یوسف قرہ صوی: نور الدین لقب تھا۔عالم فاضل،حق گو،متورع و متشرع تھے،علوم مولیٰ مصطفیٰ خواجہ زادہ اور سنان پاشا وغیرہ سے حاصل کیے اور مدارس بروسا واسکوب و اور نہ وقسطنطنیہ کے مدرس مقرر ہوئے اور سلطان سلیم نے آپ کو قضاء کا منصب عطا فرمایا۔فقہ میں ایک کتاب مرتضیٰ نام تصنیف کی جس میں مختار مسائل کو جمع کیا اور بقول مختار ۹۷۲ھ میں وفات پائی۔’’زینتِ شہر‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
فضل اللہ بن حسین[1]تورپشتی: شہاب الدین لقب تھا،اپنے زمانہ کے امام محقق،شیخ مدقق محدث ثقہ،فقیہ جید صاحب تصانیف کثیرہ تھے،بغوی کی مصابیح الستہ کی مسمّٰی بالبسر نہایت عمدہ شرح تصنیف کی اور کتاب مطلب الناسک فی علم المناسک چالیس باب میں تصنیف فرمائی۔آپ کی تاریخ وفات’’محدث زیب ملک‘‘ ہے۔ 1۔ ابو عبداللہ فضل الہ بن حسن بن حسین تور پشتی’’دستور الاعلام‘‘بدیۃ العارفین’’(مرتب)‘‘ حدائق الحنفیہ۔۔۔
مزید
مولی محمد بن محمد الشہیر بہ عرب زادہ رومی: اپنے زمانہ کے علمائے فحول اور اکابر دہر میں سے صاحب تحقیق و تدقیق تھے،پہلے شہر بروسا پھر مدرسہ محمود پاشا واقعہ قسطنطنیہ پھر آٹھ مدارس میں سے ایک کے پھر مدرسہ سلیمانیہ میں مدرس مقرر ہوئے اخیر کو قاہرہ کی قضاء آپ کے سپرد ہوئی اور پچاس سال کی عمر میں ۹۶۹ھ میں آپ بحالت طغنای دریاکشتی میں سوار ہوئے کہ کی ا یک کشتی ٹوٹ گئی اور آپ شہید ہوگئے۔’’شیخ جہاں‘‘ تاریخ وفات ہے۔آپ کی تصنیفات سے شح وقایہ و ہدایہ اور ہدایہ کی شرح عنایہ اور فتح القدیر اور سید کی شرح مفتاح اور مطول وغیرہ پر حواشی یادگار ہیں۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
میر سید عبدالاول بن علاء حسینی: فقیہ محدث،جامع علوم عقلی ونقلی اور فنون ظاہری اور باطنی تھے آباء واجداد آپ کے قصبۂ زید پور علاقہ جونپور کے رہنے والے تھے جو ولایت دکن میں جاکر سکونت پذیر ہوئے اور آپ وہیں پیدا ہوئے اور وہاں کے علماء و فضلاء سے تحصیل علوم کر کے فضیلت و کمالیت کو پہنچے اور علم باطن میں سید محمد گیسودراز کی بعض اولاد کے،جو دکن میں تھے،مرید ہوئے،آخر حال گجرات میں تشریف لائے اور گجرات سے حرمین شریفین کی زیارت کو نہضت فرماہوئے اور حج کر کے پھر احمد آباد میں واپس آئے نہایت معمر ومسن تھے،اخیر عمر میں غربت اور انکسار آپ کے حال پر ایسا غالب آیا جس سے آپ کو علوم رسمیہ سے بالکل ذہول ہوگیا اور خان خاناں محمد بیرم خان شہید کی استدعا سے جو علماء و فضلاء کا محب اور غرباء فقراء کا بڑا مربی تھا،دہلی کو تشریف لے گئے جہاں۔۔۔
مزید
محمد بن یحییٰ حلبی تاذقی: علامۂ عصر،فرید دہر،جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، حاویٔ معالم فروعیہ واصولیہ تھے،بعد تکمیل کے منشیر علوم اور تدریس میں مشغول رہے اور کتاب قول المہذب فی بیان مافی القرآن من الرومن المعرب تسنیف فرمائی۔ وفات آپ کی ۹۶۳ھ میں ہوئی۔’’مفرت تکوین‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
عبدالقادر المشہور بہ قادری چلپی: بڑے عالم فاضل،صاحب ذکاء و فطنت تھے۔علم حمیدی اور رکن الدین زیرک محمد سے پڑھا اور انہیں سے فضیلت و کمالیت کا رتبہ حاصل کیا۔پہلے آپ کو سلطان سلیمان خاں نے معلم مقرر کیا پھر اناطولی میں عسکر کی قضاء کا عہدہ دیا اور ۹۵۹ھ میں آپ نے وفات پائی۔’’فخر عہد‘‘ تاریخ وفات ہے۔تعلیقات اور رسائل بھی آپ نے تصنیف کیے تھے مگر وہ یہ سبب آپ کی سوء مزاجی اور اخیر عمر میں مخبوط العقل ہوجانے کے شائع نہ ہوسکے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
محمد بن علاء الدین علی جمالی: محی الدین لقب تھا۔بڑے عالم فاضل،جامع معقول و منقول تھے علوم اپنے نانا حسام زادہ سے پڑھے اور نیز موید زادہ سے تلمذ کیا اور آتھ مدارس میں سے ایک کے مدرس ہوئے اور ۹۵۷ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مولانا میر رضی الدین: کاشمیر کے علماء سے فاضل کامل اور متجر بے[1] بدل تھے۔اوائل زمانہ تسلّط میراز حیدر میں قطب پورہ میں مدرس مقرر ہوئے جہاں بابا داؤد خاکی اور مولانا شمس الدین پال خواجہ نصیر سے بسبب تہمت تشیع کے ناراض ہوکر تعلیم کے لیے آتے تھے۔میر صاحب اکثر علوم میں تصنیفات رکھتے ہیں۔ آپ کی دختر نیک اختر مولانا مفتی فیروز کے عقد میں تھی۔وفات آپ کی ۹۵۶ھ میں ہوئی۔ 1۔ خوشخطی میں کمال حاصل تھا۔سات قسم کے خط لکھ سکتے تھے۔’’نزہت الخواطر‘‘(مرتب) (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید