/ Monday, 29 April,2024

حضرت سید کامل شاہ قادری لاہوری

حضرت سید کامل شاہ قادری لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بعہدِ اکبر بخارا سے لاہور آئے اور موضع بابو صابو میں سکونت اختیار کی۔ علومِ ظاہری و باطنی میں ممتاز تھے۔ عبادت و مجاہدہ، زہد، و ورع، اور شجاعت و توکل میں راسخ القدم تھے۔ طریقۂ قادریہ و مداریہ میں شیخ الہ داد مداری کے مرید و خلیفہ تھے۔ لوگوں میں دیوانِ کامل مشہور تھے۔ ۱۰۰۵ھ میں وفات پائی۔ مزار متصل موضع بابو سابو ہے۔ آپ  کے مرید عبدالرحیم نامی نے آپ کے مزار پر گنبد تعمیر کرنا چاہا۔ مگر آپ نے خواب میں آکر منع فرمایا کہ مجھے پسند ہے کہ میرا مزار کچا رہے۔قطعۂ تاریخِ وفات: جناب شیخِ کامل صدر دیواںندا شد بہرِ سال انتقالشبعلمِ عشق کامل قطبِ عالمکہ ’’شاہنشاہِ کامل قطبِ عالم‘‘۱۰۰۵ھ۔۔۔

مزید

حضرت خواجا بہاری الباری

حضرت میاں میر جلیل القدر مرید و خلیفہ تھے۔ فقہ، حدیث اور تفسیرِ قرآن کے جیّد عالم ہونے کے علاوہ واقفِ اسرارِ ربانی بھی تھے۔ شہر حاجی پورہ میں مقیم تھے جو قصبہ گواپور(بہار) میں واقع تھا۔ آپ چھوٹی عمر ہی میں علم حاصل کرنے کے لیے اپنے وطن سے نکلے۔ کچھ مدت تک قصبہ کورا میں شیخ جمال اولیاء کے پاس رہے، ان سے فیض حاصل کر کے لاہور آئے اور ملّا فضل لاہوری سے علومِ ظاہری کی تکمیل کی۔ ملّا اپنے ہو نہار شاگرد سے اس قدر خوش تھے کہ انہیں اپنے گھر ہی میں رہنے کی اجازت دے دی۔ ان ایّام میں حضرت شیخ میاں میر کا باطنی فیض عام تھا۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علومِ باطنی کی تکمیل کی۔ وفاتِ مرشد کے بعد مرجع خلائق تھے۔ آپ نے تمام عمر ہدایتِ خلق اور درس و تدریس میں گزاری۔ آپ کامدرسہ دہلی دروازے کے اندر واقع تھا۔ جو بہت مشہور تھا۔ نواب سعداللہ خاں اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے۔ کسبِ علوم کے لیے دور دور سے طلب۔۔۔

مزید

شیخ احمد بیگ قادری نوشاہی

حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے اکابر خلفأ سے تھے۔ بارگاہِ مرشد سے نور محمّد نوری کے خطاب[1] سے ممتاز تھے۔ پہلے علم ظاہری میں حضرت نوشاہ عالی جاہ کے شاگرد تھے بعد ازاں مرید ہوکر کمال کو پہنچے۔ بڑے بذرگ، صاحبِ علم و عمل اور زاہد و عابد تھے۔ نقل ہے ایک روز موضع نوشہرہ کا یک معلّم بلاول نام حضرت نوشہ گنج بخش کی خدمت میں حاضر ہوا اور نذرانہ دیا اور عرض کیا کہ حضرت توجہ فرمایئے اور دُعا کیجئے کہ میری حالت شیخ احمد بیگ کی سی ہوجائے۔ آپ نے متبسّم ہو کر فرمایا: ہر ایک کو مرتبہ اس کے حوصلے اور ظرف کے مطابق دیا جاتا ہے، تو اچھا اگر تیری یہی مرضی ہے تو ایسا ہی ہوجائے گا۔ معلّم اسی وقت بے ہوش ہوکر گِر پڑا اور تڑپنے لگا۔ حتیٰ کہ تڑپتے تڑپتے مکان کی ایک منزل سے نیچے صحن میں آگِرا اور کئی روز کے بعد ہوش میں آیا۔ اس پر ایسی حالت وارد ہوئی کہ اپنے گھر میں بیٹھا ہوتا یک لخت انتہائے اضطراب و بے چینی میں اُٹھ۔۔۔

