یہ نبو عبد الشمس کے حلیف تھے اور ایک روایت میں ان کا نام مدلاج بن عمر مذکور ہے، یہ حضور اکرم کے ساتھ تمام جنگوں میں شریک ہوئے اور ۵۰ ہجری میں وفات پائی۔ ابن کلبی لکھتا ہے کہ مالک، ثقف اور صفوان بنو عمر و جونبو حجر بن عباد بن یشکر بن عدوان سے تھے۔ سب غزوۂ بدر میں موجود تھے اور وہ بنو عدوان سے تھے۔ جو بنو غنم بن دو دان بن اسد سے تھے۔ اور اسی وجہ سے انہیں اور ان کے بھائیوں کو بنو عبد شمس کا حلیف شمار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ بنو غنم بن دودان بنو عبد شمس کے حلیف تھے اور یہ ان کے حلیف تھے۔ واللہ اعلم۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ابو عمر اور ابن مندہ نے انہیں سلمی، اسلمی یا اسدی شمار کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
ان کے مولی اسلم باقی موالی کی معیت میں حضور اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ مطر بن علاء الفزاری نے اپنی چچی آمنہ بنت ابی الشعشاء کی زبانی ابو سفیان مدلوک سے بیان کیا ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موالی کے ساتھ حاضر ہوئے۔ حضور نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعائے برکت فرمائی چنانچہ جہاں ان کے سر پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ رکھا تھا۔ وہاں بال عمر بھر سیاہ رہے اور باقی آہستہ آہستہ سفید ہوگئے۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
انہیں حضور اکرم کی صحبت نصیب ہوئی۔ وہ حضور کے ساتھ غزوہ دومتہ الجندل میں شریک تھے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ابوالقاسم نے اپنی تاریخ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس دومتہ الجندل پر چڑھائی نہیں کی تھی۔ بلکہ خالد بن ولید کی کمان میں لشکر روانہ فرمایا تھا۔ اکثر اس لشکر ہی کو دلیل مان لیا جاتا ہے۔ ۔۔۔
مزید
جعفر نے ان کا ذکر کیا ہے اور باسنادہ اعمش سے انہوں نے سلمہ بن کہیل سے انہوں نے عطا سے انہوں نے جابر سے روایت کی کہ ایک انصاری نے ایک قبطی غلام کو جو دبر کا باشندہ تھا، آزاد کیا یہ محتاج تھا اور مقروض تھا۔ غلام کا نام مذکور تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سو درہم سے خرید کر قیمت اسے دے دی اور فرمایا کہ یہ رقم لے لو اور قرض ادا کر کے باقی اپنے اہل خانہ پر خرچ کرو۔ ابو الزہیر نے جابر سے روایت کی ہے اور بتایا ہے کہ غلام کا نام یعقوب تھا، اور جس انصاری نے آزاد کیا تھا۔ اس کنیت ابو مذکور تھی۔ یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ ابو موسی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
ابو عمر کہتا ہے کہ ایک روایت میں ابن ربیعہ انصاری عمری مذکور ہے۔ جن کا تعلق بنو عمر و بن عوف سے تھا۔ ہشام بن کلبی کے مطابق ان کا سلسلۂ نسب مرارہ بن ربعی بن عدی بن زید بن عمرو بن زید بن جشم بن حارثہ بن حارث بن خزرج بن عمرو بن مالک بن اوس ہے یہ غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ یہ ان تین انصار میں سے تھے، جو غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ اور جن کے بارے میں قرآن کی آیت ’’وَعَلٰی الثَّلاثَۃ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا‘‘ نازل ہوئی تھی۔ ہمیں ابو عبد اللہ بن علی بن سعید نے باسنادہ ابو الحسن علی بن احمد الواحدی سے بتایا۔ انہیں احمد بن حسین حیری نے، انہیں حاجب بن احمد نے، انہیں محمد بن حماد نے انہیں ابو معاویہ نے، انہیں اعمش نے انہیں ابو سفیان نے انہیں جابر نے۔ ان تین انصار کے بارے میں بتایا کہ وہ کعب بن مالک، مرارہ ربیع اور ہلال بن امیّہ تھے۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
وہ زید بن مربع، عبد اللہ و عبد الرحمٰن کے بھائی تھے، انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی۔ ان کا والد مربع قیظی منافق تھا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد جاتے ہوئے اس کے احاطے میں داخل ہوئے تھے تو اس نے حضور سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہوتے تو میری اجازت بغیر میرے احاطے میں داخل نہ ہوتے۔ ابو عمر نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
یحییٰ بن یونس اور بغوی کے علاوہ بھی اور لوگوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ مجھے یہ اطلّاع موصول ہوئی ہے کہ سلیمان بن داؤد الشاذ کونی نے ابو قتیبہ سے انہوں نے معلی بن یزید سے انہوں نے بکر بن مرثد بن ربیعہ سے روایت کی کہ مَیں نے مرثد بن ربیعہ کو یہ کہتے سُنا کہ مَیں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ آیا گھوڑے پر زکوٰۃ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں، ہاں اگر بہ غرض تجارت ہو۔ ابو نعیم اور ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بغوی وغیرہ نے ان کا ذکر صحابہ میں کیا ہے۔ ان سے ان کے بیٹے عبد الرحمٰن نے روایت کی کہ میرے والد نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آلۂ تناسل کو چھونے کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا۔ تمہارے جسم کا ایک حصّہ ہے۔ یہ صاحب بصری تھے اور ان کی حدیث کا مخرج ان کے اہلِ خاندان تھے۔ ابو نعیم، ابو موسیٰ اور ابو عمر نے اِن کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
عسکری نے ان کا نسب بیان کیا ہے۔ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور غزوۂ حنین میں آپ کے ساتھ شریک تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنو بکر بن وائل کی طرف ایک خط لکھ کر دیا تھا۔ ہمیں عبد الوہاب بن ہبتہ اللہ نے باسنادہ عبد اللہ بن احمد سے روایت کی کہ مُجھ سے میرے باپ نے ان سے یونس اور حسین نے بیان کیا کہ مجھ سے سفیان نے ان سے قتادہ نے ان سے مضارب بن حزن العجلی نے بیان کیا، کہ ان کو مرثد بن ظبیان نے بتایا کہ ہمارے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موصول ہوا۔ ہمارے قبیلے میں کوئی پڑھنے والا نہ تھا۔ آخر بنو ضبیعہ کے ایک شخص نے پڑھا۔ مرقوم تھا: محمد رسول اللہ سے بکر بن وائل کے نام: اسلام لاؤ، اور محفوظ رہو، اور یہ لوگ بنوالکاتب کے نام سے مشہور تھے۔ ابن اسحاق نے یہ روایت قرہ بن خالد سے اس نے مضارب بن حزن سے بیان کی کہ مرثد بن ظبیان حضور اکرم کی خدمت میں ۔۔۔
مزید
یہ مسیب بن بخبہ بن ربیعہ بن ریاح بن ربیعہ بن عوف بن ہلال بن سحح بن فزارہ بن ذبیان الفزاری کے بھائی اور خالد بن ولید کے رفیق تھے۔ حیرہ کی جنگ اور فتح دمشق کے موقعہ پر موجود تھے۔ اور فصیل شہر پر مارے گئے تھے اور ایک دوسری روایت کے مطابق یہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے۔ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھے۔ ان کا ذکر حافظ ابو القاسم بن عساکر بن دمشق نے بھی کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید