/ Thursday, 16 May,2024

(سیّدہ )فاطمہ( رضی اللہ عنہا)

فاطمہ دختر عمرو بن حرام،جابر بن عبداللہ کی پھوپھی تھیں،ابوالفضل عبداللہ بن احمد نے باسنادہ ابوداؤد طیالسی سے،انہوں نے شعبہ سے،انہوں نے محمد بن منکدر سے،انہوں نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی کہ جب میرا والد قتل ہوگیا،تو میں ان کے چہرے سے کپڑااٹھاتاتھااور لوگ مجھے ایسا کرنے سےمنع کرتے تھے،مگر حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار بھی منع نہ فرمایا،ہاں میری پھوپھی بھائی کی موت پر روئے جارہی تھی حضور نے اسے مخاطب ہو کر فرمایا،تو روئے یا نہ روئے، فرشتے ا س پر اپنے پر پھیلائے رکھیں گے،ابن مندہ اور ابونعیم نے ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔

مزید

(سیّدہ )فاطمہ( رضی اللہ عنہا)

فاطمہ دختر مجلل بن عبداللہ بن قیس بن عبدود بن نصر بن مالک بن جسل بن عامر بن لوئی قرشیہ عامریہ کنیت ام جمیل تھی،آغاز بعث میں اسلام قبول کیا،اور حبشہ کو ہجرت کی۔ ابو جعفر نے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابنِ اسحاق سے بہ سلسلۂ مہاجرین حبشہ،حاطب بن حارث بن مغیرہ اور ان کی زوجہ فاطمہ ایک کشتی میں اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ مدینے آگئیں۔ عبداللہ بن حارث بن محمد بن حاطب نے اپنے والد سے ،انہوں نے اپنے دادا محمد سےروایت کی کہ جب ہم حبشہ سے واپس آئے تو میری والدہ مجھے حضورِاکرم کی خدمت میں لے گئی،اور گویا ہوئیں، یارسول اللہ یہ لڑکا آپ کے بھائی کا بیٹا ہے،جو آگ میں جل کر مرگیاتھا،آپ اس کے لئے دعافرمائیں،ہم محمدبن حاطب کے ترجمے میں اس کا ذکر کر آئے ہیں،ابنِ مندہ اور ابونعیم نے ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔

مزید

(سیّدہ )فاطمہ( رضی اللہ عنہا)

فاطمہ دختر ولید بن مغیرہ مخزومیہ جو خالد بن ولید کی ہمشیر تھیں،اور اپنے عمزاد حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی کی زوجہ،فتح مکہ کے موقعہ پر ایمان قبول کیا،ایک روایت میں ہے کہ حارث کے بعد عمر نے ان سے نکاح کیا،لیکن روایت مخدوش ہے۔ ابنِ مندہ اور ابونعیم نے فاطمہ دختر ولید قرشیہ لکھاہے،اور دونوں نے ان سے حدیث ازار نقل کی ہے،جیسا کہ ہم ذکر کرآئے ہیں،تینوں نے ان کا ذکر کیاہے۔ ابنِ اثیر کہتے ہیں،کہ ابو عمر نے اس حدیث کو فاطمہ دختر ولید بن عتبہ عبثمیہ کے ترجمے میں ذکر کیا ہے،اور ابنِ مندہ اور ابونعیم نے فاطمہ قرشیہ کے ترجمے میں بیان کیا ہے،اور وہ حدیث قرشیہ مخزومیہ کے بارے میں ہے،اور ہمارے اس استدلال کواس امر سے تقویت مِلتی ہے،کہ بعض راویوں نے اس حدیث کو فاطمہ دختر ولید سے،جو ابوبکر کی والدہ تھیں روایت کیا ہے،اور وہ شام میں تھی،اور فاطمہ مخزومیہ ہی اپنے خاوند حارث بن ہشام۔۔۔

مزید

(سیّدہ )فاطمہ( رضی اللہ عنہا)

فاطمہ دختر یمان جو حذیفہ بن یمان کی ہمشیر ہ تھیں،ہم ان کانسب ان کے بھائی کے ترجمے میں لکھ آئے ہیں،عبدالوہاب بن ابی حبہ نے باسنادہ عبداللہ بن احمد سے ،انہوں نے اپنے والد سے ،انہوں نے محمد بن جعفر سے،انہوں نے شعبہ سے،انہوں نے حصین سے،انہوں نے ابوعبیدہ بن حذیفہ سے،انہوں نے اپنی پھوپھی فاطمہ سے روایت کی کہ ہم حضورِ اکرم کی خدمت میں بعض خواتین کی عیادت کے لئے حاضر ہوئیں،ہم نے دیکھا کہ چھت سے ایک مشکیزہ لٹکاہوا تھا،جس سے پانی کے قطرے (گرمی کی شدت دور کرنے کے لئے )آپ پر ٹپک رہے تھے،ہم نے کہا،آپ دعا فرمائیں، تاکہ شدت گرما آپ سے رفع ہوجائے فرمایا،انبیاء پر ہی مصائب کانزول زیادہ ہوتاہےاور پھر ان لوگوں پر جو ان کے قریب ترہوتے ہیں۔ نیز اس خاتون نے روایت کیا کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عورتوں کے سونے کے زیورات کو ناپسند کرتے تھے،یہ روایت اگر صحیح ہے تو اب منسوخ۔۔۔

مزید

(سیّدہ )فریعہ( رضی اللہ عنہا)

فریعہ دختر مالک بن سنان جو ابوسعید خدری کی بہن تھی،ہم ان کا نسب پہلے انکی بہن کے ترجمے میں لکھ کر آئے ہیں،ایک روایت میں ان کانام فارعہ مذکور ہے،بیعت رضوان میں موجود تھیں،ان کی والدہ حبیبہ دختر عبداللہ بن ابی سلول تھیں۔ ابو احمد بن سکینہ نے باسنادہ ابو داؤد سے انہوں نے عبداللہ بن مسلمہ قعتبی سے انہوں نے مالک سے،انہوں نے سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ سے،انہوں نے ان کی پھوپھی زینب دختر کعب بن عجرہ سے روایت کی،کہ فریعہ دختر مالک بن سنان حضوراکرم کی خدمت میں حاضر ہوئیں،کہ آپ سے اپنے خاندان بنو خدرہ میں لوٹ جائیں،کیونکہ ان کا خاوند اپنے غلاموں کی(جو بھاگ گئے تھے)، تلاش میں نکلا تھا،وہ وادی قدوم کے کنارے پر پہنچے تھے،کہ اس نے انہیں جا لیا،انہوں نے اس قتل کردیا،فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مکے چلے جانے کی اجازت مانگی،کیونکہ نہ تو میرے لئے رہنے کا م۔۔۔

مزید

(سیّدہ )فکیہہ( رضی اللہ عنہا)

فکیہہ دختر یسار جو خطاب بن حارث کی زوجہ تھیں،ابو موسیٰ نے اذناً ابوعلی سے،انہوں نے ابونعیم سے،انہوں نے محمد بن احمد بن حسن سے،انہوں نے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ سے،انہوں نے منجاب بن حارث سے،انہوں نے ابراہیم بن یوسف سے،انہوں نے زیاد بن عبداللہ بکائی سے، انہوں نے محمد بن اسحاق سے،بہ سلسلہ خواتین کہ جنہوں نے مکے میں اسلام قبول کیا، اور ہجرت کی، فکیہہ دختریسار کا،جو خطاب بن حارث کی زوجہ تھیں،کانام لیا،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے ذکر کیا ہے۔ ۔۔۔

مزید

(سیّدہ )ہالہ( رضی اللہ عنہا)

ہالہ دختر خویلد بن اسد بن عبدالعزی قرشیہ اسدیہ ،جناب خدیجتہ الکبریٰ کی ہمشیرہ تھیں،جناب عائشہ کی حدیث میں ان کا ذکر آتا ہے۔ مسمار بن عبدالعزیز بن عویس اور ابوالفرح محمد بن عبدالرحمٰن وغیرہ نے باسنادہم محمد بن اسماعیل سے،انہوں نے اسماعیل بن خلیل سے،انہوں نے علی بن مہر سے،انہوں نے ہشام بن عروہ سے،انہوں نےاپنے والد سے ،انہوں نے عائشہ سے روایت کی ،کہ ایک دفعہ ہالہ جناب خدیجہ کی ہمشیرہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئیں،ان کے آنے سے آپ کو خدیجہ یاد آگئیں،اور آپ پر خوشی اور مسرت طاری ہوگئی،اور فرمایا،اے اللہ تو ہالہ کو اپنی برکتوں سے نواز،جس سے وہ بیحد مسرور ہوئیں جناب عائشہ نے کہا،یارسول اللہ ،آپ قریش کی ایک بڑھیا کوجس کے گال سُرخ تھے اور جسے مرے زمانہ گزر چکا ہے،کیوں یاد فرماتے ہیں،حالانکہ اللہ نے آپ کو اس سے بہتر بیویاں عطا کیں ہیں،ابو مندہ اور ابو ن۔۔۔

مزید

(سیّدہ )ہجمیہ( رضی اللہ عنہا)

ہجمیہ بروایتے خیرہ ام الدرداء،ان کے نام اور صحبت کی متعلق اختلاف ہے،ابن مندہ اور ابو نعیم نے اسی طرح اختصار سے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابنِ اثیر لکھتے ہیں کہ ابونعیم اور ابوموسیٰ(؟)کی تحریر سے معلوم ہوت ہے کہ ہجمیہ اور خیرہ دونوں ایک ہیں،اور اختلاف ان کے نام اور صحبت کے بارے میں ہے،اور ابوموسیٰ نے بے سوچے سمجھے ابونعیم کی تقلید کی ہے،حالانکہ خیرہ دو ہیں،خیرۃ الکبریٰ جسے صحبت حاصل ہوئی ،اور خیرۃ الصغریٰ جو صحبت سے محروم رہی،ہم نے خیرہ ترجمے میں وضاحت کر دی ہے۔ ۔۔۔

مزید

(سیّدہ )ہزیلہ( رضی اللہ عنہا)

ہزیلہ دختر حارث بن حزن ہلالیہ،ام المومنین میمونہ کی ہمشیرہ تھیں،بقولِ جعفر یہ ام حفید کا نام ہے، یہ وہ خاتون ہیں ،جنہوں نے جناب میمونہ کو گوہ،پنیر اور گھی بطور تحفہ پیش کیا تھا،انہوں نے ایک بدو سے نکاح کیاہواتھا،قعتبی نے مالک سے،ا نہوں نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابو صعصعہ سے ، انہوں نے سلیمان بن یسار سے روایت کی،کہ حضورِاکرم میمونہ دختر حارث کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے گوہ،جس میں انڈے بھی تھے پیش کیا،دریافت فرمایا،یہ اشیاء کہاں سے آئی ہیں، انہوں نے کہا میری بہن ہزیلہ نے بطور تحفہ بھیجی ہیں،حضورِاکرم کے ساتھ عبداللہ بن عباس اور خالد بن ولید بھی تھے آپ نے انہیں کھانے کو کہا،انہوں نے دریافت کیا آپ نہیں کھائیں گے، آپ نے فرمایا خدا کی طرف سے مجھے کِسی قاصد کا انتظارہے،تینوں نے ذکرکیاہے۔ ۔۔۔

مزید

(سیّدہ )ہمینہ( رضی اللہ عنہا)

ہمینہ دختر خالد یا خلف بن اسعد بن عامر بن بیاضہ بن سبیع بن جعثمہ بن سعد بن ملیح بن عمرو بن ربیعہ خزاعیہ،ایک روایت میں ہمینہ دختر خلف ہےاور یہی درست ہے،یہ خاتون عبداللہ بن خلف کی (جو طلحہ الطلحات کے والد تھے)ہمشیرہ تھیں،اپنے شوہر خالد بن سعید بن عاص کے ساتھ حبشہ کوہجرت کی،وہاں ان کے دو بچے سعید اور امہ پیداہوئے،وہاں انہوں نے امتہ الزبیر بن عوام سے نکاح کیا، اور خالد اور عمر دولڑکے پیدا ہوئے،وہاں منجاب بن حارث نے زیاد بن عبداللہ البکائی سے،انہوں نے ابن اسحاق سے بہ سلسلۂ مہاجرین حبشہ خالد بن سعید اور ان کی زوجہ ہمینہ کانام لیا ہے،ابو نعیم اور ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ابنِ اثیر نے ان کا نسب بربنائے شک خالد یا خلف لکھا ہے،اور ابونعیم نے بغیر از شک خالد لکھاہے، اوردونوں نے یہ روایت ابن اسحاق سے بواسطئہ بکائی بیان کی ہے،ہماری اسناد ابنِ ہشام از بکائی ازابنِ اسحاق ۔۔۔

مزید