مزید

حضرت سید جان محمد حضوری

جان محمد اسم گرامی، حضور خطاب، والد ماجد کا نام شاہ نوربن سیّد محمود حضوری تھا، جن کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے۔ آبائی سلسلہ حضرت موسیٰ کاظم امام جعفر صادق﷜ اور سلسلۂ بیعت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم تک منتہی ہوتا ہے۔ تربیت و تکمیل اپنے پدرِ بزرگوار اور جدِ امجد کے زیرِ سایہ پائی۔ سلسلۂ قادریہ میں بھی اُنہی کے مرید و خلیفہ تھے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہُوئے۔ اپنے وقت کے عارفِ کامل اور مقتدائے شریعت و طریقت تھے۔ تمام عمر درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں گزاری۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کے ظاہری و باطنی عُلوم سے اکتسابِ فیض کیا۔ آپ کے حلقۂ ارادت میں جو داخل ہو جاتا تھا وُہ جلد اوجِ طریقت پر پہنچ کر حضوری ہو جاتا تھا اس لیے حضوری مشہور ہوئے ۶۵۔۱۰۶۴ھ میں بہ عہد شاہ جہان وفات پائی۔ سیّد محمد لطیف مرحوم نے اپنی کتاب تاریخ لاہور صفحہ ۱۷۱ میں آپ کی تاریخِ وفات ۱۱۲۰ھ اُس کتبہ سے نقل کر کے ۔۔۔

مزید

شیخ جان محمد قادری لاہوری

شیخ مصاحب خاں خرد لاہوری قادری کے باکمال اور صاحبِ کرامت مرید و خلیفہ تھے۔ علم و عمل اور ہدایت و تلقین میں ممتاز الوقت تھے۔ وفاتِ مرشد کے بعد سجادہ نشین ہُوئے اور تادمِ زیست عوام و خواص کی تہذیب و تکمیل میں مصروف رہے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور سکّھوں کی لُوٹ مار کے باعث پنجاب میں ہر طرف بے چینی و بد امنی پھیلی ہُوئی تھی مضافاتِ لاہور کی آبادیاں افغانی لشکر کی غارت گری اور سکّھوں کی تخت و تاراج کی وجہ سے ویران ہورہی تھیں۔ اکثر و بیشتر آبادیاں نقلِ مکانی کر گئی تھیں۔ گرد و نواح کے لوگ آپ کے پاس آئے، طالبِ دعائے اور بچاؤ کی تدبیر کی درخواست کی۔ فرمایا: میر اعصا لے جاؤ اور اپنے گاؤں کے گرد اس سے خط کھینچ دو، اِن شاء اللہ محفوظ رہو گے چنانچہ آپ کی دُعا اور توجّہ سے ایسا ہی ہوا۔ ۱۲۰۶ھ میں وفات پائی۔ مزار موضع بابک وال میں ہے۔ ز دنیا شد چو در خلدِ معلّٰی وصالِ او ز ’’شیخِ رہنما۔۔۔

مزید

قاطع نجدیت مولانا محمد حسن علی رضوی

بانی انوارِ رضا اہلسنت میلسی، پاکستان ولادت قاطع کفر و بدعت حضرت مولانا محمد حسن علی رضوی کی ولادت تقسیم ہند اور قیام پاکستان سےکچھ پیشتر ہریانہ شہر ہانسی شریف ضلع حصار نبالہ ڈویژن میں ہوئی۔ جو دہلی سے ۸۰ میل جانب مغرب میں روہتک سے کچھ آگے ہے۔ جہاں تارا گڑھ اجمیر مقدس کے بعد پر تھوی راج کا دوسرا بڑا قلعہ تھا۔جس کو سلطان اسلام شہاب الدین محمد غوری نے فتح کیا تھا۔ یہ شہر اولیاء اللہ کا مرکز و مسکن رہا ہے۔ حضرت باب فرید گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خواجہ مسعود علیہ الرحمۃ یہاں بارہ سال رونق افروز رہے۔ قلعہ پر حضرت میراں نعمت اللہ ولی شہید رضی اللہ عنہ کا مزار ہے۔ اور شہر ہانسی کے مغرب میں شمالی ہند کی عظیم درساہ چار قطب آستانہ خواجہ قطب جمال ہے۔ جو حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے اولین و محبوب ترین خلیفہ و مجاز مہر ولایت تھے۔ پاکستان آمد ۔۔۔

مزید

حضرت مولانا سید عبد الرشید عظیم آبادی

حضرت مولانا سید عبد الرشید عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ علیہ اسمِ گرامی: آپ کا اسمِ گرامی سید عبد الرشید  تھا۔ تحصیلِ علم: سید عبد الرشید عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ علیہ نے منظر الاسلام بریلی میں حضرت مولانا سید بشیر احمد علی گڑھی، استاذ العلماء مولانا ظہور الحسین فاروقی رام پوری اور مجدد مأتہ اربع عشرہ امامِ اہلسنت ،حضرت علامہ مولاناالشاہ احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہم سے درسیات کی تکمیل کی۔ سیرت وخصائص:   حضرت مولانا سید عبد الرشید عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ علیہ عالمِ شریعت وطریقت و حقیقت تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دینی خدمت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذاتی مسائل کو بھی حل فرمایا۔ اہلسنت کا درد ہر وقت آپ کے سینے میں رہتا،  دیوبندیت اور وہابیت کی طرف سے جب بھی کوئی نیا وباطل نظریہ سامنے آتا آپ بہت افسردہ  ہوجاتے۔ حتٰی کہ ایک مرتبہ زمانہ طالبِ علمی میں آپ ن۔۔۔

