/ Monday, 29 April,2024

شیخ محمد تقی قادری نوشاہی

حضرت حاجی محمد نوشاہ ہی گنج بخش کے باصفا مریدوں اور باوفا معتقدوں سے تھے۔ اپنے مرشد صاحب کے عشق میں درجہ فنا فی اشیخ رکھتے تھے۔ آغازِ جوانی ہی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے تھے۔ مرشد ہی کی زیرِ نگرانی تعلیم و تربیت پائی تھی اور مقبولِ درگاہِ شیخ ہوئے۔ آپ پر اکثر و بیشتر حالتِ جزب و سُکر طاری رہا کرتی تھی۔ نقل ہے: ایک دفعہ بے خودی کا یہ عالم تھا کہ عیدِ قربان کے دن پُوچھا: آج کون سا دن ہے کہ لوگ اس قدر گوسفند ذبح کر رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا: آج عیدِ قرباں کا دن ہے لوگ راہِ خدا میں وربانی دے رہے ہیں۔ آپ بھی اٹھئے اور قربانی دیجئے۔ کہا: میرے پاس تو اپنی جان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چھری لاکر اپنے حلق پر پھیرنی شروع کردی۔ ابھی شہ رگ نہیں کٹی تھی کہ لوگوں نے آکر ہاتھ پکڑلیا اور اسی حالت میں مرشد کے پاس لے آئے۔ آپ انہیں دیکھا کر بڑے خوش ہوئے اور بڑی تحسین و آفرین کہی اور اِن کے حق میں دعائے خیر کہی ۔۔۔

مزید

شاہ فرید قادری نوشاہی لاہوری

والد کا نام سیّد محمد علی بن سید علی بن سید فتح علی تھا۔ ساداتِ حسینی بھاکری سے تھے۔ دریائے[1] چناب کے کنارے پر رسول نگر میں سکونت رکھتے تھے۔ حضرت پیر محمد سچیار قادری نوشاہی﷫  کے نامور مرید و خلیفہ تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں باکمال تھے۔ طبع عالی پر جذب و استغراق کا غلبہ رہتا تھا۔ ذوقِ وجد و سماع بھی تھا۔ تکمیلِ سلوک کے بعد مرشد نے خرقۂ خلافت سے نوازا اور لاہور میں رہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ لاہور آکر قیام پذیر ہوگئے۔ اپنے نام پر کوئلہ شاہ فرید آباد کیا۔ تمام عمر درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ بقول صاحبِ تذکرہ[2] نوشاہی ۱۱۵۸ھ میں وفات پائی۔ مزار لاہور میں ہے۔ چوں فریدِ زمانہ سیّدِ دیں! رحلتش ’’والئ خلافت‘‘ داں ۱۱۵۸ھ   فرد و یکتا بباغِ خلد رسید ہم بخواں ’’آفتابِ فقر فرید‘‘! ۱۱۵۸ھ   [1]۔ دریائے چناب کے کن۔۔۔

مزید

شیخ فتح محمّد قادری نوشاہی

حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے مرید تھے۔ آپ کے ہدایت یافتہ ہونے کا واقعہ اس طرح پر ہے کہ حضرت نوشاہ نے انہیں خواب میں آکر تعارف کرایا اور ارشاد کیا کہ تمہارا حصّہ ہمارے پاس ہے ساہن پال آکر لے لو۔ اس نے کچھ تغافل شعاری سے کام لیا۔ جب دوسری تیسری مرتبہ آپ نے پھر خواب میں آکر انہیں متنبّہ کیا تو یہ فوراً روانہ ہوگئے۔ جب بمقام ساہنپال پہنچے تو دیکھا کہ سامنے سے ایک جنازہ آرہا ہے اور ایک جمِ غفیر اس کے ساتھ ہے۔ یہ بھی ازرہِ ثواب جنازہ کے ساتھ ہولیے۔ نمازِ جنازہ کے بعد جب لوگوں نے آخری زیارت کے لیے متوفیٰ کا مُنہ کھولا تو یہ بھی وہاں پہنچے۔ دیکھتے ہی پہچان گئے کہ یہ وہی بزرگ ہیں جو مجھے خواب میں آکر حصّۂِ باطنی کے لے لینے کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ آپ کا نام پوچھا۔ لوگوں نے حاجی محمد نوشاہ گنج بخش بتایا۔ سُنتے ہی بیہوش ہوکر زمین پر گِر پڑے اور ایک طویل عرصے کے بعد ہوش میں آئے۔ جب ہوش میں آئے تو مست۔۔۔

مزید

شاہ سردار قادری

مصاحب خاں کلاں قادری کے مرید و خلیفہ تھے جنہوں نے حضرت شاہ میر سجادہ نشین حجرہ سے ظاہری و باطنی فیض پایا تھا۔ اپنے عہد کے جیّد عالم اور صوفئِ کامل تھے۔ علومِ تفسیر و حدیث و فقہ میں لاثانی تھے۔ موضع بابک وال جو لاہور شہر سے تقریباً چھ سات میل کے فاصلے پر ہے سکونت رکھتے تھے۔ یہیں تمام عمر درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملوں میں جب افغانی لشکر نے لاہور کے گرد و نواح میں تخت و تاراج کا سلسلہ شروع کیا تو مضافات کے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: دعا فرمایئے کہ ہم افغانی غارت گری سےمحفوظ و مامون رہیں۔ آپ نے اپنا خرقہ اتار کر اُنہیں دیا اور فرمایا: اسے اپنے اپنے گاؤں کے گرد پھرائیں۔ چنانچہ جن جن گاؤں والوں نے آپ کے ارشاد کے مطابق عمل کیا وہ ہر طرح سے امن و امان میں رہے۔ ۱۱۸۴ھ میں وفات پائی۔ مزار بابک وال میں زیارت گاہِ خلق ہے۔ شاہ سردار آں ولئِ متقی! گ۔۔۔

مزید

شاہ سردار قادری

شیخ جان محمد قادری لاہوری ﷫ کے نامور مرید و خلیفہ تھے۔ بڑے بزرگ اور عابد و زاہد تھے۔ عبادت و ریاضت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ قوم کے افغان تھے۔ کابل وطن تھا۔ وہیں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیّت بھی کابل ہی میں پائی۔ سنِ رشد کو پہنچے تو تلاشِ حق میں نکلے۔ کئی ایک مشائخ کی خدمت میں رہے۔ آخر لاہور آئے اور موضع بابک وال پہنچ کر شیخ جان محمد کی خدمت میں شرف یاب ہوئے اور مرشد کے زیرِ سایہ علومِ ظاہری و باطنی کی تکمیل کی۔ تمام عمر درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ محنت و مزدوری سے رزقِ حلال حاصل کرتے تھے۔ چنانچہ شاہد رہ کی منڈی سے گندم اٹھا کر لاتے اورلاہور کی منڈی میں فروخت کرتے۔ نقد و جنس سے جو مزدوری میں ملتا اُس میں سے اپنا حصّہ نکال کر باقی فقراء میں تقسیم کردیتے۔ آج کی کمائی سے کل کے لیے باقی نہ رکھتے تھے۔ زندگی کا زیادہ عرصہ شاہد رہ رہ میں گزارا۔ نقل ہے ایک روز سیّد قطب الدین ب۔۔۔

مزید

حضرت شاہ سلیمان قادری

آپ حضرت شاہ معروف چشتی قادری﷫(خوشابی) کے کاملین خلیفوں اور اکابر سجادہ نشینوں سے تھے۔ جذب، عشق و محبت، سکر، حالت اور خوارق و کرامت میں بلند مقام اور اعلیٰ مرتبہ رکھتے تھے۔ چار سال کی عمر میں حضرت شاہ معروف چشتی﷫ کی نظر مبارک میں منظور ہوئے اور آپ پر سکر اور جذب کی حالت غالب ہوگئی۔ آپ﷫ کے والد صاحب میاں[1] منگو موضع بھلوال[2] میں سکونت رکھتے تھے۔ ایک بار حضرت شاہ معروف﷫ اس گاؤں میں تشریف لائے اور میاں منگو کے گھر میں رات رہے۔ تمام رات وُہ اُن کی خدمت میں حاضر رہے۔ اُس وقت شاہ سلیمان ابھی خوردسال تھے۔ اپنے گھر کے صحن میں کھیل رہے تھے۔ جب شاہ معروف﷫ کی نظر شاہ سلیمان کے جمالِ باکمال پر پڑی تو نہایت شفقت سے آپ کے چہرہ پر ہاتھ پھیرا اور آپ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور میاں منگو کو فرمایا کہ یہ لڑکا ہماری امانت ہے اور یہ ایسا کامل مرد ہوگا کہ جہان اس کے فیض سے بہرہ ور ہوگا۔ جب شاہ معروف﷫ رخصت ہو کر۔۔۔

مزید

شیخ عبد الرحمان قادری نوشاہی

حضرت حاجی محمّد نوشاہ گنج بخش ﷫ کے کبار خلیفوں سے تھے۔ آپ کی ذات پر مرشد کی توجہ و التفات بے حد و نہایت تھی جیسی کسی دوسرے خلیفے کے حال پر نہ تھی۔ یہی سبب تھا کہ آپ عرفان و حقیقت شناسی کے مقامِ اعلیٰ پر فائز ہُوئے۔ مرشد کو آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے مریدوں کو تہذیب و تکمیل کے لیے آپ کے سپرد کردیتے تھے اور یہ سلسلہ حضرت نوشاہ گنج بخش کی وفات کے بعد بھی جاری رہا کہ حضرت نوشاہ عالی جاہ کے بہت سارے خلیفے شیخ عبدالرحمٰان کی خدمت سے تکمیل کو پہنچے۔ حتّٰی کہ مولانا حافظ برخوردار کے فرزندوں اور حضرت نوشاہ کے پوتوں نے بھی آپ ہی کی زیرِ نگرانی تربیّت و تکمیل پائی۔ جو شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا، ناکام نہیں رہتا تھا۔ کمالِ علم و فضل کے ساتھ آپ پر غلبۂ صمدیت بھی بے انتہا تھا۔ کئی کئی روز بغیر کھائے پیے گزر جاتے تھے۔ صاحبِ تذکرۂ نوشاہی لکھتے ہیں کہ ایک روز میں نے حاضرِ خدمت ہوکر طعام نہ کھانے کی ۔۔۔

مزید

شاہ عنایت قادری شطاری لاہوری

والد کا نام پیر محمد تھا۔ قوم کے باغبان تھے۔ لاہور سے نقلِ مکانی کر کے قصور جارہے تھے شاہ عنایت بھی قصور ہی پیدا ہوئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم و تربیت پائی۔ قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر تکمیلِ علوم کے لیے قصور سے نکلے۔ لاہور پہنچ کر حضرت شاہ محمد رضا قادری شطاری لاہوری﷫  کے حلقۂ درس میں شامل ہُوئے۔ استاد کی زبردست شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہی کے ہاتھ پر سلسلۂ قادریہ کی بیعت کر کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے اور خدمتِ مرشد میں حاضر رہ کر تکمیلِ سلوک کی اور خرقۂ خلافت سے سرفراز ہوئے۔ پھر مرشد کے حکم کے مطابق قصور آکر ہدایتِ خلق میں مصروف ہوگئے۔ حلقۂ درس بڑا وسیع تھا۔ قرآن و تفسیر، حدیث و فقہ کا درس دیا کرتے تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے استفادہ کیا۔ مرجع خلائق ہونے کے باعث حسین خاں افغان حاکمِ قصور کو آپ کی شہرت و مقبولیت ایک آنکھ نہ بھائی۔ چنانچہ آپ کو قصور سے نکل ج۔۔۔

مزید

مولانا حافظ معموری قادری نوشاہی

مشائخ نوشاہیہ قادریہ میں اپنے فضل و کمال کے باعث بڑے عظیم المرتبت بزرگ گزرے ہیں۔ آپ نہایت بزرگ اور عابد و زاہد صاحبِ شوق تھے۔ ذوقِ وجد و سماع سے بھی معمور تھے۔ حضرت نوشہ گنج بخش صاحب﷫  کے مرید و خلیفہ اور داماد تھے۔ حضرت نوشہ صاحب کی دختر حضرت سائرہ ان کے نکاح میں تھیں۔ آپ کے چار فرزند تھے: ایک شیخ تاج الدین جواہل معرفت کے سر کے تاج تھے اور باطنی فیض شیخ نور محمد﷫  سے پایا۔ خواب میں حضرت ابو بکر صدیق﷜ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ دو دم شیخ ہدایت اللہ صوفی۔ سوم شیخ نظام الدین۔ چہارم شیخ امام الدین[1] جو قلندر مشرب اور آزاد منش تھے۔ ہمیشہ مثنوی مولانا روم کا مطالعہ رکھتے۔ شیخ معموری کی وفات ۱۱۴۵ھ میں ہوئی۔ درجناں شد از جہاں باصد صفا ظاہر از ’’مظہر‘‘ شدہ تاریخِ او ۱۱۴۵ھ   شیخِ معموری چو آں شیخِ زماں ’’مجتبیٰ مخدوم‘‘ ہم آمد عیاں[۔۔۔

مزید

مولانا قازی رکن الدین قادری نوشاہی

آپ حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے ہمدم یاروں اور محرم راز دوستوں اور مشہور خلیفوں سے تھے قاضی صاحب پہلے قصبۂ وزیرآباد میں عہدۂ قضا پر مامور تھے۔ پھر ترکِ علائق کر کے حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش﷫  کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے اور خدمتِ مرشد میں حاضر رہ کر سلسلۂ قادریہ نوشاہیہ میں تکمیل پاکر خرقۂ خلافت سے سرفراز ہُوئے۔ اپنے علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں شہرۂ آفاق تھے۔ صاحبِ ذوق و شوق اور عشق و محبّت اور وجد و تواجد ہوگئے۔ مرشد کی وفات کے بعد تادمِ حیات ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ آپ کی وفات ۱۱۵۲ھ میں ہُوئی۔ رفت از دہر چوں بہ خلدِ بریں! سالِ تاریخِ ارتحالِ او!!   رکنِ دیں صاحبِ یقیں قاضی ہست ’’مصباح اہلِ دیں قاضی‘‘[1] ۱۱۵۲ھ   [1]۔ قاضی رضی الدین کا صحیح سالِ وفات ۱۱۱۳ھ ہے (شریف التواریخ جلد سوم اول تحالیف الاطہار ص ۱۸۰)۔۔۔۔

مزید