بن عباد بن مطلب بن مناف بن قصی قرشی مطلبی: ان کی کنیت ابو عبادہ یا ابو عبد اللہ تھی۔ ان کی ماں کی کنیت ام مسطح تھی۔ اور ابو رہم بن مطلب بن عبد المناف کی دختر تھیں اور ام مسطح کی ماں کا نام رائطہ بنت صخر بن عامر بن کعب تھا اور حضرت ابو بکر صدیق کی خالہ تھیں۔ مسطح غزوۂ بدر میں موجود تھے اور واقعۂ افک کو خواہ مخواہ ہوا دی تھی۔ اور بطورِ سزا انہیں درے مارے گئے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی مالی امداد کرتے تھے۔ قسم کھائی کہ اب ان کی امداد نہیں کریں گے اس پر مندرجۂ ذیل آیت نازل ہوئی۔ ’’وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ‘‘ چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کا وظیفہ جاری کردیا۔ ایک روایت میں ہے کہ مسطح ان کا لقب تھا اور عوف نام اور بہن کا نام ہند تھا۔ مسطح نے ۶۵ برس کی عمر میں ۳۴ ہجری میں وفات پائی۔ ہم ان کا ذکر ان لوگوں میں بھی کر ۔۔۔
مزید
بن اسود البلوی: یہ بلی بن الحاف بن قضاعہ کی نسل سے تھے۔ ایک روایت میں ان کا نام مسعود بن مسور مذکور ہے۔ صلح حدیبیہ میں نیز بیعتِ رضوان میں موجود تھے۔ مصری شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے افریقہ میں غزا کی اجازت طلب کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ افریقہ دغا باز ہے اور آدمی اس سے دھوکہ کھاجاتا ہے۔ ان سے علی بن رباح وغیرہ نے مصریوں سے روایت کی اور ابن لہیعہ کے مطابق ان کی حدیث حارث بن یزید نے علی بن رباح سے اور انہوں نے مسعود بن مسور سے روایت کی۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی۔ اور بیعتِ رضوان میں موجود تھے۔ ابو عمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن اوس اصرم بن زید بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن بخار انصاری، خز رجی بخاری: یہی قول ہے ابن مندہ ابو نعیم، ابو عمر ابن اسحاق اور ابو معشر کا۔ ابو عمر نے اس میں تھوڑی سی تبدیلی کی ہے: مسعود بن اوس بن زید بن اصرم یہی قول ہے واقدی۔ ابن الکلبی اور ابن عمارۃ الانصاری کا: ان کی کنیت ابو محمد تھی۔ غزوۂ بدر میں شریک تھے، عبید اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابن اسحاق سے یہ سلسلۂ شرکائے بدر از بنو زید بن ثعلبہ، مسعود بن اوس کا ذکر کیا۔ یہ صاحب فتح مصر میں موجود تھے۔ یہ وہی صاحب ہیں، جو وتر کے وجوب کے قائل ہیں۔ اس کا ذکر عبادہ بن صامت سے کیا گیا۔ تو انہوں نے کہا ابو محمد نے غلط کہا ہے۔ وہ غزوۂ بدر کے بعد وقوع پذیر تمام غزوات میں شریک رہے اور حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں فوت ہوئے۔ ابن کلبی کی رائے ہے کہ وہ اس کے بعد بھی بہت عرصہ تک زندہ رہے۔ چنانچہ معرکۂ صفین میں حضرت ع۔۔۔
مزید
بن خراش: ان کے بھائی کا نام ربعی بن خراش تھا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ انہیں صحبت نصیب ہوئی، لیکن ابو حاتم رازی انکاری ہیں۔ جناب مسعود نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور طلحہ بن عبید اللہ سے روایت کی اور ان سے ان کے بھائی ربعی نے ابو بریدہ سے روایت کی۔ ابن مندہ اور ابو نعیم کا قول ہے کہ وہ زمانۂ جاہلیت کے آدمی ہیں اور انہیں صحبت میسر نہیں آئی۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن حکم بن ربیع بن عامر بن خالد بن عامر بن زریق الانصاری ازرقی: ان کی ماں حبیبہ بنتِ شریق بن حثمہ تھیں۔ جن کا تعلق بنو ہذیل سے تھا۔ جناب مسعود کی کنیت ابو ہارون تھی۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پیدا ہوئے، مدینے کے جلیل القدر کریم النفس لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور جلیل القدر تابعی تھے۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز جنازہ پڑھائی۔ پہلے کھڑے ہوئے اور پھر بیٹھ گئے۔ ان سے نافع بن جبیر بن مطعم، محمد بن المنکدر اور ابو الزناد نے روایت کی ہے۔ ابو عمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن خالد الخزاعی: ولید بن مسعود بن خالد نے اپنے باپ سے روایت کی کہ مَیں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری خریدی۔ مَیں کسی کام کے لیے باہر چلا گیا۔ جب واپس آیا تو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کا ایک ٹکڑا ہمارے یہاں بھیج دیا تھا۔ مَیں نے بیوی سے پوچھا تو اس نے صورتِ حال بیان کی۔ مَیں نے کہا کہ تو نے یہ گوشت کیوں پکا کر بچّوں کو نہیں کھلایا۔ اس نے کہا۔ وہ سب پیٹ بھر کر کھا چکے ہیں، حالانکہ اس سے پہلے وہ دو اور تین بکریاں بھی ذبح کرتے تھے۔ اور ان کو کفایت نہ کرتیں۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید
بن خالد الزرقی: ایک روایت میں مسعود بن سعد بن خالد آیا ہے اور موسی بن عقبہ نے ابنِ شہاب سے بنو خزرج کے قبیلے بنو زریق کے ان لوگوں کے سلسلے میں جو غزوۂ بدر میں موجود تھے، ان کا سلسلۂ نسب مسعود بن خالد عامر بن مخلد بن زریق بیان کیا ہے۔ عبد اللہ بن سمین نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابنِ اسحاق سے، ان لوگوں کے سلسلے میں جو قبیلہ زریق بن عامر سے غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، مسعود بن خالد بن عامر بن مخلد لکھا ہے۔ واقدی نے بھی ایسا ہی بیان کیا ہے اور جناب مسعود غزوۂ اُحد میں بھی شریک تھے۔ ابو عمر اور ابو نعیم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ہاں دونوں میں فریق یہ ہے کہ ابو عمر نے مسعود بن خلدہ لکھا ہے اور سلسلۂ نسب بہ طریق مذکورِ بالا بیان کیا ہے۔ ابو موسیٰ نے جعفر سے ان کا نسب بہ طریق ذیل بیان کیا ہے: ۔۔۔ مسعود بن خلدہ بن عامر حسب سابق۔ ان کی حدیث ان کے بیٹے عامر نے روایت کی ہے۔ پھر ۔۔۔
مزید
بن ربیعہ ایک روایت کے مطابق ان کا نسب یوں ہے: ابن الربیع بن عمرو بن سعد بن عبد العزی بن حمالہ بن غالب بن عائذہ بن نثیع بن ہون بن خزیمہ بن مدرکہ۔ یہ نسب ابو عمر کا بیان کردہ ہے، لیکن ابن مندہ اور ابو نعیم نے بطریق ذیل لکھا ہے: مسعود بن ربیعہ عمرو القاری۔ ابن الکلبی کہتا ہے: مسعود بن عامر بن ربیعہ بن عمیر بن سعد بن عبد العزی بن محلم بن غالب بن عائذہ بن نثیع بن ملیح بن ہون بن خزیمہ۔ اور قارہ ہون بن خزیمہ کا خاندانی لقب ہے۔ اور مسعود بنو زہرہ کا حلیف تھا اور مدینہ میں ان کے خاندان کو بنو القاری کہتےتھے۔ یہ صاحب قدیم الاسلام ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِ ارقم میں منتقل ہونے سے پہلے مسلمان ہو گئے تھے۔ مدینے کو ہجرت کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور عبید بن تیہان میں مواخات قائم کی تھی۔ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ ابو جعفر بن احمد نے باسن۔۔۔
مزید
بن زید بن سبیع: ان کی کنیت ابو محمد تھی۔ یہ وہ صاحب ہیں جن کے بارے میں ہم پیشتر لکھ آئے ہیں کہ وہ وتر کے وجوب کے قائل تھےاور جن کے بارے میں عبادہ نے کہا تھا کہ ان کا یہ خیال غلط ہے۔ یہ ابو جعفر کا قول ہے۔ موسی بن عقبہ نے امام زہری سے بہ روایت شرکائے بدر ان کا نام مسعود بن زید لکھا ہے اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے، لیکن جیسا کہ ہم مسعود بن اوس بن اصرم کے ترجمے میں لکھ آئے ہیں۔ وجوب وتر کے قائل مسعود بن اوس ہیں، نہ کہ مسعود بن زید۔ ابن مندہ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ اس پر ابو موسیٰ نے استدراک کیا ہے، میرے خیال میں ابو موسیٰ بھی یہی کہنا چاہتے ہیں، لیکن ان سے اوس بن اصرم کا نام رہ گیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے، اور نیز یہ کہ وہ شرکائے بدر سے تھے۔ واللہ اعلم۔ ۔۔۔
مزید
بن سعد بن قیس بن خلدہ بن عامر بن زریق الانصاری زرقی: غزوات بدر اور اُحد میں شریک تھے اور بئرمعونہ کے حادثے میں شہید ہوئے۔ ابو عمر نے واقدی سے روایت کی کہ بقول عبد اللہ بن محمد بن عمارہ وہ غزوۂ خیبر میں شہید ہوئے۔ ابو عمر نے ان کا دو بار تذکرہ کیا ہے۔ ایک میں انہوں نے حسبِ قولِ واقدی ان کی شہادت غزوۂ خیبر میں بیان کی ہے اور دوسرے میں سانحۂ بئر معونہ میں۔ ابو نعیم کا قول ہے، کہ ان کی شہادت خیبر میں ہوئی۔ ابو نعیم، ابو عمر اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔
مزید