسے،انہوں نے زہری سے، انہوں نے ثعلبہ بن ابوصعیرسے،انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،کہ ہر چھوٹے بڑے ،آزاداورغلام،مرداورعورت کا فطرانہ ایک صاع گندم یا ایک صاع کھجورہے،محمد بن موکل نے اسے مؤجل سے،انہوں نے حماد سے،انہوں نے زہری سے، انہوں نے ثعلبہ بن ابومالک سے اورانہوں نے اپنے والدسے روایت کی،اورابنِ جریح نے اسے زہری سے،انہوں نے عبداللہ بن ثعلبہ سے مرسلاً روایت کی،اورہمام نے بکرالکوفی سے ،انہوں نے زہری سے،انہوں نے عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیرسے،انہوں نے اپنے والدسے روایت کیا،اورمعمر نے زہری سے،انہوں نے اعرج سے،انہوں نے ابوہریرہ سے روای۔۔۔
مزید
ابوالاشعث،ابن الدباغ اندلسی لکھتے ہیں،کہ بزار نے الملقین میں انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے،محمد بن اشعث نے اپنے والد سے،انہوں نے داداسے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،کہ تیل کی مالش سے سر کی خشکی دُور ہو جاتی ہے،لباس سے اقتصادی حالت کا اظہارہوتا ہے،اور خادم کے ساتھ حسنِ سلوک دشمن ذلیل ہوتا ہے۔ ۔۔۔
مزید