مزید

حضرت علامہ مولانا حکیم عزیز غوث بریلوی

حضرت علامہ مولانا حکیم عزیز غوث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نام ونسب:  آپ علیہ الرحمہ  کا اسمِ گرامی حکیم عزیزغوث بریلوی بن شاہ فضل غوث  بریلوی بن شاہ آل احمد اچھے میاں ہے۔(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم) آپ کا سلسلہ ٔ نسب چند واسطوں سے امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ تحصیلِ علم : آپ نے تمام مروجہ علوم اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں رہ کر حاصل کئے۔حکیم عزیز غوث صاحب اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ بیعت وخلافت: تحصیلِ علم کے ساتھ ساتھ آپ نے اعلیٰ حضرت سے ہی بیعت کی اور خلافت واجازت بھی عطا فرمائی۔ سیرت وخصائص:حضرت مولانا حکیم عزیز غوث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ  جامع کمالات ظاہری وباطنی، متقی، متورع اور جوادو سخی تھے۔آپ نے اپنے استادِ محترم اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کو اپنایا۔ جس طرح آپ کے ش۔۔۔

مزید

شیخ رحیم داد قادری

شاہ سلیمان قادری کے فرزند اکبر اور سجادہ نشین تھے۔ حضرت نوشاہ گنج بخش سے بھی اکتسابِ فیض کیا تھا اور ترتیب و تکمیل پائی۔ متوکل صاحب علم و فضل اور جامع اوصافِ کمالاتِ ظاہری و باطنی تھے۔ استفراق بحدِ کمال تھا۔ بڑے سادہ مزاج اور سادہ لباس تھے۔ صرف ایک تہبند، ایک چادر اورسفید پگڑی زیبِ تن ہوتی تھی، جن کی قیمت دو روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ اپنی محنت و کاشت سے رزقِ حلال حاصل کرتے تھے۔ نقل ہے ایک دفعہ اپنے پوتے محمد شفیع کو خربوزوں کے کھیت کی نگہبانی کے لیے حکم دیا۔ ایک روز یہ کھیت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک سپاہی نے آکر خربوزہ لینا چاہا۔ انہوں نے منع کیا سپاہی نے صاحبزادہ کے مُنہ پر تھپّڑ مارا اور خربوزہ لے کر چلتا بنا۔ صاحبزادہ نے آکر دادا سے شکایت کی۔ فرمایا: صبر کرو، وُہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔ چنانچہ اسی رات اس سپاہی پر حالتِ زندگی دیوانگی طاری ہوگئی۔ دیوانوں کی طرح ہر شخص کے پاس جاتا اور ۔۔۔

مزید

شیخ خوشی محمد قادری نوشاہی

حضرت حاجی محمد نوشاہی گنج بخش کے پاک اعتقاد مریدوں اور حق یاد خلیفوں میں سے تھے۔ بارگاہِ مرشد میں بے تکلّفانہ گفتگو کیا کرتے تھے۔ جس وقت حضرت حاجی نوشہ صاحب پر حالتِ جزب و استغراق طاری ہوتی تھی۔ آپ ہی حاضرِ خدمت ہوکر انہیں اپنی بذلہ سنجی سے خوش کیا کرتے تھے۔ خوارق و کرامات آپ سے ظہور میں آتے تھے۔ فقیروں اور عالموں سے بے شمار لوگ آپ کے معتقد تھے۔ شاعر بھی تھے۔ چنانچہ فارسی، ہندی اور پنجابی میں بکثرت اشعار کہے ہیں۔ ۱۱۲۷ھ میں وفات پائی۔ چوں از دنیا بفردوس بریں رفت عجب سالِ وصالش جلوہ گرشد   جناب شیخِ حق آگاہ خوش حال ز ’’اہل ولی اللہ خوش حال‘‘[1] ۱۱۲۷ھ   [1]۔ شیخ خوشی محمد کا سالِ وفات صحیح ۱۰۸۸ھ ہے۔ (شریف التواریخ جلد سوم، حصّہ اوّل موسوم بہ تحائف الاطہار قلمی ص ۱۵۲ از سیّد شرافت نوشاہی)۔۔۔۔

مزید