اُن کے روضے پہ بہاروں کی وہ زیبائی ہے جیسے فردوس پہ فردوس اُتر آئی ہے پاؤں چھو جائے تو پتھر کا جگر موم کرے ہاتھ لگ جائے تو شرمندہ مسیحائی ہے جانے کیوں عرش کی قندیل بجھی جاتی ہے ان کے جلووں میں نظر جب سے نہا آئی ہے مل گئی ہے سرِ بالیں جو قدم کی آہٹ روح جاتی ہوئی شرما کے پلٹ آئی ہے سر پہ سر کیوں نہ جھکیں ان کے قدم پہ ارؔشد اک غلامی ہے تو کونین کی آقائی ہے۔۔۔
مزیدتم نقشِ تمنّائے قلمدانِ رضا ہو برکات کا سورج ہو بریلی کی ضیا ہو جب خالق ِ کونین ہی خود مدح سرا ہو ’’نعتِ شہِ کونین کا حق کس سے ادا ہو‘‘ ہر آن پہ ہو جب کہ مدارج میں ترقی ’’نعتِ شہ کونین کا حق کس سے ادا ہو‘‘ جبرئیل بھی بے مثلی پہ جب مہر لگائیں ’’نعتِ شہ کونین کا حق کس سے ادا ہو‘‘ فردوس میں جب جب بھی ہوئی نعت کی محفل آقا نے کہا اہلِ بریلی کا بھلا ہو کیوں اپنی گلی میں وہ روا دارِ صدا ہو بن مانگے جو ہر آن میں مصروفِ عطا ہو اک آن میں ارؔشد کی بھی تقدیر سنور جائے گر دستِ کرم اُن کا مِری سمت اٹھا ہو۔۔۔
مزیدتیرے قدموں میں شجاعت نے قسم کھائی ہے یاد آئے گی تِری یاد کی ہر محفل میں عزم و ہمت کے مریضوں سے یہ کہہ دے کوئی جان آجائے گی شبیر کو رکھ لو دل میں۔۔۔
مزیداپنے مستوں کی بھی کچھ تجھ کو خبر ہے ساقی مجلسِ کیف تِری زیر و زبر ہے ساقی اب نہ وہ دن ہیں نہ وہ شام و سحر ہے ساقی بند مَے خانۂ فیضانِ نظر ہے ساقی بات مت پوچھ غمِ عشق کے افسانوں کی خاک چہروں پہ اڑا کرتی ہے ویرانوں کی اب تو جنّت بھی ہے سرکار کی قربت بھی ہے تِرے مولا کی تِرے حال پہ رحمت بھی ہے زیبِ سر تاجِ شہہِ ملکِ ولایت بھی ہے ہاتھ میں عالمِ جاوید کی دولت بھی ہے جب سبھی کچھ ہے تو خیرات لٹا دے ساقی چشمِ مخمور سے پھر جام پلا دے ساقی تِرے دربار میں پھر شور ہے مے خواروں کا حوصلہ تشنہ نہ رہ جائے وفا داروں کا آ کے اب حال ذرا دیکھ لے بیماروں کا واسطہ دیتے ہیں ساقی تِرے سرکاروں کا بہرِ تسکین یہ تکلیف گوارا ہو جائےآج تربت سے نکل آ کہ نظارا ہو جائے اک نظر ڈال کے دنیا تہہ و بالا کر دےبزمِ دل نورِ تجلی سے اجالا کر دے۔۔۔
مزیدآبگینوں میں شہیدوں کا لہو بھرتے ہیں صبح سے آج فلک والوں میں بے تابی ہے ہو نہ ہو اس عرقِ روحِ عمل سے مقصود شجرِ امّتِ مرحوم کی شادابی ہے۔۔۔
مزیدہاتھ پکڑا ہے تو تا حشر نبھانا یا غوث اب کسی حال میں دامن نہ چھڑانا یا غوث اپنے ہی کوچے میں سرشارِ تمنّا رکھنا اپنے محتاج کو در در نہ پھرانا یا غوث دل سے اترے نہ کبھی تیرے تصور کا خمار ایسا اک جام حضوری کا پلانا یا غوث تیرے نانا کی سخاوت کی قسم ہے تجھ کو اپنے در سے ہمیں خالی نہ پھرانا یا غوث دوست خوش ہوں مِرے دشمن کو پشیمانی ہو کام بگڑے ہوئے اس طرح بنانا یا غوث آستیں اپنی بڑھانا مِری پلکوں کی طرف اپنے غم میں ہمیں جب جب بھی رلانا یا غوث کبھی آنکھوں میں کبھی خانۂ دل میں رہنا روح بن کر مِری رگ رگ میں سمانا یا غوث نسبت ِ حلقہ بگوشی کا بھرم رکھ لینا بہرِ امداد مِری قبر میں آنا یا غوث آبگینہ مِری اُمّید کا ٹوٹے نہ حضور دردِ حسرت سے مِرے دل کو بچانا یا غوث تیرے جلووں سے ہیں کتنے ہی شبستاں روشن میرے دل میں بھی کوئی شمع جلانا یا غوث کسی منجدھار سے ارؔشد کی صدا آتی ہےم۔۔۔
مزیدپیار سے تم کو فرشتوں نے جگایا ہوگا اور جنّت کی بہاروں میں سلایا ہوگا تیری ٹھوکر میں جو آیا اسے ٹھوکر نہ لگی کیا گرے گا وہ جسے تو نے سنبھالا ہوگا قبر بھی منزلِ عشاقِ نبی ہے، یارو! کہ وہیں چہرۂ زیبا کا نظارا ہوگا شمعِ عشقِ رخِ شہ ساتھ گئی ہے جب تو روز و شب مرقدِ نوری میں اُجالا ہوگا کہہ کہ لبیک یہ دنیا جو سمٹ آئی ہے آپ نے مرقدِ اَنور سے پکارا ہوگا اپنی دنیا میں جو محبوب سے تنہا نہ رہا منزلِ قبر میں کیوں کر وہ اکیلا ہوگا آستانے سے چلے جائیں تہی دامن ہم اُن کی غیرت کو بھلا کیسے گوارا ہوگا مصطفی ٰ کی جو رضا بن کے گیا ہے ارؔشد اُس کے اعزاز میں کیا جانیے کیا کیا ہوگا۔۔۔
مزیدخون ہے یہ شہِ لولاک کے شہزادوں کا کوئی قیمت بھی لگائے تو لگائے کیوں کر عفوِ امت پہ صلح کرنے کو آمادہ ہے سیّدہ آپ کا ممنون ہے سارا محشر۔۔۔
مزیداُس پہ کھل جائے ابھی تیغِ علی کا جوہر چشمِ ساقی کی اگر کوئی نظر پہچانے وحشتِ شوق کو کہہ دو ابھی آواز نہ دے اپنے سرکار کی سرکار میں ہیں دیوانے اب بدلنے کا نہیں کیف و جنوں کا موسمدرِ مُرشِد پہ کھلے ہیں ابدی مَے خانے۔۔۔
مزیدمدینے کا مسافر ہند سے پہنچا مدینے میں قدم رکھنے کی نوبت بھی نہ آئی تھی سفینے میں۔۔۔
مزیدان موتیوں کی تابشیں دنیا کو ہیں محیط سی پی میں گرچہ ان کو نہاں دیکھتا ہوں میں ۔۔۔
مزیدموسمِ گُل ہے بہاروں کی نگہبانی ہے میرے گھر قافلۂ عیش کی مہمانی ہے مستی و کیف میں ہنگام ِ غزل خوانی ہے جس طرف دیکھیے جلووں کی فراوانی ہے باغِ فردوس سے بارات اُتر آئی ہے چاندنی بامِ شریعت پہ نکھر آئی ہے آج بن آئی ہے اسلام کے معماروں کی رحمتیں پھوٹ پڑی ہیں مِرے سرکاروں کی کوئی توقیر تو دیکھے ذرا دستاروں کی کتنی پیاری ہے خوشی اپنے فدا کاروں کی آگئی بادِ صبا خلوتِ زیبا لے کر باغِ طیبہ سے مہکتا ہوا سہرا لے کر حافظ ِ ملّتِ بَیضا کی نظر کا تارا یعنی محبوب و محب دونوں کے دل کا پیارا باپ مشرق کا تو فرزند ہے مغرب کا امام دونوں مل جائیں تو قبضے میں ہو عالَم کا نظارا گُلِ عباس کی خوشبو سے معطر دامن اور شبیر کے چہرے پہ مہکتا گلشن وادیِ شوق میں قاسم سا جواں سال بھی ہے خود وہ تنہا نہیں عباس کا اقبال بھی ہے ایک حجن جسے کہتے ہیں دلھن کی دادی ان کے ارمان کا آئینہ ہے ساری شادی کتنے مسر۔۔۔
مزید